بے سود راستے کے متلاشی

ہیلو! ۔۔۔ جی فرمائیے! ۔۔۔۔ کیسے ہو؟ مست ہوں اور آپ؟ میں بھی ٹھیک ہوں۔ کچھ دیر کے بعد پھر مسیج موصول ہوا۔ ’’ہاؤ کیوٹ‘‘ آپ بہت پیارے ہو۔ اچھا! شکریہ مگر یہ لفظ محترم سے نہیں محترمہ سے سن کر اچھا لگتا ہے۔ برجستہ جواب پاکر غصے والا سائن موصول ہوا۔

کیا برائی ہے؟ اگر ہم نے آپ کو پیارا کہہ دیا ہے تو ۔۔۔ خوبصورت لگتے ہو جب ہی کہا ہے، اجنبی نے 21سالہ دوشیزہ کی طرح سوشل میڈیا کے ٹائیٹنک پر اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلاتے ہوئے جواز پیش کیا۔ خود کو مغربی رومیو اور مشرقی مجنوں سمجھنے والے میرے غبارے سے ٹھس کی آواز سنائی دی۔ میں نے ہر لفظ پر زور دے کر کہا ’’اور سب خیریت ہے ناں! جی جی! آپ سے ملاقات ہوسکتی ہے؟ رخ اب حتمی ملاقات کی جانب بڑھ گیا۔ اجنبی سے ملاقات۔ کچھ گھبراہٹ سی ہوئی۔ ایک پل کو لگا کوئی سیاسی مخالف ہے جو مخالف پوسٹس پر مجھے ڈھونڈ رہا ہے۔ اب وہ میرا خاتمہ بالسیاست کرنا چاہتا ہے۔ میں نے بہادری دکھاتے ہوئے آہو! سے گزارا چلایا۔ کب کیسے؟ اس نے ہاں میں جواب پاتے ہی اگلے سوال داغ دیے۔ جب چاہیں۔ ٹھیک ہے، اتوار کو آپ کے پاس آؤں گا۔ میں نے بھی ہاں کرکے جان چھڑا لی۔ ایڈریس تو بتا دیں؟ اس نے جاتے ہوئے کہا۔ جب آنے لگیں تو بتا دیجیے گا۔ اوکے۔ اﷲ حافظ۔ اتوار کو صبح میسج ملا۔ ہائے! میں آپ کے پاس آرہاہوں! کہاں مل سکتے ہیں؟۔ جی فلاں جگہ آجائیں۔ میں نے مختصر کہا۔ نمبر دے کر دوبارہ سوگیا۔

پٹھان بھائی کے چائے والے ہوٹل میں وہ میرے سامنے بیٹھا تھا۔۔ دوکی جگہ ایک شیزہ لگ رہا تھا۔ جی کہیے؟ کیوں ملنا تھا۔ میں نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔ وہ ایک دم سے سٹپٹا سا گیا۔ وہ دراصل۔۔ کیا ہم کہیں اکیلے میں بیٹھ سکتے ہیں۔ اس کی بات نے مجھے چوکنا کردیا۔ چل بے! میرے منہ سے خوف اور خطرے کے ساتھ ایک دم سے نکلا۔ ادھر ہی بول جو بھی کہنا ہے، بات آپ سے ایک دم گستاخانہ رخ اختیار کرچکی تھی۔ چھٹی حس کچھ اور ہی الارم بجا رہی تھی۔ میں اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کررہا تھا۔

