فیس بک یا فیک بک

یوں تو سوشل میڈیا کے اور ویب سائٹس بھی موجود ہیں لیکن فیس بک ہمارے عہد کا لازمی جز بن گیا ہے ،بچے بوڑھے، خواتین سبھی فیس بک کے رسیا ہیں ۔گھر میں اگر پانچ افراد ہیں تو ان سب کا فارغ وقت فیس بک پر ہی گزرتا ہے یوں لگتا ہے جیسے ہم فیس بک کے عہد میں نہیں بلکہ فیس بک پر زندہ ہیں۔اس سماجی ویب سائٹ نے ہمارے طور طریقوں کو مکمل طورپر بدل ڈالا ہے۔ فیس بک کے بانی مارک زکر برگ کو اگر یہ پتہ ہوتا کہ اس کی بنائی ہوئی سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ’’فیس بک ‘‘ کو لوگ دھوکہ دہی، فریب اور پروپیگنڈہ کے لئے بھی استعمال کریں گے تو وہ اسے فیس بک کی بجائے ’فیک بک‘ کا نام ہی دے دیتے۔کیونکہ نو جوانوں کی ایک بڑی تعداد فیس بک کے ذریعے بہت سے غلط کام بھی کر رہی ہے، زمانہ جس رفتار سے آگے کی طرف بڑھ رہا ہے ،جذباتی طور پر ہم پیچھے جارہے ہیں۔اپنا ئیت اور خلوص ختم ہوتا جا رہا ہے۔مثلا اپ محبت جیسے پاک جذبہ انسانی کو ہی لے لیجئے جب ہم جوان تھے تو یہ ایک بڑا مشکل ترین اور خطر ناک کام سمجھا جاتا تھا۔پہلے جب دو اور دو آنکھیں چار ہو جاتی تھیں ،ایک دوسرے پر کنکھیوں سے وار شروع ہوتا،کئی روز تک پیچھا کرکے اپنی محبت کا یقین دلایا جاتا،ایک کاغذ پر ادھر ادھر سے اشعار ڈھونڈ کر لکھتے، پھر کاغذ پر دل کی شکل بنا کر اس میں تیر پیوست کرکے کسی طریقہ سے محبوب کے نظروں کے سامنے نذرانہ کی صورت میں پیش کرتے ۔پھرانتظار ہوتا کہ رقعہ کا جواب آتا ہے یا محبوبہ کے بھائی کا عتاب آتا ہے۔

اب فیس بک نے محبت کے اس سلسلے کو بہت آسان کر دیا ہے۔ بہت سے نوجوان فیک آئی ڈی بنا کر ،اپنی پروفائل پر کسی حسیں لڑکی کی تصویر لگا کر محبت کا سلسلہ شروع کرتے ہیں۔ اس کا شکار بھی عموما نو جوان ہی ہوتے ہیں۔ وہ اِن باکس میں پہلا پیغام ’’ہائے ‘‘ لکھ کر بھیجتے ہیں۔اگر جواب ہائے سے اجائے تو دل کا پھول اور خود ایک فول بن جاتا ہے ۔ پھر’’ آئی لو یو‘‘ کی تکرار شروع ہو جاتی ہے۔ اور یوں محبت کا یہ سلسلہ کچھ عرصہ تک چلتا رہتا ہے ۔اور پھرپیغام آتا ہے۔

فیس بک پر جو تمھارے لئے گلنار تھی، میں تھا وہ۔۔۔۔وہ جو الہڑ سی بڑی شوخ سی مٹیار تھی، میں تھا وہ
تم کو یہ جان کے ممکن ہے ،پریشانی سی ہو ۔۔۔۔۔۔ وہ جو معقول سے رشتہ کی طلبگار تھی، میں تھا وہ
وہ جو آمادہ امداد تھے ہر وقت تم تھے وہ۔۔۔۔۔۔وہ جو پانچ سو روپے لوڈ کرنے کی طلبگار تھی،میں تھا وہ

