تحریر:جویریہ جاوید،پکی شاہ مردان،میانوالی
ہمارے خیالات ہماری سوچ ہمارے جذبوں کا تقاضا ہے کہ بھرپورعزت اس کے لئے
ہمیشہ مثبت سوچ اور دل سے عزت کا حق دار وہی ہوگا جو ہمیں ہمارے کام ،ہماری
محنت اور ہمارے رویوں کے مطابق عزت دے گا،لیکن آج تک کوئی اس کہاوت ’’جیسا
کروگے ویسا بھروگے‘‘پر غورکرپایا ہے نہیں ۔۔۔۔۔۔؟نہ آج تک اس بات پہ غورہوا
نہ آج تک اس کے الٹ بات پر غورہوا،بے شک انسان کسی سے بھی بلندوبالا امیدیں
وابستہ کئے ہوتا ہے،اور جب بلندوبالا امیدیں ریزہ ریزہ ہوکرپاؤں میں کچلی
جائیں تو شائدہی وہ مقام دکھ کا آخری مقام ہو،مگر اس کے مترادف بات ہے ہمت
،حوصلے بلندرکھنے کے ساتھ کی ہی بات ہے،جوش سے نہیں ہوش سے کام کرنے کی
۔وہیں بات آجاتی ہے شخص کو حوصلہ دینے کی نہ کہ گالی دینے کی ،مگرافسوس آج
تک لوگ اسی کہاوت پرآکر رک گئے ہیں کہ ’’جیسا کروگے ویسا بھروگے‘‘مگروہ اس
کے آس پاس آگے پیچھے دیکھے بغیراس بات پر عمل کرلیتے ہیں،ناکامی کے سامنے
کتنی بڑی ناکامی ہوتی ہے دوسروں کی برائیوں کو مدنظررکھ کر اپنے ظرف کا
مظاہرہ کرنا وہ ناکامی توملک کے سامنے مگرہرناکامی اپنی ذات کے سامنے کی
ناکامی ہے جب انسان تھوڑا سوچ لے اوردوسروں کی اچھائیوں اور اپنی برائیوں
کوسامنے رکھے تودوسروں پہ تنقید کرنے کی بجائے خودپہ حملہ آورہونے والے
الزامات سے خودکو بچائے،اصل مقصد ہی میرا یہ تھا کہ آج کل پاکستانی عوام کا
نشانہ بننے والے ہماری پاکساتنی ٹیم ہے ہماری عوام میں سے چند آدھ لوگ ہی
کہہ لیں جنہوں نے ایک آدھ بات کو اپنا ہتھیاربنا کر دوسروں کی عزت کے ساتھ
کھیلا ہے،یہ ھکم تومیرے اﷲ کا بھی ہے کہ جودوسروں کی عزت کا محافظ ہے میں
اس کی عزت کا محافظ ہوں،لوگ چھوٹی سی بات کو صرف چندمنٹ کے لئے سوشل میڈیا
پر مشہورہونے کے لئے اﷲ کے سامنے خودکوگرا دیتے ہیں اس میں وہ اپنی بہت بڑی
دلیری سمجھ رہے ہوتے ہیں ،مگرافسوس وہ انسانیت کے نام سے بھی گرچکے ہوتے
ہیں،کیا ہم اس کو کہہ سکتے ہیں کہ یہ عقل مندی کی نشانی ہے،کیا ہم کہہ سکتے
ہیں کہ ایک پرانی کہاوت کو یادرکھنا کمال ہے،کیا اہل علم ہونے کا تقاضا یہ
نہیں ہے کہ تم اس بات پر غوروفکر کرواور تم ہر اس بات پہ ہی نہیں
غوروفکرکروجودیکھ رہے ہو،ہراس بات کو جانچو،جوکہ دیکھتے ہوئے تم خودکو اس
شخص کی جگہ رکھ کر سوچ رہے ہوکہ اگراس نے تمہاری امیدیں توڑی ہیں اورتم
کتنے دکھی ہومگراگروہیں وہ کتنا دکھی ہوگا،کہ اس نے اس کی امیدیں توڑدیں جس
کا نام تم سینے پہ لئے پھرتے ہو،تم ایک باردکھی ہوئے ہو،اس کودیکھ کرمیں نے
سبزپرچم لپیٹ کرقسمت کے لکھے کوپورا کرتے ہوئے شکست کوقبول کیا مگروہ کئی
بار ٹوٹے گا کیونکہ اس کے سامنے ہزاروں لاکھوں ،کروڑوں حب الوطن کا ہجوم
تھا جویقینی دھوپ کا خیال نہ کرتے ہوئے وہاں ان کو حوصلہ دینے آئے
