حفصہ خالد
وہ آج بھی بیٹھی اپنے ساتھ ہونے والے ہر ظلم اور زیادتی کو اگنورکر رہی
تھی۔وہ ابھی بھی خود کو ایک آزاد ملک کی جیتی جاگتی آزاد انسان تصور کر رہی
تھی۔ معاشرے میں اپنے اوپر اُٹھنے والی ہر ہوس زدہ نظر کو وہ نظر انداز کر
رہی تھی۔وہ سمجھتی تھی کہ یہ آزاد فضا جس میں وہ سانس لے رہی ہے‘ اسے غلام
اور فرسودہ روایات اور سوچ سے بچا کے رکھے گی۔وہ پر امید تھی کہ دوسرے
شہریوں کی طرح وہ بھی اپنی زندگی کو اپنی مرضی سے گزارنے کا پورا حق رکھتی
ہے‘بلکہ جس طرح کی زندگی وہ گزار رہی تھی اس ملک کا آئین اس کو facilitate
کرنے کا پابندتھا اور قانون اس بات کا ضامن کہ اس کو کوئی حراساں نہ کرنے
پائے۔
انسان ہونے کے ناطے وہ اپنی زندگی مثبت انداز میں گزارنے کے وہ تمام حقوق
رکھتی ہے جو عالمی انسانی قوانین اسے فراہم کرتے ہیں۔ پھر بھی وہ معاشرے
میں موجود دوسری خواتین کو آزاد اور خود کو غلام تصور کر رہی تھی۔ اسے وہ
مقام حاصل نہیں تھا جو ہونا چاہیے تھا۔اس کے احساسات پر بھی غاصبانہ قبضہ
تھا۔اس کے اسلامی لباس سے نام نہاد سیکولرز کو بارود کی بو آتی تھی۔اور صرف
نام کے مسلمان جب ایسے لباس والی کو دیکھتے تو اسکا مذاق اڑاتے ہوئے‘ اسے
تنگ نظری کا طعنہ دیتے ہوئے صحابیات اور آل نبی کی بیبیوں (رضی اﷲ تعالیٰ
عنہن )کی چادروں کی حرمت کو بھول کر ایسے ایسے القابات سے نوازتے تھے جن کو
بیان کرنے سے بھی ان طیبات کی حیاکی بے حرمتی ہوگی۔بایں طور کہ ایک طرف آگ
و خون اور قیامت خیز لمحات کہ جن میں حواس بھی اپنے قابومیں نہیں رہتے‘ان
لمحات میں بھی انہوں نے چادر کی حفاظت کی۔
ان پاکیزہ چادروں کی حرمت کو سلام پیش کرتی وہ لڑکی دین میں موجود حوالے
دینے سے بھی اسی لیے گریز کرتی تھی کیونکہ وہ اپنے دین کی پاکیزگی کو بھی
ان غلیظ ذہنوں کے شر سے محفوظ رکھنا چاہتی تھی۔ اس علامتی پڑھے لکھے معاشرے
کو یہ باور کراتی پھر رہی تھی کہ وہ ہرگز ویسی نہیں جیسا اسے سمجھا جا رہا
ہے۔ نہ تو اسکا تعلق کسی نام نہاد مذہبی گروہ سے ہے اور نہ ہی وہ کسی
کالعدم تنظیم کا حصہ ہے۔ ہاں بس وہ اتنا چاہتی تھی کہ اسکے نقاب کو کالعدم
قرار نہ دیا جائے۔ وہ نہ تو کسی ایسی جلد کی بیماری میں مبتلا ہے کہ جس وجہ
سے اس نے اپنا منہ چھپا لیا ہے۔بس اس انتظار میں کہ اس سے نارمل رویہ
اختیارکیا جائے تا کہ وہ بتا سکے کہ وہ نفسیاتی مریض بھی نہیں ہے کہ بات
کرنے پر بھی نقصان پہنچائے گی۔
وہ کہہ رہی تھی کہ جس طرح اس سوسائٹی میں کپڑوں کا بوجھ کم سے کم کرنے والے
لوگ موجود ہیں اسی طرح زیادہ سے زیادہ کرنے والے بھی تو ہو سکتے ہیں!اور
اگر کپڑے زیادہ ہونے سے میرا دم گھٹے گا تو مسئلہ مجھے ہونا چاہیے‘مگر
طنزیہ انداز میں مسکراہٹ تمہارے چہروں پر نحوست کیوں پھیلاتی ہے۔ اور اگر
مجھے دیکھ کر تمہیں کوفت ہوتی ہے تو تمہارے اس صبر کا اجر بھی اﷲ ربّ العزت
تمہیں ضرور اور جلد دے گا۔ تمہیں صرف اپنی جستجو کی عادت پر تھوڑا کنٹرول
کرنا ہوگا۔
وہ کہہ رہی تھی کہ نصابی سرگرمیوں سے لے کر غیر نصابی سرگرمیوں تک میں ہر
کسی میں اپنا نام منوا سکتی ہوں مگر میرے راستے میں بلا وجہ کی رکاوٹیں
کھڑی کر کے مسلمان ہوتے ہوئے بھی اسلام دشمنی کا مظاہرہ کرنا بند کر دو۔وہ
ابھی بھی یہ لڑائی جیتنا چاہتی تھی جس میں ابھی تک وہ اپنے دشمنوں کا تعین
بھی نہیں کر پائی تھی۔ معاشرے کے بیمار ذہن اس کے لیے طرح طرح کی اذیتیں
ایجاد کر کے اسے نفسیاتی مریض بنانا چاہتے تھے‘مگر وہ اپنے خالق کے فضل
وکرم اور اپنے والدین کی دعاؤں اور اپنے چند دوستوں(جنہیں وہ اس گھٹا ٹوپ
اندھیرے میں روشنی کی کرنوں کی مانند سمجھتی ہے)کی بدولت وہ آج بھی اپنے
حواس پر قائم ہے۔وہ نہ صرف تعلیمی میدان میں اپنا لوہا منواچکی ہے‘بلکہ غیر
نصابی سرگرمیوں میں بھی اپنے ہم عصروں سے بہت آگے ہے ‘کہ بہت سے ہم عصر اس
پر رشک کرتے ہیں اور بعض لوگ جو اس کی برابری نہیں کرسکتے وہ اسے حسد کی
نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
لوگوں کے طنز اور منفی رویوں کے باوجود وہ آج بھی اسی راستے پر قائم و دائم
ہے اور اس راہ سے گزرنے والوں کو بتاتی رہتی ہے کہ اسکا کوئی قصور نہیں
ہے‘سوائے اس کے کہ وہ ایک مظبوط نظریے کی بنیاد پر وجود میں آنے والی
اسلامی ریاست کے ایک اسلامی گھرانے کی مسلمان لڑکی ہے اور اسے اپنے اسکارف
پر فخر ہے کہ یہ ایک مسلمان خاتون کی آن شان اور عزت کا محافظ ہے‘ اوراس
لیے بھی کہ یہ قرآن کا حکم ہے۔سورۃ الاحزاب کی آیت59میں اﷲ ربّ العزت نے
اپنے محبوب نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ کے ذریعے تمام مسلمان عورتو ں کو یہ
حکم دیا: ’’اے نبی(ﷺ)!اپنی بیویوں‘ اپنی بیٹیوں اور اہل ایمان خواتین سے
کہہ دیں کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں۔یہ اس سے
نزدیک تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں تو انہیں کوئی ایذا نہ پہنچا ئی جائے۔اور
اﷲ بہت بخشنے والا‘نہایت رحم کرنے والا ہے۔‘‘
|