انیسویں صدی میں سویڈن بہت غریب اور پسماندہ ملک
تھا۔چھوٹے چھوٹے گھر، بے روزگاری، بہت کم زرعی پیداوار، شدید سردی اور
توانائی کے محدود ذرائع نے سویڈش باشندوں کی زندگی بہت مشکل بنا رکھی تھی۔
غربت اور افلاس کے مارے ہوئے بہت سے سویڈش بہتر مستقبل کی خاظر ترک وطن
کرکے امریکہ میں جابسے اور سویڈن کے شہروں کے نام پر وہاں بستیاں قائم کیں۔
سویڈن میں اس دور میں بادشاہت نے عوام کو اپنے پنجہ میں جکڑ رکھا تھا اور
اس گرفت کو مضبوط بنانے میں اسے مذہبی پیشوائیت کا مکمل تعاون حاصل تھا۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوجوانوں کو بے روزگاری کا سامناتھا جیسا کہ آج کل
پاکستان میں ہے۔ وہ دور سویڈن میں ابتلا کا دور تھا جسے سویڈش اب بھی نہیں
بھولے۔ اسی دور میں 9 مئی1845 ء کو ایک بچہ سویڈن کے خوبصورت علاقہ دالارنا
میں پیدا ہوا جس کا نام گستاف دی لاوال رکھا گیا۔ اس کے والدین عسکری پس
منظر رکھتے تھے اور فرانس سے سویڈن منتقل ہوئے تھے۔ اس نوجوان نے اسٹاک ہوم
کے رائل انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (کے ٹی ایچ) سے 1866ء میں انجنئرنگ کی ڈگری
حاصل کرنے کے بعد 1872 ء میں اپسالا یونیورسٹی سے کیمیا کے شعبہ میں پی ایچ
ڈی کی۔ تعلیم مکمل ہونے کے بعد اس نے انجنئیر کی حیثیت سے مختلف اداروں میں
کام کیا لیکن وہ مطمئن نہ تھا۔ اس نے اپنی دنیا آپ بنانے اور دنیا میں اپنا
نام کمانے کا تہیہ کیا اور ملازمت چھوڑدی۔ اس کے قریبی لوگوں نے اسے ملازمت
جاری رکھنا کا مشورہ دیا لیکن وہ کچھ ہی سوچتا تھا۔دی لاوال نے 1878ء میں
دودھ سے کریم الگ کرنے والی مشین ایجاد کرلی۔ یہ مشین جلد ہی دودھ کی صنعت
کا لازمی حصہ بن گئی۔ یہ صرف نقطہ آغاز تھا اور اس نے 1883 ء میں اپنی
کمپنی بناکر اپنی مشین کو تجارتی بنیادوں پر دنیا بھر میں فروخت کرنا شروع
کیا۔ دی لاوال 1888 ء میں بھاپ سے چلنے والی ٹربائن بنانے میں کامیاب
ہوگیا۔یہ ٹربائن بہت سی صنعتوں میں استعمال ہونے لگی اور بعد میں راکٹ انجن
میں بھی یہ شامل ہوئی۔ اس نے ایک منفرد نوعیت کی آبدوز بھی بنائی۔ اعلیٰ
تعلیم و تحقیق اور غوروفکر کرنے والے دماغ کو بروے کار لاتے ہوئے اس نے نت
نئی ایجادات کا سلسلہ شروع کردیا اور اس کی کل پیٹنٹ اور ایجادات کی تعداد
92 جبکہ اس کی کاروباری کمپنیوں کی تعداد 37تک جاپہنچی۔ دی لاوال کا یہ
سارا سفر اس کے عزم، ہمت اور جدوجہد مسلسل سے عبارات ہے جو اس محنت اور عزم
کی بدولت ممکن ہوا۔
دودھ سے کریم نکالنے والی مشین کی ایجاد کے بعد وہ رک نہیں گیا۔ وہ سویڈن
کے دارالحکومت اسٹاک ہوم منتقل ہوچکا تھا۔ اس کی زرعی پس منظر بالکل نہیں
تھا لیکن اس نے اس شعبہ میں تحقیق اور آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے
لئے اسٹاک ہوم کے نواح میں’’ تمبا ‘‘ کے علاقہ میں ایک وسیع زرعی اراضی
حاصل کی تاکہ ڈیری شعبہ کے لئے ٹیکنالوجی کے میدان میں نئی راہیں تلاش کی
جائیں۔ اس مقصد کے لئے اس نے جدید قسم کا ڈیری فارم بنایا۔ جب یہ ڈیری فارم
تعمیر ہوا توسویڈش پریس نے اس کا بہت مذاق اڑایا اور لکھا کہ کیا اب گائیں
اس طرح کے جدید محل نما گھروں میں رہیں گی جبکہ لوگوں کے پاس رہنے کے لئے
ایسے گھر نہیں۔ مذاق کا یہ وہی انداز تھا جیسا کہ وزیراعظم عمران خان کا
لائیوسٹاک سے ملکی معیشت میں تبدیلی کے لئے اڑایا گیا۔ ان تنقید کرنے والوں
کو شائد علم نہیں کہ یہی مرغیاں اور جانور دنیا کے کئی امیر ترین ممالک کی
معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھتے ہیں۔ نیدرلینڈ جیسا چھوٹا سا ملک
