پاکستان میں عمر قید کی مدت کتنی ہونی چاہیے؟

عمر قید کی مدت کتنی ہونی چاہیے، یہ عمر بھر کے لیے نہیں ہونی چاہیے؟
 

image


یہ سوال چند ہفتے قبل پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی عدالت میں ایک مقدمے کے دوران دیے گئے ریمارکس میں پوچھے گئے تھے اور اب چیف جسٹس نے اس معاملے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے عمرقید کی مدت کے تعین سے متعلق قانون کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ کا لارجر بینچ تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔

ہارون الرشید بنام سرکار مقدمے کی اپیل کی سماعت کے دوران لیے گئے نوٹس میں سوال اٹھایا ہے کہ کیا یہ غلط فہمی نہیں ہے کہ جس شخص کو عمرقید کی سزا سنائی جاتی ہے تو وہ پانچ یا سات سال کے بعد رہا کر دیا جاتا ہے۔

یہ بھی کہا گیا ہے عدالت نے یہ بھی تشریح کرنی ہے کہ اگر ایک ملزم کو مختلف مقدمات میں سزاؤں کا سامنا ہو تو ایسی صورت میں عمر بھر کی مدت کتنی ہو گی۔

مقدمے کے دوران چیف جسٹس نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ انھیں بڑے عرصے سے ایسے کسی کیس کا انتظار تھا جس میں عمرقید کی مدت کے تعین کا فیصلہ کیا جائے۔

پاکستان میں رائج قوانین کے مطابق اگر کسی مجرم کو عمرقید کی سزا دی جائے تو اس کا مطلب زندگی کے 25 سال سلاخوں کے پیچھے گزرنا ہیں تاہم سزا کے آغاز کے بعد مختلف مواقع پر معافی ملنے کی وجہ سے سزا میں ہونے والی کمی کی وجہ سے مجرم کو عموماً 12 سے 14 سال کے عرصے میں رہائی مل جاتی ہے۔‘
 

image


عمرقید پر ازخود نوٹس کا پس منظر
کچھ روز قبل جسٹس کھوسہ نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران عمر قید کے اس سوال پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس بات کا تعین کیا جائے گا کیونکہ عمر قید کا مطلب تو پوری زندگی کی قید ہوتی ہے یعنی کسی مجرم کا جیل سے جنازہ ہی نکل سکتا ہے۔

جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ جیل کی سزا میں دن رات شمار کیے جاتے ہیں اور اس طریقے سے مجرم پانچ سال بعد باہر آ جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بہت سی غلط فہمیوں کو درست کرنے کا وقت آ گیا ہے۔

’عمر قید کی مدت کے تعین کا معاملہ عوامی اہمیت کا ہے اس لیے اس بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ پاکستان کے قانون ضابطہ فوجداری میں عمر قید کی سزا کا تعین نہیں ہے جبکہ پریزن ایکٹ میں یہ لکھا ہوا ہے کہ عمرقید کا مطلب 25 سال قید ہے۔‘

عمر قید کیسے کٹتی ہے؟
پاکستان کی عدالت عظمیٰ میں ایسی درخواستوں پر بھی سماعت ہوئی جس میں یہ استدعا کی گئی تھی کہ کسی بھی ملزم کی قید اس وقت سے تصور کی جائے گی جب سے وہ پولیس کی حراست میں ہے۔

پنجاب کے محمکہ جیل خانہ جات کے ایک سینیئر اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ عمر قید سے متعلق انگریز کے دور میں سنہ 1894 پریزن ایکٹ میں تعین کیا گیا ہے تاہم پاکستان نے سنہ 1978 میں پریزن رولز بنا کر اس کی مدت 25 سال کر دی ہے۔

اہلکار کے مطابق اگر کسی بھی مجرم کو عمر قید کی سزا دی جاتی ہے تو پھر اسے جیل میں قیدیوں کی وردی پہنا کر ایسے قیدیوں کے لیے الگ سے بنائی گئی مختلف بیرکوں میں رکھا جاتا ہے۔

