ارشد رضوی دیکھنے میں تو بہت بہ ترتیب دکھائی دیتے ہیں ،
کہانیوں کے مجموعے میں جو کہانیاں میں پڑھ سکا ان میں بھی مجھے کہیں بے
ترتیبی دکھائی نہیں دی، پھریہ بے ترتیب کیسے ہوئیں ، اس کا عنوان تو ’’کچھ
بہ ترتیب کہانیاں ‘‘ ہونا چاہیے تھا ۔ اس کا جواز ارشد رضوی نے از خود یہ
دیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ’’جس بے ترتیب معاشرے میں مَیں نے آنکھ کھولی ہے
اُس نے ایسے ہی کردار مجھے دیئے ہیں ‘‘ ۔ موضوع جو اس مجموعہ سے ابھر کر
سامنے آتا ہے وہ ہے ’’کہانی‘‘ ۔ کہانی کے بارے میں بہت کچھ کہا جاچکا،ہم
آپ سب جانتے ہیں کہ کہانی کیا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ کہانی نے اُسی وقت جنم
لے لیاتھا جب آدم علیہ السلام اور اماں حوا کا ملاپ ہوا تھا ۔ وہ انسانی
زندگی کا آغاز بھی تھا اور کہانی کی ابتدا بھی ہونے جارہی تھی ۔ آدم اور
حوا کی اولادیں ہوتی گئیں ، آبادی میں اضافہ ہوتا رہا ،ساتھ ہی کہانی نے
بھی اپنا سفر جاری رکھا، کیا حابیل اور قابیل کا واقعہ سچی کہانی نہیں ۔
بہت سے کہانی کاروں نے حابیل اور قابیل کے واقعہ کو کہانی کا روپ دیا ۔ اس
کہانی میں چار کردار تھے، ایک وہ جس
پر دونوں بھائی جھگڑ پڑے ، دوسرا کردار حابیل ، تیسرا قابیل اور چوتھا ایک
پرندہ تھا، کہانی کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ، البتہ پرندہ جسے کوا
کہا گیا نے اپنے عمل سے حضرت ِانسان کو ایسا سبق دیا کہ وہ آج بھی اس پر
عمل پیرا ہے ۔ پھر دیو مالائی کہانیوں نے کیسے جنم لیا، اس میں بھی سچے قصے
کا کمال ہے، ملکہ سبا کا تخت اس کے پہنچنے سے پہلے حضرت سلیمان ;174; کے
دربار میں پہنچ جانا، پرندے کا خط ملکہ سبا تک پہنچانا وغیرہ ۔ انہیں قصہ
کہیے یا کہانی ایک سبق اس نے ہ میں ضرور دیا،میری رائے میں قصہ گوئی ہی
کہانی کی بنیاد بنا، قصہ یا واقعہ حقیقت پر مبنی ہوتا ہے اسے کہانی نہ سہی
سچی کہانی تو کہا جاسکتا ہے ۔ قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے
بھیجے گئے انبیا ء کے قصے بار بار دہرائے ہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام کا قصہ،
فرعون کا قصہ، جادوگروں کا قصہ ، موسی سے اللہ کے ہمکلام ہونے کا واقعہ،
حضرت یونس علیہ السلام کا مچھلی کا نگل لیا جانا، پھر خشکی پر اگل دینا،
پھر مختلف قوموں پر عذاب کا نازل کیا جانا،پتھروں کی بارش سے پوری قوم کو
تباہ و برباد کردینا، پرندوں نے ہاتھی والوں کا کیا انجام کیا، الغرض کہانی
نے انہی سچے واقعات سے جنم لیا ۔ کہانی کی بنیاد ، مرکز و منبع سچے واقعات
ہی ہیں ۔ پھر جب دنیا آباد ہوگئی ، زبانوں کا وجود عمل میں آگیا ، حالات
