کیا حق کے لیے بولنا جرم ہے؟

تحریر: راحت جبین
آج ایک وڈیونظر سے گذری، جس میں بیرون ملک مقیم ایک شخص کہہ رہا تھا کہ پاکستان میں مثبت خبریں نہیں چلائی جاتیں بلکہ منفی پروپیگنڈا زیادہ ہے۔ جیسا کہ قتل کا تناسب اور دہشت گردی کا تناسب وغیرہ وغیرہ۔ ایک جگہ تو ان صاحب نے یہ بھی کہا کہ ہم بند گٹر کی تعریف نہیں کرتے بلکہ کھلے گٹر کی فوری نشاندہی کرتے ہیں۔ جب کہ امریکہ، سنگاپوراور دبئی میں منفی خبروں کے برخلاف مثبت خبروں کا پرچار کیا جاتا ہے۔

ویسے سننے میں یہ بھی بڑا اچھا لگتا ہے کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے۔ یہاں قرضہ نہیں لیا جاتا۔ یہ ایک صاف ستھرا ملک ہے۔ یہاں چوری اور ڈکیتی کا نام و نشان بھی نہیں۔ یہاں کے نوے فیصد بچے اسکولوں میں جاتے ہیں۔ یہاں لوگوں کو بجلی، صحت، پانی اور گیس کی سہولیات میسر ہیں۔ یہاں سڑکوں کا عمدہ نظام ہے۔ یہاں دہشت گردی نہ ہونے کے برابر ہے۔مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملکی مسائل میں دہشت گردی کے ساتھ ساتھ کئی اور بھی پیچیدہ مسئلے مسائل ہیں جو کہ توجہ طلب ہیں۔ میری ناقص رائے کے پیش نظر وہاں کے نظام کا یہاں سے موازنہ کرنا بالکل ہی نا انصافی کے مترادف ہے۔ اگر دیکھا جائے تویہاں کے اکثر علاقوں کے لوگ بنیادی سہولیات زندگی کے لیے ترس رہے ہیں۔کیا امریکہ، سنگاپور اور دبئی میں ایسا ہی ہے؟

یہاں کے زیادہ تر لوگوں کو میڈیا خاص کر سوشل میڈیا کے آنے کے بعد ہی اندازہ ہوا کہ ان کے کیا حقوق ہیں۔ ورنہ پہلے تو’’سب اچھا ہے‘‘ کا راگ الاپ کر لوگوں کو ملک کی گھمبیر صورتحال سے لا علم رکھا جاتا تھا۔ اب بحث یہ بھی ہے کہ اگر لوگوں کو آگاہی ہو ہی رہی ہے تو کیوں اس کو چھپانا چاہیے۔ یہاں کے گورنمنٹ اور متعلقہ ذمے دار محکموں کے ساتھ ساتھ کچھ باثرعوام کی ناقص کارکردگیوں پرکیوں پردہ ڈالنا چاہیے۔یہاں کے لوگوں کو سوشل میڈیا کے آنے کے بعد ہی اندازہ ہوا کہ ہمارا تعلیمی نظام کتنا ناقص ہے اور خود پاکستان کاحکمران طبقہ بجائے تعلیمی اصلاحات لانے کے اپنے بچوں کو باہر تعلیم دلا رہے ہیں۔ ہمارا صحت کا نظام کتنا خراب ہے مگر حکمران طبقہ اس کو ٹھیک کرنے کے بجائے اپنا علاج کروانے باہر کے ملکوں میں جا رہے ہیں۔ ہمارے دیہی علاقوں کی سڑکیں جو سفر کے قابل نہیں ہیں، ان کو صحیح کروانے کے بجائے خود جہاز اور ہیلی کاپٹر پر سفر کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ہمارے غریب عوام جن کو ایک وقت کی بھی روٹی میسر نہیں۔ ان کو روٹی مہیا کرنے کے بجائے یہ تلقین کی جارہی ہے کہ دوکے بجائے ایک روٹی کھاو اور خود ماشاء اﷲ ایک ایک دن کے عشائیوں پر کروڑوں روپے لٹائے جارہے ہیں۔ منرل واٹر پینے والے عوام کو یہ تلقن کررہے ہیں کہ زندگی بھر جوہڑوں کا پانی پیو مگر حرف شکایت زبان پر مت لاو۔

بجلی، پانی، گیس اور دوسری انفراسٹرکچر جیسی بنیادی سہولیات تو کچھ علاقوں میں ناپید ہی ہیں۔ وڈیو میں کچھ بات گٹر کی بھی چلی تھی۔ تو زیادہ تر دیہی علاقوں میں بلکہ اگر ان میں شہری علاقے بھی شامل کردیے جائیں تو بعید نہیں کہ یہاں گٹر جیسے لوازمات ضروری ہی نہیں سمجھے گئے۔ شایداس لیے بھی ضروری نہیں سمجھے گئے کہ یہاں غریب عوام کی کوئی اوقات ہی نہیں۔ ان کے حقوق، حقوق نہیں ان کی ضروریات، ضروریات نہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ غریب عوام کی کبھی کسی کی بھی نظر میں کوئی حیثیت ہی نہیں رہی ہے۔ پھر وہ چاہے آمریت کا دور ہو یا جمہوریت کا۔

لوگوں کو امریکہ، دبئی اور سنگا پور کی مثالیں دینے والے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو حب الوطنی کا لبادہ اوڑھے پاکستان چھوڑ کر باہر ممالک میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور باہر ممالک کی قومیت لینے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ میری ان لوگوں سے گزارش ہے کہ اپنے بنیادی حقوق کی جنگ کے لیے لوگوں کی راہ میں روڑے نہ اٹکائیں۔ نصیحت کرنے کے بجائے ان تمام عوامل کی جانب نشاندہی کریں اور ان کو ٹھیک کروانے کی ہر ممکن کوشش کریں جن کی وجہ سے منفی خبریں بنتی ہیں۔ ان منفی خبروں کو مثبت پہلو سے دیکھ کر مثبت اصلاحات لائیں تاکہ ایسی خبریں کو جنم لینے کا موقع ہی نہ ملے۔ لوگوں کی زبانوں کو لگام دینے کے بجائے عملی اقدامات سے جواب دیں تو اس طرح کی خبریں آنا خود بخود بند ہوں گی کیوں کہ دھواں وہاں اٹھتا ہے جہاں چنگاری ہوتی ہے تو اس چنگاری کو اٹھنے کا موقع ہی نہ دیں۔

پاکستانی حکومت نے ڈالر مہنگا کرکے جہاں بیرون ملک مقیم افراد کو مالی و معاشی فائدہ پہنچایا ہے، وہیں غریب پاکستانی عوام کو مہنگائی اور اضافی ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا دیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیرون ملک مقیم افراد پاکستان سے کوسوں دوربیٹھ کر ان پاکستانیوں کوس رہے ہی جو اچھے برے کسی بھی حال میں پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں مگر ان کی غلطی یہ ہے کہ وہ اپنے حق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں۔ خدارا اب ان سے اپنے حقوق کی جنگ کا حق تو مت چھینیے۔ کیامندرجہ بالا سب مسئلوں کا حل لوگوں سے انصاف کی زنجیر چھیننا رہ گیا ہے؟ یا پھر مثبت اقدامات کی جانب پیش قدمی کرنا بھی ایک ممکنہ حل ہوسکتا ہے؟
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1141507 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.