اہلکار کے مطابق اس وقت ملک کی تمام جیلوں میں گنجائش سے زیادہ لوگ رکھے گئے ہیں جس کی وجہ سے ملزموں کو بھی عمر قید کی سزا کانٹے والوں کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔

ایک اور جیل اہلکار کے مطابق قید بامشقت کی صورت میں سزا میں مزید رعایت بھی مل جاتی ہے۔‘
 

image


قانونی ماہرین کی رائے
ڈاکٹر عبدالباسط گذشتہ چار دہائیوں سے عدالتوں میں بطور وکیل پیش ہو رہے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ معاملہ پہلی بار اس وقت سامنے آیا جب بےنظیر بھٹو نے وزیر اعظم بنتے ہی سزائے موت کا سامنا کرنے والے تمام قیدیوں کی سزا عمر قید میں بدل دی جس کے بعد بڑی تعداد میں قیدیوں کو جیل سے رہائی ملی۔

’میں نے بھی اس کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا لیکن عدالت نے وزیر اعظم کا فیصلہ برقرار رکھا۔‘ تاہم اب عبدالباسط کی رائے بدل چکی ہے۔

’میں اپنے تجربے کی روشنی میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ چیف جسٹس کو یہ نوٹس نہیں لینا چاہیے تھا کیونکہ دنیا میں زندگی بھر کے لیے قید کو غیر انسانی تصور کیا جاتا ہے۔

عدالت صرف اس بات کا تعین کرے کہ ججوں کو عمر قید کی سزا تعین کرنے کی صوابدید کس حد تک استعمال کی جا سکے گی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ایک انتہائی بوڑھے شخص کو جیل میں رکھ کر آپ کیا کریں گے۔‘

لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج عبد الشکور پراچہ کا کہنا ہے کہ یہ ایک ’جج میڈ لا‘ ہے اور مدت کا تعین ججوں کی صوابدید پر ہوتا ہے۔

’اس معاملے میں اگر سپریم کورٹ یہ سمجھتی ہے کہ تشریح کی ضرورت ہے تو یہ حق ججوں کو حاصل ہے۔ جب کسی کو سزائے موت نہیں دی جاتی تو پھر عمر قید کی سزا سنائے ہوتے ہوئے وجہ بتانی پڑتی ہے۔ اب قتل کے مقدمے میں عمرقید کی مدت کا تعین عدالت پر منحصر ہے۔

فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکیل زاہد بخاری نے بی بی سی کو بتایا کہ عمر قید سے متعلق عدالتوں کے متعدد متضاد فیصلے ہیں جبکہ متعلقہ قوانین (سی آر پی سی) میں اس کی تشریح کہیں بھی نہیں کی گئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’چیف جسٹس کھوسہ نے ایک تقریب میں اس خواہش کا اظہار بھی کیا تھا کہ عمر قید کا قانون ایسا ہو گا کہ پھر ایسے مجرم سزائے موت کی آرزو کریں گے۔ میرے خیال میں یہ نکتہ نظر بہت سخت ہے کیونکہ آئین میں بھی سزائے موت اور عمر قید دو علیحدہ سزائیں ہیں۔‘
 

image


دن رات کی گنتی میں حقیقت کتنی؟
پاکستان میں یہ خیال بھی پایا جاتا ہے کہ قید کی سزا کے دوران دن اور رات کا شمار الگ الگ یعنی دو دن کے طور پر ہوتا ہے تاہم زاہد بخاری کے مطابق ’دن رات کی گنتی میں کوئی حقیقت نہیں ہے، یہ صرف سینہ گزٹ ہے اور قانون اس بارے میں مکمل خاموش ہے۔‘

ڈاکٹر عبدالباسط کا کہنا ہے کہ ’پہلے دن رات گنے جاتے تھے لیکن بعد میں اس عمل کو روک دیا گیا کیونکہ اس طرح قیدی دس سال سے بھی کم عرصے میں رہا ہو جاتے تھے۔‘

تاہم جیل حکام ڈاکٹر عبدالباسط کے دعوے سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دن رات کی گنتی علیحدہ علیحدہ ہوئی ہو۔

وزیراعظم عمران خان کے ایک معاون خصوصی نے بھی تصدیق کی ہے کہ دن رات سے متعلق بحث مفروضے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