اچھا وہ مجھے آپ سے کہنا تھا!۔۔۔ بس آپ اچھے لگتے ہیں۔ میں نے کہا اوکے اور کچھ۔ نہیں بس۔ اچھا میں اب چلتا ہوں۔ چائے ختم ہوتے ہی اس نے کہا۔ ٹھیک، مختصر میں نے کہا اور وہ چل دیا۔ رات کو میسج ملا۔ ’’ہائے دوست!‘‘ ’’جی اب کیا ہوا؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ’’کچھ نہیں بس، تم سے مل کر اچھا لگا‘‘۔ ’’آپ سے سیدھا تم پر پہنچ گئے‘‘، میں نے سوال داغا۔ ’’اچھا وہ آپ سے پوچھنا تھا۔ کیا میں آپ کے پاس رات کو آسکتا ہوں‘‘۔ ’’کاہے، کیوں بھئی!‘‘۔ ’’بس آپ کی قربت چاہیے۔ او تیرے کی! مطلب ! میر چھٹی حس نے تالی بجائی۔ پہلے روز سے ہی جس بات کا ڈر تھا وہی نکلا۔ میں نے فورا بلاک کیا۔ بات ختم ہوگئی‘‘۔ یہ والا تو اسی پر ختم ہوگیا، مگر سلسلہ تھمتا کہاں ہے۔ ایسے مزید تین اور سین بھی ہوچکے مگر ملاقات کی غلطی دوبارہ نہیں دہرائی کیوں کہ اب ہوشیار ہوچکا تھا۔

ایسے تعلقات کا رجحان اب صنف نازک کی جانب بھی بڑھ رہا ہے۔ ایک رخ کے دو افراد کا ملاپ غیر روایتی دنیا میں اب برائی نہیں مانا جاتا۔ دور کیا جانا اب تو پڑوسی ملک بھی اس کی زد میں ہے۔ وہاں پر ایک ہی رخ کے دو سکوں کو یکجا استعمال کیا جانا روشنیوں کے شہر میں عام ہے۔ اس سلسلے میں اب باقاعدہ آگاہی مہم بھی چلائی جارہی ہے۔ پڑوسی ملک بہت تیزی سے ایسے معاملات میں ترقی کررہا ہے۔ ’’ایک شیزہ‘‘ سے ’’دوشیزہ‘‘ تک دونوں کو ایک ساتھ رہنے کے حقوق کی تنظیمیں کام کررہی ہیں۔ ایسے ہی دو مختلف رخوں پر موجود اصناف کے روایتی انداز سے ہٹ کر غیر روایتی تعلقات پر بھی کافی تیزی سے کام جاری ہے۔ اپنے ملک کے اپنے ہی باشندوں کے ساتھ یہ ظلم اور زیادتی کیوں ہورہی ہے یہ بات آج تک سمجھ نہیں آئی۔ یا تو خود اوپر والے نیچے والوں کے ساتھ مخلص نہیں یا کوئی بہت دور کی سوچ ہے۔

اب یہ سب ادھر کو بھی لایا جارہا ہے۔ مکھیاں تو ہر جگہ پائی جاتی ہیں جنہیں گندگی کی تلاش بھی ہوتی ہے۔ گندگی کا ڈھیر لگانے والے اب ان مکھیوں کی حوصلہ افزائی اور ان کے لیے سامان مہیا کرنے پر جت چکے ہیں۔ روز ہی ایسا کچھ کسی نہ کسی ہوش مند لڑکا اور لڑکی کو مل جاتا ہے کہ اگر اس کو فالو کر لیا جائے تو وہ اپنے حالات و خیالات دونوں کو غلط سمت پر ڈالنے سے شاید ہی بچا سکے۔ انٹرنیٹ اور بے ہنگم سوشل میڈیا اب اس سب میں آسانی پیدا کررہا ہے۔ بند کمروں میں بچیوں کے بگاڑ کی جانب راہیں اب بہت حدتک ہموار ہوچکی ہیں۔

دو ہم جنس افراد کے تعلقات سے متعلق باقاعدہ تعلیمی پروگرامات کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان کو آپس میں ملوانے کے لیے محافل ہوتی ہیں اور پھر ان کو ملوا بھی دیا جاتا ہے۔ ایسے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں کہ یہ گندگی کے ڈھیر میں منہ کالا کرسکیں۔ سوشل میڈیا پر بھی یہ لوگ پرسنل میں رابطے کرتے ہیں اور پھر اپنی مہم کے ممبران بناتے ہیں۔ اس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں طرح کی اصناف شامل ہیں۔