صرف لائیوسٹاک کے اس قدر زر مبادلہ کماتا ہے کہ پاکستان کی کل برآمدات سے
بھی وہ حاصل نہیں ہوتا۔ گستاف دی لاوال کی قائم کردہ کمپنی نے ڈیری
ٹیکنالوجی میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ دودھ دھونے والی برقی مشین بنانے سے
ڈیری صنعت میں کام میں آسانی کے ساتھ حفظان صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھا
گیا۔ دنیا بھر میں دودھ دھونے کے لئے یہ مشینیں استعمال ہوتی ہیں۔ ڈی لاوال
ڈیری فارم میں ایک گائے اوسط چالیس لیٹر دودھ روزانہ دیتی ہے بلکہ کچھ
گائیں ایسی بھی ہیں جو نوے لیٹر روزانہ تک دودھ دیتی ہیں ۔دودھ دھونے والی
برقی مشین کے بعد اب اس کمپنی نے دودھ دھونے کے لئے روبوٹ سسٹم تیار کیا
جسے کام کرتے ہوئے دیکھ کر ہمیں حیرت انگیز خوشی ہوئی۔ روبوٹ کے ذریعہ دودھ
دھونے کا یہ سسٹم VMSکہلاتا ہے اور سویڈن کے آٹھ سو فارم اسے استعمال کررہے
ہیں۔ ایک خود کار نظام کے تحت ایک ایک گائے روبوٹ کے پاس جاتی اور تقریبا
سات منٹ میں روبوٹ اس کا دودھ نکال لیتا ہے اور پھر دوسری گائے خود ہی
روبوٹ کے پاس آجاتی ہے۔کمپوٹر ایک ایک گائے سے حاصل ہونے والے دودھ کا
ریکارڈ رکھتا ہے۔ یہ سب خود کار نظام کے تحت ہوتا ہے جس میں ایک شخص کی بھی
ضرورت نہیں ہوتی۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ ڈیری فارم کا ملک اپنے گھر میں بیٹھ
کر اپنے موبائل فون سے تمام کام ہوتے ہوئے دیکھ سکتا ہے۔ ڈیری ٹیکنالوجی
میں یہ ترقی دی لاوال کے عزم اور محنت سے ممکن ہوئی اور اس نے حالات کا
رونا رونے کی بجائے اپنے زور بازو پر بھروسہ کیا۔ وہ دو مرتبہ سویڈش
پارلیمنٹ کا رکن بھی منتخب ہوا اور 2 فروری 1913 ء کو اس دنیا سے رخصت ہوا
اور اسٹاک ہوم کے ایک قبرستان میں دفن کیا گیا۔زندگی میں مسلسل اور تیز
رفتار جدوجہد کرنے کے باعث اس قبر کے کتبہ پر ’’ تیز رفتار انسان‘‘ کنندہ
ہے۔ گستاف دی لاوال کی زندگی سے ہمارے تعلیم یافتہ نوجوان بہت کچھ سیکھ
سکتے اور اسی عزم سے جہد مسلسل کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی ان کے قدم
نہ چومے۔ شاہراہ زندگی میں تیز دوڑیں اور جو کرنا چاہتے ہو کر ڈالو۔ ہمارے
ہاں بھی اسی طرح کی کئی روشن مثالیں ہیں جن میں دور حاظر میں سرفہرست قاسم
علی شاہ کی ہے جنہوں نے اپنی محنت اور لیاقت سے نہ صرف عظیم مقام حاصل کیا
ہے بلکہ وہ سب کو اپنے علم اور تجربہ سے دوسروں کو بھی مستفید کرتے جارہے۔
ایک شمع سے کئی شمعیں روشن ہورہی ہیں جن سے تاریکی اور بے نوری چھٹ جائے
گی۔
پیغام عمل علامہ اقبال کی ژاعری کا محور ہے اور انہوں نے نوجوانوں کو زندگی
میں عمل پیہم اور جہد مسلسل کا پیغام دیا ہے۔ ان کا یہ پیغام ان کی نظموں
چاند اور تارے ، خضر راہ اور طلبہ علی گڑھ کے نام میں اور بھی واضح ہے ۔
چاند اور تارے میں ان کا انداز ملاحظہ ہو
جنبش سے ہے زندگی جہاں کی
یہ رسم قدیم ہے یہاں کی
ہے دوڑتا اشہب زمانہ
کھا کھا کے طلب کا تازیانہ
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا، کچل گئے ہیں
علامہ طلبہ علی گڑھ کو پیغام دیتے ہیں کہ
آتی تھی کوہ سے صدا رازِ حیات ہے سکْوں
کہتا تھا مورِ ناتواں لْطفِ خرام اور ہے
موت ہے عیشِ جاوداں، ذوقِ طلب اگر نہ ہو
گردشِ آدمی ہے اور، گردشِ جام اور ہے
اپنی شہرہ آفاق نظم خضر راہ میں بہت خوبصورت انداز میں’’ شاعر‘‘ کی جانب سے
خضر کو کئے سوالات کا خضر نے بہت دلنشین انداز میں جواب دیا اور اپنے آخری
شعر میں سارے پیغام کا خلاصہ سمو دیا کہ
پختہ تر ہے گردش پہیم سے جام زندگی
ہے یہی اے بے خبر راز دوام زندگی
|