تحریر: بنت آدم (سیدہ حمیرا فاطمہ)
آج سے 72 سال پہلے ہمارے بزرگوں نے ہمیں جس غلامی سے آزاد کروایا، اپنا خون
پانی کی طرح بہایا، بہنوں نے اپنی عصمتوں کی قربانی دی لیکن افسوس صد افسوس
ہم آج بھی اسی غلامی کے زیر اثر ہیں۔ہم نے ملک تو آزاد کروالیا، خطہ زمین
تو حاصل کرلیا لیکن ذہنی وثقافتی طور پر ہم بھی بھی اسیری کی زندگی گزار
رہے ہیں۔مجھے یہ بات کہتے ہوئے ہوئے کوئی خوشی نہیں ہورہی لیکن کہنا پڑ رہی
ہے کیوں کہ بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کرلے تو شکار ہونے سے بچ نہیں
سکتا۔ ایسے ہی میں کہوں گی کہ ہم بظاہر آزاد ہیں لیکن 72 سال بعد بھی ہم ان
دیکھی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے تہذیب اسلام،
تمدن اسلام، کلمہ حق اور تعلیم رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو زندہ رکھنے کے لیے،
جس معاشرے کے قیام کے لیے اتنی جہدوجہد کی، اپنی نسلوں کی قربانی دی۔ان
قربانیوں اور جہدوجہد کو ہم نئی نسل اپنے ہاتھوں سے اس کو نہ صرف ضائع
کررہے ہیں بلکہ دشمنوں کی مدد کررہے ہیں کہ وہ ہم سے ہماری پہچان، ہماری
آزادی ہم سے چھین لیں۔
ہمارے دشمن یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کبھی بھی میدان جنگ مسلمانوں سے
نہیں جیت سکتے ان کو میداں جنگ میں جیتنے کے لیے اس کو سب سے پہلے ہماری
اسلامی اصلاحات کو مارنا ہے جس کے لیے انہوں نے ہماری نئی نسل کے ذہنوں میں
یہ بات بیٹھا دی کہ اسلام ایک ظالمانہ نظام رکھتا ہے اور آزادی ہر ایک کا
حق ہے۔ اس کے لیے سوچنے کا نظریہ بدلنا شروع کر دیا، ایسی ایسی ایجادات
کردیں کہ ہماری نئی نسل دین کو اپنے نئے نظریہ سے بدلنے لگ گئی۔ لڑکیوں کے
دماغ میں بٹھا دیا اور لڑکیوں نے کہنا شروع کر دیا کہ پردہ نظر کا ہوتا ہے۔
اس جملے نے آدھی امت مسلمہ کی لڑکیوں کو برہنہ کر دیا۔ سب کی اپنی ذاتی
زندگی ہے اس سوچ نے امت مسلمہ کے باپ بھائیوں کو بے غیرت کردیا۔
آج افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہم آزاد ہوتے ہوئے بھی آزاد نہیں ہیں،
زنجیریں نہیں ہیں لیکن پھر بھی ان دیکھی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ دشمن
نے ہمیں ہماری ذہنی صلاحیتوں، ہماری سوچوں کو جکڑا ہوا ہے اور ہم کٹھ
پتلیوں کی طرح ان کے اشاروں پر اپنی مرضی سے ناچ رہیں ہیں اور سوچتے ہیں کہ
ہم آزاد ہیں۔ بس ہمیں تو ہمارے مذہب اور روایات نے جکڑا ہوا ہے۔
بقول اقبال
جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا
ترک خر گا ہی ہو یا عربی والا گہر!
نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہوگئی
اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہ گزر!
|