سوشل میڈیا کا استعمال کریں مگر خود کو محتاط رکھیں۔ ایسے افراد سے بچیں، یہ لوگ آپ کو ہر جگہ میسر ہوں گے اور ملیں گے۔ سوشل میڈیا ہو یا غیر سوشل میڈیا دونوں جگہوں پر کچھ بھی ممکن ہے تو آپ کو اپنے مقصد اور کام پر توجہ رکھنی چاہیے۔ غیر متعلقہ افراد سے سوال و جواب، دوستی و یاریاں اور تعلقات ہرگز ہرگز استوار نہ کریں۔ آپ کو ضرورت ہی کیا ہے جب کسی سے آپ کو مطلب یا کام ہی نہیں ہے۔ کوئی کتنا بھی مجبور ہو کم از کم وہ رہتا اسی دنیا میں ہے اور اس کے آس پاس لوگ موجود ہوتے ہیں۔ اسے سوشل میڈیا کا سہارہ لے کر اپنی تنہائیاں دور کرنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے اور اگر کوئی ایسا ہے بھی تو آپ کو اس کی تنہائیوں میں ہم راہی بننے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آنی چاہیے۔

کچھ معلومات جو یہاں بتانا ضروری ہے۔ سوشل میڈیا پر فیک اور جعل سازی عام سی بات ہے۔ ایسی خطرناک ایپس بھی اب موجود ہیں جن کے ذریعے سے چند سیکنڈز میں آپ کے موبائل یا لیپ ٹاپ تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح سے وائس چینجرز کے ذریعے لڑکا لڑکی بن کر آپ کی معلومات حاصل کرسکتا ہے۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ کچھ بھی ممکن ہے جو آپ سوچ سکتے ہیں وہ سب اس وقت ممکن ہے اور ہوسکتا ہے۔ تو آپ جب تک کوئی غیر ضروری لنک اوپن نہیں کریں گے یا کسی سے غیر ضروری بات چیت نہیں کریں گے تب تک آپ محفوظ رہیں گے۔

گھر کے سربراہوں کے لیے اہم پیغام ہے۔ اپنے بچوں پر کڑی نگاہ رکھیں۔ وہ کیااور کیوں کررہے ہیں۔ 3معاملات میں اپنے بچوں پر نظر رکھیں اور اگر آپ کے بچے اب آپ کی مکمل چھوٹ کی وجہ سے آپ کی بات نہیں مانتے تو ڈنڈے سے منوائیں، نہیں منوا سکتے تو پھر گھر سے بے دخل کریں اسی میں آپ کی عزت و آبرو ہے۔ مگر یاد رکھیں محبت کی زبان سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں جو کسی کو بھی بدل سکتی ہے۔ کہیں آپ کے بچے اسلام میں شکوک و شبہات کا شکار تو نہیں یا کہیں وہ ختم نبوت کے عقیدے میں ڈگمگا تو نہیں رہے، یا پھر اﷲ کے ہی انکاری ہوئے بیٹھے ہوں۔ کہیں آپ کے بچے کسی ملک و ملت مخالفین کے ہتھے تو نہیں چڑھ چکے، اب ان کو اپنے ہی پرائے دکھنے لگے ہوں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کے بچے مغربی طور طریقوں سے متاثر ہوکر اپنا چال چلن بھلائے بیٹھے ہوں، اپنی ہی صنف کی جانب گامزن ہوچلے ہوں یا ایسے کچھ دیگر راستے اختیار کرنے کے متعلق سوچ رہے ہیں۔

یاد رکھیے، سب سے پہلے آپ کا دین، پھر آپ کی زمین اور اس کے بعد آپ کا معاشرہ اہمیت رکھتے ہیں۔ ان میں کہیں بھی آپ کی تربیت بے اثر ہوگئی اور آپ کے بچے بھٹک گئے تو خود کو پہلے اس سب کا مجرم قرار دیجیے گا۔ بچے تو سمجھ لیجیے دنیا و آخرت کی جہنم سمیٹ ہی رہے ہوں گے۔ ہوسکے تو اس جملے کو دہلیز پر لکھ کر لگا لیجیے کہ ’’احتیاط علاج سے بہتر ہے‘‘۔
 

Arif Ramzan Jatoi
About the Author: Arif Ramzan Jatoi Read More Articles by Arif Ramzan Jatoi: 81 Articles with 69116 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.