تھے،پھربات آجاتی ہے،اپنا ہی خیال ہوتا کیونکہ وہاں ہم اپنا خیال کرتے ہوئے
دوسروں کو نہ سوچتے ہوئے ،کاش انسان میں احساس نام کی چیزہوتی توآج کوئی
بھی باپ اپنے اپنے ہی بیٹے کے سامنے شرمندہ نہ ہوتا اورنہ باپ کو اس بات کا
روگ کھاتا کہ اس کے بیٹے کے سامنے باپ کی عزت کے ساتھ کھیلا گیا،آخرکیا
سوچے گاجیسا کہ بڑی مشہورویڈیومنظرعام پرآئی جس میں پاکستان کی ٹیم کے
کپتان کوسرعام شاپنگ مال میں شدیدتنقیدکا نشانہ بنایا گیا کیا یہ اخلاقیات
سے گری بات نہیں،ان کو طرح طرح کے طعنوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے،کوئی بھی
ملک کیسے ترقی کرے گا جب اس ملک میں اسی کی عوام کو عزت نہ ملے جب ہم اپنے
ملک کے لوگوں کو عزت نہ دیں گے،توباہروالا اسی بات کی دیکھا دیکھی
کیونکرعزت دیں گے جب ہم اپنی ہی اشیاء کواپنے ملک میں عزت نہ دیں گے،بے عزت
کرتے پھریں گے تودوسری قومیں ہمیں کوڑے سے کم نہ سمجھیں گی ہمارے توملک کی
بنیاد ہی اتحادتھا اوروہ اتحاد جوبڑی سے بڑی بات پہ نہ ٹوٹنے کا تہیہ
تھامگرہے توسمجھنے کی لوگ اگراس بات پر ڈٹ جائیں اگرمسلسل محنت کے بعدبھی
ناکامی ہے تویہ اﷲ کے ہاتھ میں ہے ضروراس کی کوئی مصلحت ہوگی اورجووہ ذات
انسان کے لئے سوچ کر کرتی ہے کبھی کسی کے سوچ وگمان میں نہیں توخدارا اس
بات کی ہار میں بھی کامیابی ہے ناکامی کے اس اندھیرے میں بھی ہیرے سے شفاف
چمکتی چیزنظرآئے گی جواس اندھیرے کو جگمگا دے گی،اگریہاں بھی بات احساس کی
ہوتوکوئی انسان یہ نہیں چاہتا کہ جس دکھ سے ہم گزررہے ہیں کیا اگلے بندے کو
یہ دکھ نہ ہوگا،لوگوں کو آج کل بس اپنی ہی تکلیف کا پتہ ہے،کاش اگرلوگ
دوسرے کی تکلیف کی طرف توجہ دیں تووہ اپنی تکلیف کوزرابھربھی محسوس نہ
کرپاتیں اورانسانیت کا نمونہ پیش کریں مگراحساس تووہ ہے جوکسی بھی حال میں
کچھ بھی برداشت کرنا جانتا ہواگرکہا جائے کہ گاڑی کے دوپہیوں کا ایک ساتھ
چلنا ہی بہترہے مگرکبھی غورکیا گاڑی کا انجن دونوں پہیوں کے لئے مشترک ہوتا
ہے اور جس کا پٹرول احساس محبت اوراحترام ہیں جوکہ صرف سخی انسان ہی اس کا
اہل ہوسکتا ہے،مگروہ انسان بھی یہاں ہیں جواپنے وطن کی خاطرتمام تر احساسات
اوررشتوں کودھندلا کردیتے ہیں،ہاں ہمارے نہائت قابل کرکٹروہاب ریاض جنہوں
نے ٹوٹی انگلی کے ساتھ نہائت اچھی کارکردگی دکھائی،وہی لوگ جووطن کے لئے
سیریزکے میچ کھیلنے بیرون ملک جاتے ہیں اوراپنے باپ کی فوتگی کی خبر سن کر
بھی پاکستان کے نام کے لئے میچ کوجاری رکھتے ہیں اورآخرمیں ہم ان کی
قربانیوں کا صلہ ان کو گالیاں دے کر دیتے ہیں،میری آپ سب عوام سے گزارش ہے
کہ خودکوعزت دینے کے لئے دوسروں کوبھی عزت دیں تاکہ آپ کی عزت ہو اپنی
نظروں میں بھی اوردوسروں کی نظروں میں بھی ۔
|