سزا میں کمی کب کب لائی جاتی ہے؟
ڈاکٹر عبدالباسط کا کہنا ہے کہ پریزن ایکٹ کے مطابق عمرقید کی مدت 25 سال ہے جبکہ انتظامیہ کی طرف سے اس سزا میں رعایت ملتی رہتی ہے۔

ان کے مطابق جیل میں ایک رجسٹر ہوتا ہے جس میں معافیوں کی تفصیلات درج ہوتی ہیں۔ عمر قید کا سامنا کرنے والے قیدیوں میں سے اگر کسی کا رویہ بہتر ہو اور وہ اپنا کام دل لگا کر کرے تو اس کی سزا میں کمی ہو جاتی ہے۔

محکمہ جیل خانہ جات کے اہلکار کے مطابق عید الفطر اور عید قربان کے علاوہ یوم آزادی کے موقع پر بھی وفاقی حکومت کی طرف سے قیدیوں کو ملنے والی چند ہفتوں کی معافی کو بھی ان کی قید سے منہا کر دیا جاتا ہے۔

جیل میں اچھے رویے کو یقینی بنانے کے لیے سزا معافی کا لالچ دیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ قیدبامشقت کے دوران قیدی کی مشقت کے بدلے بھی اس کی سزا میں ماہانہ بنیادوں پر کچھ دن کی کمی ہو سکتی ہے۔
 

image


عمر قید کے قیدی کتنے ہیں؟
وزارت داخلہ کو بھیجے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک بھر میں سزائے موت کے قیدیوں کی تعداد ساڑھے آٹھ ہزار سے زیادہ ہے جبکہ مختلف عدالتوں کی طرف سے عمر قید پانے والوں کی تعداد 11 ہزار سے زیادہ ہے۔

پنجاب کے محکمہ جیل خانہ جات کے مطابق صوبے بھر کی جیلوں میں ایسے قیدیوں کی اکثریت ہے جن کی اپیلیں اس سزا کے خلاف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں۔

دیگر ممالک میں کیا عمر قید کی معیاد کیا ہے؟
وکیل شاہد حامد کا کہنا ہے کہ امریکہ سمیت دنیا بھر میں یہ ججوں کی ہی صوابدید ہوتی ہے کسی مقدمے کی نوعیت کا تعین کرتے ہوئے سزا تجویز کریں اور یہ ایک اچھا عمل ہے۔

وکیل مزمل مختار برطانیہ کی عدالتوں کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں عدالت مدت کا تعین خود کرتی ہے۔ ان کی رائے میں انگلش قانون کے تحت عمرقید کا مطلب تا حیات قید ہے تاہم جج ملزم کے رویے کو دیکھ کر فیصلہ دیتے ہیں۔
 

image


’اگر کوئی عادی مجرم ہے تو پھر اسے سـخت سزا بھی سنائی جاتی ہے۔ سیریل کِلر کو تا حیات سزا بھی سنائی جاتی ہے۔‘

مزمل مختار کا کہنا ہے کہ جج عمرقید کے لیے کم سے کم سزا سناتا ہے۔ ’اس سزا کی مدت پوری ہونے کے بعد پیرول بورڈ بن جاتا ہے جو یہ دیکھتا ہے کہ کیا قیدی کو رہائی ملنی چاہیے یا نہیں۔ انگلینڈ میں اوسطاً ایک مجرم 15 سال قید کاٹتا ہے۔ پیرول بورڈ کی شرائط پوری نہ کرنے والا قیدی دوبارہ جیل بھیجا سکتا ہے۔‘

دیگر ممالک کی طرح انڈیا میں بھی جج کی صوابدید ہے کہ وہ عمر بھر سے متعلق سزا کی مدت کا تعین خود کرتے ہیں۔

قانونی ماہرین کے مطابق عام طور پر ایک قیدی 14 سال جیل میں رہتا ہے لیکن اگر جرم کی نوعیت زیادہ سـخت ہے تو پھر سزا بڑھائی جا سکتی ہے۔


Partner Content: BBC

YOU MAY ALSO LIKE: