دینی مدارس پر حکومت کا کنٹرول۔۔۔؟

دینی مدارس کے مسائل ومعاملات کوہم نے ہمیشہ عالمی طاقتوں کے ایجنڈے ونظرسے دیکھااوراس کے بعدریاست نے جوبھی اقدامات کیے وہ اسی تناظرمیں کیے ،ہم نے کبھی بھی مدارس کواپنی نظراوراپنے ایجنڈے سے دیکھا نہ مسائل ومعاملات حل کرنے کی کوشش کی ہے ،گزشتہ کچھ سالوں سے عالمی طاقتوں کاخیال ہے کہ مدارس کوپرانی ڈگرسے ہٹایاجائے ان کے نظام ونصاب میں تبدیلیاں کی جائیں ان کوسرکاری کنٹرول میں دیاجائے مدارس کے طلباء کوفکری طورپرآزادنہیں بلکہ بے لگام کیاجائے تواس کے بعدشایدہماری ریاست بھی عالمی دنیاکوقابل قبول ہوگی ورنہ ہم پتھرکے دورمیں ہی رہیں گے ۔

مدارس کے نظریہ وکردارکوبدلنے کے لیے سب سے پہلے سابق آمرپرویزمشرف نے وارکیا اوررجسٹریشن کی آڑمیں مدارس پردھاوابولا پوری طاقت سے پہلے مدارس کوسرکاری کنٹرول میں لینے یا ختم کرنے کی کوشش کی جب یہ حربہ کامیاب نہ ہوسکاتوپھرعالمی طاقتوں نے دوسراحربہ استعمال کرتے ہوئے ،،ڈالرز،،کی بارش کی۔ پرویزمشرف اوران کی ٹیم نے مدارس کولالچ دی کہ وہ حکومت سے فنڈزاورخرچہ لیں اورایک سرکاری بورڈ بنایاجائے جس کے تحت تمام مدارس کام کریں گے مگرمدارس کی قیادت نے یہ چال بھی مستردکردی تواس وقت کی حکومت نے وہ رقم ہضم کرنے کے لیے ،،ماڈل دینی مدارس ،،کے نام سے ڈھگوسلہ قائم کیا جوآج تک کامیاب نہیں ہوسکاہے ماڈل دینی مدارس کے نام سے قائم تین مدارس کی حالت قابل رحم ہے ۔

اب اس سے اگلامرحلہ شروع ہواپرویزمشرف کی ناعاقبت اندیشانہ پالیسوں سے ملک دہشت گردی کاشکارہواتواس کانزلہ بھی دینی مدارس پرگرا،عالمی ایجنڈے کے تحت دینی مدارس کے خلاف ایک زہریلی مہم شروع کی گئی کہ مدارس پرانتہاپسندی اوردہشت گردی کے الزاعات لگائے گئے،داڑھی اورپگڑھی کوبدنام کیاگیا یہ مہم آج تک جاری ہے حالانکہ دینی مدارس نے ہمیشہ ریاست کاساتھ دیاہے،ریاست کو جب ،جہاں ضرورت پڑی تومدارس نے اپناکرداراداکیا مگرمدارس پرجب افتادپڑی توریاست نے مدارس کے ساتھ سوتیلی ماں جیساسلو ک کیا۔

اس زہریلی مہم کے بعد دینی مدارس کے طلباء کوقومی دھارے میں لانے کاقومی وبین الاقوامی کھیل شروع ہوامختلف این جی اوزمیدان میں آئیں کسی نے مدرسے میں کرکٹ ٹورنامنٹ کرواکرپیسے کھرے کیے توکسی نے گرمی کے ماحول میں مری اوردیگرسیاحتی مقامات پرراؤنڈٹیبل کانفرنسیں منعقدکرکے ڈالرزحلال کیے ،مدارس کے طلباء کومکالمہ وبیانیہ سکھانے کی ترکیبیں سامنے آئیں ،نصاب تعلیم بدلنے کی ترغیبیں دی گئیں اس کے لیے جیدعلماء کرام کوبیرون ملک دورے کروائے گئے ،مدارس اورعصری تعلیمی اداروں کے باہمی اشتراک سے پروگرام منعقدکیے گئے ،بڑے بڑے علماء کے صاحبزدگان کواعتدال کے نام پربے اعتدالی کے جام پلائے گئے،مدرسہ ریفارمزکے نام سے پروجیکٹ بنائے گئے غرضیکہ کونساحربہ ہے جواستعمال نہیں کیا گیا ؟اس وقت یہ طاقتیں مذہبی این جی اوز کے ذریعے یہ کھیل کھیل رہی ہیں ، کیتھولک مسیحی یونیورسٹی پاکستان کے مدارس کی فکری تشکیل نو کے مشن پرگامزن ہے ۔اب مدرسہ ڈسکورسزکی اصطلاح منظرعام پرآئی ہے اس حوالے سے پھرتفصیل سے لکھوں گا فی الحال موجودہ حکومت اوردینی مدارس کی قیادت کی قیادت کے درمیان جومذاکرات ہورہے ہیں ان پرکچھ گزارشات پیش کرنی ہیں ۔

یوں محسوس ہورہاہے کہ موجودہ حکومت بھی مدارس کے ساتھ پرویزمشرف والے ایجنڈے کوآگے بڑھارہی ہے اورریاستی ادارے بھی اس ایجنڈے میں ان کے ہمنواہیں پہلے یہ کام این جی اوزکے ذریعے کروایاجارہاتھا اب یہ ٹھیکہ حکومت اورریاستی اداروں نے لے لیاہے ۔ دینی مدارس کے مسائل کیاہیں ؟حکومت اورریاست کوسب معلوم ہے مگرحکومت اورریاست ان مسائل کوحل کرنے کی بجائے اپناایجنڈہ بزورطاقت منوانے کی کوشش کررہے ہیں ۔دینی مدارس کے پہلے دن سے یہ مسائل ہیں کہ ان کے وفاقوں کوامتحانی بورڈ زکادرجہ دیاجائے جس طرح پبلک سیکٹرمیں تقریباتیس سے زائدایسے تعلیمی بورڈزموجود ہیں ۔دینی مدارس کے مسائل یہ ہیں کہ ان کی رجسٹریشن میں رکاوٹیں دورکی جائیں کوئی مدرسہ ایسانہیں جورجسٹریشن نہیں کرواناچاہتا۔دینی مدارس کے مسائل یہ ہیں کہ ان کے بنک اکاؤنٹ کھولنے پرعائدغیراعلانیہ پابندی ختم کی جائے ۔غیرملکی طلباء کے کے ویزوں کے مسائل حل کیے جائیں ،ڈیٹااکٹھا کرنے کے نام پرباربارمدارس کوتنگ نہ کیاجائے ۔مدارس کے مسائل یہ ہیں کہ ہرسال لاکھوں کی تعدادمیں طلباء وطالبات درس نظامی سے فراغت حاصل کررہے ہیں حکومت اورریاست ان کی اسنادکوقانونی شکل دے ۔مدارس کے مسائل یہ ہیں کہ سیکورٹی اداروں کی طرف سے بلاجوازچھاپوں کی وجہ سے مدار س کاکردارمشکوک ہورہاہے ان چھاپوں کاسلسلہ بندکیاجائے ۔مدارس یہ کہتے ہیں کہ پورے ملک میں یکساں نصاب تعلیم کاسسٹم رائج کیاجائے ہم اس میں آپ کے ساتھ صف اول میں کھڑے ہوں گے ۔مدار س یہ کہتے ہیں کہ ہم دہشت گردی ،انتہاپسندی ،فرقہ واریت کے خلاف ہیں تمام مدار س کے ذمے داران نے ،،پیغام پاکستان ،،پردستخط کرکے اس کاعملی ثبوت بھی دیاہے اس لیے ایسے بے ہودہ الزامات ہم پرعائدنہ کیے جائیں ۔

دوسری طرف حکومت اورریاست ان مسائل حل کرنے کی بجائے یہ کہہ رہی ہے کہ مدارس درس نظامی کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم لازمی پڑھائیں ۔حالانکہ دیگرتعلیمی اداروں کوکبھی یہ نہیں کہاگیاکہ ایک اسلامی ونظریاتی ملک میں آپ لازمی طورپر اسلامی مضامین پڑھائیں ؟حکومت اورریاست مدارس کے مندرجہ بالامسائل حل کرنے کی بجائے یہ کہے رہی ہے کہ مدار س میں پڑھائے جانے والے تمام (درس نظامی وعصری)مضامین کاامتحان وزارت تعلیم لے گی ،حالانکہ یہ ممکن نہیں کیوں کہ وزارت تعلیم کے ،،بابووں ،،کو درس نظامی میں پڑھائے جانے والی کتب پرعبورہی نہیں وہ امتحان کیسے لیں گے ؟دراصل یہ مدارس اوران کے سسٹم پرعدم اعتمادکی نشانی ہے ورنہ کبھی کسی نے یہ کہاہے کہ سکولز،کالجزاوریونیورسٹی میں جوچنداسلامی مضامین پڑھائے جاتے ہیں ان کاامتحان اہل مدارس یاعلماء لیں گے ؟حکومت اورریاست ملک میں قائم تیس ہزارسے زائدمدارس کے پانچ وفاقوں کوامتحانی بورڈ زکادرجہ دینے کوتیارنہیں اس کی بجائے مدارس کووزارت تعلیم سے منسلک کرکے ان پراحسان کیاجارہاہے مزیدیہ کہ مدارس پر وفاقی وزارت تعلیم کے ذریعے کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے حالانکہ وزارت تعلیم کے ماتحت عصری تعلیمی اداروں کاجوحال ہے وہ قوم کے سامنے ہے ہرگلی محلے میں الگ نظام تعلیم ونصاب تعلیم پڑھایاجارہاہے ۔ایک گھرمیں دومختلف سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے الگ نظام تعلیم ونصاب سے منسلک ہیں تعلیم کوبازیچہ اطفال بنادیاگیاہے پرائیویٹ سکولوں کی بھرمارہے کوئی پوچھنے والانہیں ۔ہمارے معیارتعلیم کاحال یہ ہے کہ دنیاکی پہلی پانچ سویونیورسٹیوں میں ہماری195یونیورسٹیوں میں سے صرف ایک یونیورسٹی جگہ بناتی ہے اس کانمبربھی 480کے بعدآتاہے ۔مگرہمیں مدارس کی فکرکھائے جارہی ہے حالانکہ مدارس آپ سے کچھ بھی نہیں مانگتے آ پ پربوجھ نہیں ہیں آپ کی شرح تعلیم میں اضافے کاسبب بن رہے ہیں ۔یہ ادارے دوردرازدیہات اورگاؤں سے بچوں کو تعلیم دے کرایک باشعورشہری بنارہے ہیں ۔

یادرکھیں کہ مدارس حکومت یاکسی غیرملکی این جی اوسے فنڈزنہیں لیتے ،اہل خیرکے تعاون سے چلتے ہیں مگرمدارس کے تعاون کے ذرائع مسدودکیے جارہے ہیں ان پرقدغنیں لگائی جارہی ہیں تاکہ مدارس کاگلاگھونٹاجاسکے یوں محسوس ہوتاہے کہ ریاست اپنے ماضی سے لڑرہی ہے ،ریاست ان تمام نشانات کومٹاناچاہتی ہے جن سے کہیں بھی مذہب ،نظریہ اسلام کی خوشبوآتی ہے ۔

16جولائی کوعلماء کرام کی چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمرباجوہ اور17جولائی کووفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود سے مدارس کے معاملاتپر ملاقات کی اس ملاقات کے بعد چندناعاقبت اندیش افرادکی طرف سے مختلف غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں اس میں کچھ کردارحکومتی اداروں کابھی ہے کیوں کہ ہمارے وزیراعظم امریکہ جانے سے قبل یہ باورکراناچاہتے تھے کہ مدارس پربھی انہوں نے کنٹرول حاصل کرلیاہے اگروہ یہ باورنہیں کروائیں گے توظاہرہے امریکہ ناراض ہوجائے گا یہ غلط فہمیاں پھیلانے کامقصدیہ ہوسکتاہے کہ مدرسہ ریفارمزکے نام سے ہمیں امریکہ سے کوئی گرانٹ مل جائے ۔امریکہ سے مدارس کے خلاف اقدامات کاسرٹیفیکیٹ بھی حاصل ہوجائے گا ۔ان ملاقاتوں میں پانچوں وفاقوں کی قیادت نے وہی مؤقف پیش کیاہے جومدارس کے لیے بہترہے ۔مدارس حکومتی کنٹرول میں نہیں جارہے ہیں ۔
 

Umer Farooq
About the Author: Umer Farooq Read More Articles by Umer Farooq: 129 Articles with 81528 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.