ٹیکس دینا قومی فریضہ ہے۔ ہر فرد، ادارہ، شعبہ ، صنعت
خودپر واجب الادا ٹیکس دے، تاکہ ملک کی معیشت ترقی کرے اوراس سے ٹیکس چوری
کے کلچر کی حوصلہ شکنی اور ٹیکس ادائیگی کے رجحان میں اضافہ ہوگا۔اعدادو
شمار بتاتے ہیں کہ ملک میں ایک فیصد ٹیکسجمع ہوتا ہے،باقی 99فیصد ٹیکس چور
ی ہوجاتا ہے،لیکن ان’’ٹیکس چوروں‘‘میں کئی ایسے ہیں جو ٹیکس قومی خدمت سمجھ
کر دینے کو تیار ہیں،مگر ٹیکس نظام میں درپیش مشکلات ،ٹیکس وصولی کے قوانین
اور ٹیکس گزاروں کو دی جانے والی غیر تسلی بخش سہولتیں انہیں ٹیکس نیٹ سے
خوف زدہ کیے ہویے ہیں۔ چھوٹے کاروباری افراد، آن لائن کام کرنے والے چند
نوجوانوں سے جب ہم نے اس بارے بات کی، تو وہ ٹیکس دینے میں پُر جوش تھے،ان
کا کہنا تھا کہ ٹیکس نظام میں اصلاحات کی کافی گنجائش ہے حکومت اگر وہ درست
کرلے تو ٹیکس کلیکشن میں اضافہ ہوجائے گا۔گلشن اقبال میں ایک سوفٹ وئیر
کمپنی کے مالک جو موجودہ ٹیکس نظام سے مطمئن نہیں تھے،ان کا کہناہے’’:ٹیکس
کے معاملے میں گورنمنٹ کے رولز بہت سخت ہیں،یعنی اگر کوئی ٹیکس دینا چاہے
یا کمپنی رجسٹرڈ کروانے کا ارادا کرے تو ٹیکس کے معاملے میں ٹھوس پالیسی نہ
ہونے کی وجہ سے وہ فائلر بن کر دھکے کھانے سے ،نان فائلر رہنا بہترخیال
کرتا ہے۔ اگر قانونی طریقے سے کمپنی رجسٹرڈ کروانی ہو تو گورنمنٹ کی طرف سے
کوئی ہدایات نہیں دی گئی ۔ ترقی یافتہ ممالک میں آ ن لائن رجسٹریشن کی
بہترین سہولت ہوتی ہے اور عوام کو پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ وہاں
لوگ گھر آفس سے آن لائن کمپنی رجسٹرڈ کروالیتے ہیں۔ ہمارے ہاں آن لائن
رجسٹریشن تو ہوجاتی ہے، مگر طریقہ کار واضح نہیں کیاگیاکہ کن دستاویزات کے
جمع کروانے سے کمپنی رجسٹرڈ ہوجاتی ہے اور حکومت بھی اس بارے عوام کی صحیح
رہنمائی کرنے میں ناکام ہے۔ غیر تربیت یافتہ عملے کی وجہ سے آن لائن
رجسٹریشن کروانا ،جوئے شیر لانے کے متراددف ہے۔ دنیا بھر میں آن لائن
رجسٹریشن کا عمل آسان تصور کیا جاتا ہے،لیکن ہمارے ہاں یہ پہاڑ سمجھا
جاتاہے ۔‘‘
ان کا کہنا تھا:’’میرا سوفٹ وئیر ہاؤس ہے، میں آن لائن بزنس کرتا ہوں، میری
کمپنی گورنمنٹ سے رجسٹرڈ ہے اوراس کاایف بی آر ٹیکس نمبر(NTN ) بھی بناہوا
ہے۔ میں نے نجی بنک میں کمپنی نام سے اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے دستاویزات جمع
کروائی تو فائلوں کی تصدیق کے بعداکاؤنٹ اوپن کیاگیا، مگر اس کے بعد بنک یہ
کہتا ہے کہ باہر کی رقم آپ کے کمپنی اکاؤنٹ میں براہ راست نہیں آسکتی۔عام
طور پربیرون ملک سے آنے والی رقم میں 5.6 دن لگتے ہیں، وہ ہمیں مل جاتی ہے،
لیکن اس بار جب ایک ہفتے تک پیسے کمپنی اکاؤنٹ میں نہیں آئے، تومجھے تشویش
ہوئی ۔ میں نے بنک سے رابطہ کیاتو انہوں نے بتایا :’’ باہر سے آنے والی رقم
کی منتقلی بلاواسطہ کمپنی اکاؤنٹ میں نہیں ہوگی۔پہلے رقم اے بی ایل (ABL )یا