یوں محبت کا یہ سلسلہ ختم ہو جاتا ہے اور پھر دوسرے کسی فیک آئی ڈی پر اسی قسم کا سلسہ شروع ہو جاتا ہے، جس کا انجام بھی پہلے جیسا ہی ہوتا ہے۔محبت کے اس فضول سلسلے کے بعد اگر ہم فیس بک کے دیگر نقصانات کا ذکر کریں تو وہ اس سے بھی زیادہ نقصان دہ ہیں۔من گھڑت اور بے بنیاد خبریں پھیلانے، کسی کو برا بھلا کہنے،حریفوں کے خلاف پرو پیگنڈہ کرنے اور بے ہودہ قسم کے ویڈیو شئیر کرنے کے لئے بھی فیس بک کا استعمال ہو رہا ہے۔جو معاشرے میں موجود مختلف طبقات کے درمیان نفرت کا باعث بن رہی ہیں۔اور اب تو شیطان بھی فیس بک پر کام کرتا نظر آتا ہے،وہ ہماری سر گر میوں پر نظر رکھتا ہے اس لئے جب یار لوگ کسی نیکی اور تقویٰ پر مبنی کوئی پوسٹ شئیر کرتے ہیں تو ساتھ ہی ہمیں خبر دار کیا جاتا ہے کہ اس پوسٹ کو لائیک کرنے یا شیئر کرنے سے شیطان آپ کو روکے گا ،، یہ الگ بات ہے کہ ایسی پوسٹ دیکھ کر ہم اسے لائیک کرتے ہیں ، آگے شیئر کرتے ہیں کیونکہ ہماری غیرتِ ایمانی یہ گوارہ نہیں کرتی کہ شیطان ملعون کے رکنے سے ہم رک ہی جائیں ۔ان تمام باتوں کے باوجود اس کے کچھ فائدے ضرور ہیں ،جس کا ذکر نہ کرنا فیس بک کے متوالوں سے زیادتی ہو گی۔ مثلا اس کے ذریعے ہم ایک دوسرے کے سالگرہ دن سے باخبر رہتے ہیں۔سالگرہ مبارک کہتے ہیں ، تعزیت بھی فیس بک پر ہی کرتے ہیں ،سیاست بھی اسی پر کرتے ہیں،ایک دوسرے پر تنقید کے نشتر چلانے کا کام بھی فیس بک پر ہی کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ابھی دنیا اچھے لوگوں سے خالی نہیں ہوئی، اس لئے فیس بک پر اچھے مرد و خواتین بھی مل جاتے ہیں ۔ جن سے تبادلہ خیالات ہمارے معلومات میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ یا ان کے پوسٹ بڑے دلچسپ اور معلوماتی ہو تے ہیں۔مگر فیس بک کی اس دنیا میں اچھے لوگ بہت کم اور برے لوگ زیادہ ملتے ہیں۔

با وجہ ازیں حکومت سے گزارش ہے ایران،چین اور اسی طرح کئی دیگر ممالک کی طرح فیس بک پر پابندی لگا دی جائے یا کم از کم فیس بک پر ہونے والی منفی سر گرمیوں کورکاجائے۔جو ہمارے معاشرے میں اقدار کی تباہی،غیر اخلاقی سرگرمیوں کی فروغ اور انتشار پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں۔جبکہ اس طرح کی زیادہ تر سرگرمیاں فیک آئی ڈیز کی مدد سے سر انجام دی جاتی ہیں،انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ما ہرین کا کہنا ہے کہ جعلی آئی ڈی بنانے والے کو تلاش کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے لئے وفاقی تحقیقاتی ادارے اور ایف آئی اے کے سائبر کرائم یونٹ کو جد و جہد کرنی ہو گی ، لہذا حکومت سے گزارش ہے کہ اگر وہ فیس بک کو بند نہیں کر سکتے تو وہ فیس بک کو’’ فیک بک‘‘ بنانے والوں کے خلاف کاروائی کا آغاز کرے۔
 

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315746 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More