بدل گئے، معاشرہ پھیل گیا، واقعات کی نوعیت بدل گئی ، اس کے ساتھ ساتھ
کہانی نے بھی انسان کے ارد گرد ہونے والے حالات اور واقعات کو اپنے اندر
سمیٹنا شروع کردیا ۔ یہ کہانیاں اور واقعات پہنچانے میں ایک کردار بہت اہم
اور کلیدی دکھائی دیتا ہے وہ ہے ’ماں ‘ ، کہانی سنانے والی ہستی ماں قرار
پائی، دنیا میں آنے والے ہر بچے نے پہلی کہانی اپنی ماں کی زبانی سنی ۔
میری رائے میں کہانی سنانے یا تخلیق کرنے کی خالق ماں ہے ۔ وہ کہانیاں کس
قسم کی ہوتی تھیں ان کے بارے میں کہا گیا کہ و ہ آس پاس کے ماحول، آپ
بیتی اور جگ بیتی قرآن پاک میں بیان کردہ انبیاء کے قصے ،کہانیاں ہی تھیں
۔
کہا نی اور قصہ گوئی سے انسان کی وابستگی ایک جبلی تقاضا ہے ۔ کہانیاں
ہماری تہذیب و ثقافت کا لازمی جذو ہیں ، انسانی زندگی کا کوئی دور ایسا
نہیں گزرا جس میں قصہ گوئی نہ ملتی ہو، کہاجاتا ہے کہ کہانی کا وجود اس وقت
سے ہے جب سے انسان ہے ، اور انسان اور سماجی زندگی لازم و ملزوم ہیں ۔ یہی
وجہ ہے کہ کہانی کی پیدائش اور ارتقائی حیثیت سماجی ہے ۔ میں بطور عمرانیات
کے طالب علم کے یہ کہہ سکتا ہوں کہ انسانی جبلت قصے ، عادات و اطواراور
کہانیوں سے دلچسپی لینے میں فطری طور پر مجبور ہے ۔ جہاں تک کہانی میں
اداسی، یاسیت اور قبوطیت کا تعلق ہے تویہ ہر انسان میں کم یا زیادہ پائی
جاتی ہے ۔ لکھاری کیونکہ حساس دل لیے ہوتا ہے ، بعض لکھاری اپنی زندگی کے
حالات اور واقعات کے اثرات کے باعث ان کی تحریر میں یاسیت، افسردگی اور
پژمردگی جیسے رویے کا اظہار ہوتا ہے ۔ زندگی نے جیسے جیسے ترقی کی کہانی کا
انداز بھی بدلتا گیا شروع شروع میں یہ قصے کہانیاں نانیاں دادیاں زبانی
سنایا کرتی تھیں ، پھر زندگی نے کروٹ لی اور یہی کہانیاں اور قصے قرطاس پر
منتقل کیے جانے لگے ۔ کہانی کا دائرہ بہت وسیع ہے ۔ نثری ادب کی جتنی بھی
اقسام ہیں جیسے قصہ، داستان، واقعات، ناول، افسانہ، ڈراما، حکایت، تمثیل،
انبیاء کے قصے، کہانی ان سب کی بنیادکہانی ہے ۔ البتہ ہرایک صنف اپنے اپنے
طور پر مختلف خصوصیات رکھتی ہیں ۔ یہاں ان کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں
، اپنی بات کو کہانی تک ہی محدود رکھتے ہوئے اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ
کہانی ادب کی ایک ایسی صنف ہے جس کا سفر اس کی پیدائش سے آج تک جاری ہے،
اس کہانی نے کئی اصناف کو جنم دیا لیکن خود اپنی جگہ جوں کی توں موجود رہی
۔ کہا نی کی عمراتنی ہی ہے جتنی حضرت انسان کی عمرہے البتہ ناول اور افسانہ
کی عمر سو سال سے کچھ اوپر قرار دی گئی ہے ۔ ادب کی ان اصناف میں افسانہ کو