یو بی ایل(UBL ) میں جائے گی،وہ ہم سے اس کی معلومات مانگیں گے ،کیوں کہ
کمپنی ہماری اکاؤنٹ ہولڈرہے ،اس لیے آپ کو آکرآرفارم(R,Farm ) جمع
کرواناہوگا، وہ آر فارم(R,Farm ) اے بی ایل (ABL )یا یو بی ایل(UBL ) جائے
گا، اس کے بعد رقم کمپنی کے اکاؤنٹ میں منتقل کی جائے گی۔ میرے پوچھنے پر ،کہ
یہ آرفارم(R,Farm)کس لیے ہے،کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔‘‘ باہر سے پیسا
نہ آنے کی وجہ حکومت کے سخت اقدامات ہیں جس سے چھوٹے کاروباری افراد جن کا
کام انٹرنیشنل سطح کا ہے ، وہ خوف اور مایوسی کا شکار ہیں۔ یہ تاثر مضحکہ
خیز ہے کہ وہ ٹیکس سے چھپتے ہیں،بلکہ حکومت نے ان پر کڑی شرائط عائد کررکھی
ہیں۔
ایسے حالات لوگوں کو ٹیکس چور بنادیتے ہیں۔وہ تفصیل بتاتے ہوئیبولے :’’میں
پانچ سال سعودیہ میں کام کرنے کے بعد یہاں آیااورسوفٹ ویئر کمپنی بنائی ہے
،یہ سکیورٹی ایکسچینج کمیشن(SECP ) سے بھی رجسٹرڈ ہے اور کمپنی کے اصل
کاغذاتبنک کے پاس جمع ہیں، حکومت بھی تصدیق کرچکی ہے۔گورنمنٹ کو پتا ہے کہ
یہ سوفٹ ویئر ہاؤس ہے، اس کے بعدبھی آرفارم(R,Farm) جمع کروانے کا طوق آن
لائن کاروبار کرنے والوں کے گلے میں لٹکادیاگیا ہے، جس کا ہمیں نقصان ہورہا
ہے۔‘‘ انہوں بہت درد سے بتایا:’’مجھے یہ پریشانی اس لیے اٹھانا پڑی ہے، کہ
میرے سعودیہ کے ایک کلائنٹ(سوفٹ ویئر کے خریدار) نے میرے کمپنی اکاؤنٹ میں
پیسے بھیجے، دو ہفتے کے بعد وہ ٹرانزیکشن واپسReturn) ) کردی گئی اور اس پر
جو ٹیکس لگا، وہ بھی میرے کلائنٹ سے کاٹا گیا۔ ‘ ‘ وہ غصے میں لال ہوتے
ہوئے بولے:’’میں گورنمنٹ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب پاکستان کے تمام بنک
اپنی مرضی کے مطابق کام کرنے کی قدرت رکھتے ہیں، توایک دو بنکوں کی بجائے
حکومت سب بنکوں کا لنک یکجا کردے ، تاکہ لوگوں کے لیے آن لائن بزنس کی
راہیں کھلیں۔
معاشی بحران سے ہماری امپورٹ بڑھ رہی ہے ، ایکسپورٹ کم ہورہی ہے،لیکن ٹیکس
پرجوعوام کے لیے رولز بنائے جاتے ہیں وہ بہت پیچیدہ ہیں۔ کیوں کہ رولز
بنانے والوں کا واسطہ نہیں پڑتا، لہذا وہ اس تکلیف کے جاننے سے قاصر ہیں۔
حکومت کو اگر سخت اصول لاگو کرنے ہیں توعوام میں ان کی اہمیت اجاگر کرنے کے
لیے آگاہی مہم چلانی چاہیے۔ تربیت یافتہ اورخوش گفتار عملہ تعینات ہو،
سرکاری افسران کو ان نئے رولز کی تعلیم دی جائے، تاکہیہ عوام کی صحیح
رہنمائی کرسکیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ مشکلفیصلے کر کے کبھی محاصلات کے اہداف
حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ ٹیکس عوام نے دینا ہے، اس لیے حکومت ان کے ارد گرد
خوف کی تاریں بچھانے کی بجائے ، ٹیکس نیٹ میں سہولت پیدا کرکے عوام کے لیے
ٹیکس باعث راحت بنائے ،اس سے ٹیکس چوری کے کلچر کا خاتمہ ہوگا۔
|