قاری کی چاہت ایسے ہی حاصل ہے جیسے شاعری میں غزل کو ہے ۔
ارشد رضوی ایک مستند لکھاری ہیں ، استاد بھی ہیں ، پاکستانیات ان کا شعبہ
ہے، کہانی کاری ان کے خمیر میں شامل ہے ۔ پیش نظر مجموعہ ’’کچھ بے ترتیب
کہانیاں ‘‘ سے پہلے افسانوں کا ایک مجموعہ ’’ایک سا موسم‘‘ منظر عام پر
آچکا ہے ۔ 32کہانیوں پر مشتمل یہ مجموعہ مجموعی اعتبار سے کہانی نویسی میں
اعلیٰ مقام حاصل کرےگا ۔ اس کی وجہ یہ جو مجھے دکھائی دے رہی ہے کہ ارشد
رضوی کی کہانیوں کے کردار جیتے جاگتے ہیں ۔ فرضی اور مردہ نہیں ، وہ اپنے
بے جان اور حشرات العرض جیسے کرداروں کو بھی جان دار کردار شمار کرتے ہیں
ان سے اسی طرح مخاطب ہوتے ہیں جیسے اپنی ایک کہانی جس کا عنوان ہی ’’کہانی‘‘
ہے میں لکھتے ہیں ’’تارکول کی سڑک جہاں بل کھارہی تھی ، وہاں ایک گیلا سا
مان کھڑاتھا ۔ زردی مائل پرانی بھر بھری کھڑکیاں بڑا سا بڑھیا ہوادار
دروازہ ۔ دروازہ تک ایک راہ داری پڑی تھی اور راہ داری پر اینٹیں جڑی تھیں
،
دروازے کے کونے پر گملا دھرا تھا اور سرخ گلاب اپنا منہ راہ داری کی طرف
کیے کچھ سوچ رہا تھا‘‘ ۔ یہاں پھول کو انہوں نے ایک جاندار کردار کے طور پر
پیش کیا ۔
ارشد رضوی کا انداز تحریر سادہ،ان کے کردار جان دار اور بھر پور اثر لیے
ہوئے ہیں ۔ ان کے تہہ بہ تہہ جملے کہانی کے کرداروں میں جان ڈال دیتے ہیں ۔
ان کا مطالعہ اور مشاہدہ دونوں ہی گہرائی لیے ہوئے ہیں ،اپنی بات سلیقے سے
دوسروں تک پہنچانے کا فن جانتے ہیں ، ان کی اپنے موضوع سے پوری پوری واقفیت
، دلچسپی، مہارت ،ہلکی ہلکی مزاح کی چاشنی کہانیوں میں بھی کشش پیدا کردیتی
ہیں ‘‘ ۔ سچ تو یہ ہے کہ ارشد رضوی نے اپنی کہانیوں کو حسین تراور دلچسپ
بنا نے میں محنت کی ہے ۔ ان کی بعض کہانیوں میں صرف ایک ہی کردار ہے ، بعض
میں دو جو باہم مکالمہ کرتے نظر آتے ہیں ، ایسا بھی ہے کہ بعض کہانیوں میں
کردار کے نام نہیں ہیں ۔ ان کی کہانی ’’ماضی سے جڑ ے قصوں کی کہانی‘‘ میں
انہوں نے پرندوں ، جانوروں کو علامت کے طور پرپیش کیا ہے ۔ یہی صورت ان کے
افسانے ’’ایک سا موسم ‘‘ میں بھی ہے ۔ وہ اپنی کہانیوں میں اداسی، افسردگی
کو بھی خوبصورت انداز سے پیش کرتے ہیں ان کی کہانی ’’ایک بھولے ہوئے گھر کی
تلاش‘‘ میں ادسی اور افسردگی کی کیفیت کی حسین عکاسی کی ہے ۔
ارشد رضوی کی ایک کہانی ’’پرندے کے ساتھ کچھ دن‘‘ میں ارشد اپنے کردار ایک
پرندے سے اس طرح مخاطب ہوتا ہے کہ جیسے وہ اس کی بات سمجھ رہا ہو لکھا ہے ۔
مکالمہ کچھ اس طرح ہے ’’وہ اس کے ہاتھوں میں آیا تو چوں چوں کرنے لگا اور
سہم گیا ، وہ اسے ماردیتا لیکن اسے لگا وہ بھی اس جیسا ہی سانس زدہ سہما
ہوا اور جلد پر خوف کا جال تنا اور آنکھیں دیکھو تو اداسی کے دلدل میں
دھنسی ہیں ۔ وہ ٹھٹھرا ہوا تھا اس نے اسے ہاتھوں میں تھاما اور لیمپ کی
روشنی میں لے آیا ۔ تھوڑی دیر میں وہ اپنے حوصلے میں اٹکی ٹانگوں پر کھڑا
سا ہوگیا اور محروم اداس آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا ۔ پھر آہستہ آہستہ
لڑکھڑا نے لگا تمہارا نام کیا ہے ۔ ۔ اس نے اس سے پوچھا
وہ خاموش رہا
تم کہاں سے آئے ہو ۔ ۔ وہ پھر خامو ش رہا
وہ جو پائن کے درخت پر گھونسلہ ہے، کیا وہ تمہارا گھر ہے ۔
اس باروہ یوں چوں چوں کرنے لگا اور اس کی آنکھیں آواز یں دینے لگیں ۔
اپنے ایک اور افسانے ’کائنات کی پرانی کہانی‘ میں اپنے ایک کردار کے بارے
میں کچھ اس طرح لکھتے ہیں ’میرا دن دھوپ کی
سیڑھی چڑھا جوان زہر پل ۔ ۔ ۔ ;252;ایک لمبا سانپ اپنے رنگوں پر اتراتا ہوا
ایسا مرد جسے مجبوراً دیکھنے کی عادت ہو ‘ ۔
کہانی ’’خواب، سانپ اور عورت‘‘ میں وہ اپنے خواب کا ذکر کرتے ہوئے اس طرح
لکھتے ہیں کہ ’’ میں نے دیکھا تھا ۔ ۔ ۔ گہرے پانیوں میں کوئی چیز ہل رہی
ہے ۔ ہوا ایسی ہے جیسے جنس زدہ گرم سانس ۔ غور سے دیکھنے پر معلوم ہوا تھا
کہ کوئی پانی کا جانور ہے ۔ نتھنوں سے پانی کے ننھے ننھے گبارے اچھال رہا
ہے ۔ آسمان پر چاند تھا ۔ پیلا ٹھٹھرا اپنا مایوس چہرہ پانی میں بھگوئے ،
ہاں مجھے یاد نہیں ۔ ۔ ۔ میرے حافظے میں خواب کسی خال کی طرح پھیلا رہتا ہے
۔ میں خوفزدہ ہوکر اٹھ بیٹھا تھا اور جانتا تھا کہ لاءٹ بجھانی بھول گیا
تھا ۔ ایک پیلی چھپکلی اپنی جبلت کی قیدی بنے مچھر پر شکار باندھے بیٹھی
تھی‘‘ ۔
ارشد رضوی کو کہانی لکھنے کا فن خوب آتا ہے، اس کی کہانیوں میں فنی اعتبار
سے کمی ہوسکتی ہے لیکن وہ اپنا پیغام قاری تک خوش اسلوبی سے پہنچانے میں
کامیاب دیکھائی دیتے ہیں ۔ میرے خیال میں کہانی یا افسانہ لکھنے والا اپنے
قاری کو مثبت پیغام پہنچادیتا ہے گویا اس کا مقصد پورا ہو گیا یہ اس کی
کامبابی ہے ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اب طویل کہانیوں اور طویل افسانوں سے
قاری کی دلچسپی کم ہوگئی ہے اس کی بے شمار وجوہات ہیں ۔ اب ہمارا قاری
مختصر کہانی اور افسانہ پڑھنا چاہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ افسانے نے افسانچے
کا روپ اختیار کرلیا ہے اور کہانے نے سو لفظوں کی کہانی کا ۔ ارشد رضوی کی
بعض بعض کہانیاں خاصی طویل ہیں ، لیکن اس طوالت میں بھی قاری کی دلچسپی کا
سامان برقرار رہتا ہے ۔ ان الفاظ کے ساتھ منتظمین انجمن ترقی پسند مصنفین،
اور ارشد رضوی صاحب کا بے حد ممنون ہوں کہ انہوں نے مجھے اس قابل سمجھا ،
عزت دی، بہت شکریہ ۔
|