پنجاب میں حقیقی تبدیلی کا آغاز…… قومی زبان میں تعلیم

وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کمال جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے پرائمری سطح پر نصاب تعلیم کو انگریزی کے بجائے قومی زبان اردو میں منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ چندسال قبل شہباز شریف نے راتوں رات نرسری سے اعلیٰ تعلیم تک سارے نظام کو انگریزی میں منتقل کردیا تھا۔ اس بیوقوف نے یہ بھی نہیں سوچا کہ دیہی علاقوں میں انگریزی پڑھانے والے استاد سِرے سے دستیاب ہی نہیں۔ مغرب کی تقلید نے ہمارے عقل و فہم پر پردے ڈال رکھے ہیں، ہم ان کی طرف لپکنے اور ان کی پیروی کرنے میں اندھے ہو چکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ستر فیصد طلبہ امتحانات میں فیل ہوگئے اور سکول چھوڑنے کی شرح میں اضافہ ہوگیا۔ اس دوران پاکستان تبدیلی کے لپیٹ میں آگیا اور بلند و بانگ دعویٰ سننے کو ملنے لگے۔ چار سو ایام کا جائزہ لیا جائے تو وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے اس قدم کے علاوہ کہیں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی۔

عثمان بزدار نے پنجاب میں نصاب تعلیم کو قومی زبان میں منتقل کرکے عمران خان کے ویژن کو آگے بڑھایا ہے اور حقیقی تبدیلی کا آغاز کیا ہے۔ نصاب کی تبدیلی سے شرح خواندگی میں تیز رفتاری سے اضافہ ہوگا۔ بچے رٹہ بازی کے بجائے علم حاصل کریں گے۔ انگریزی کی ذہنی غلامی سے نجات پائیں گے۔ علم کے حصول سے ہر شعبہ زندگی میں نئی ایجادات اور دریافتیں ہوں گی۔ ہم علمی اور فکری جمود سے نکل کرسوچنے، سمجھنے اور بولنے والی قوم بن جائیں گے۔اب عثمان بزدار اگر نرسری سے پی ایچ ڈی تک سارے نظام تعلیم کو قومی زبان میں منتقل کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو تبدیلی کا خواب پورا ہو جائے گا۔ سینکڑوں سال انگریزی پر ضائع کرنے کے باوجود ہمارے ہاں انگریزی جاننے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ یونیورسٹیوں میں پیشہ وارانہ تعلیم کا انگریزی نصاب اردو میں ہی پڑھایا جاتا ہے۔ ساری تفہمی مشق اردو میں ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی،سینٹ، کابینہ سمیت تمام سرکاری اجلاس قومی زبان اردو میں ہی ہوتے ہیں، بس ان کی روداد انگریزی میں جاری کی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں اکثر مقدمات پر بحث اردو میں ہی ہوتی ہے، جبکہ ضلعی سطح پر تمام عدالتی کاروائی اردو میں ہوتی ہے، تاہم فیصلے انگریزی میں لکھے جاتے ہیں۔

اس دورنگی نے ہمیں معاشی، تعلیمی اور معاشرتی طور پر تباہ کررکھا ہے۔ ہزاروں پی ایچ ڈی سکالرز کی موجودگی کے باوجود کسی بھی شعبہ زندگی میں کوئی نئی دریافت دکھائی نہیں دے رہی۔ موجودہ نظام و نصاب تعلیم سے برآمد ہونے والے مواد کو کوڑا کرکٹ سے زیادہ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ منہ ٹیڑا کرکے فرنگی زبان بولنے والوں نے اس ملک کی دینی اور تہذیبی اقدار کو بھی ٹائٹس اور برہنگی سے دوچار کردیا ہے۔ اب امی ، ابو سے مما ، پاپا تک کی تبدیلی نہیں آئی بلکہ ماں اور باپ کے الفاظ میں موجود ادب، احترام، اپنائیت، محبت اور پیار سب ہی کچھ لُٹ چکا ہے۔

نصاب تعلیم کو قومی زبان میں منتقلی سے علمی فوائد کے ساتھ ساتھ ہم اپنے دینی اور تہذیبی اقدار سے بھی قریب ہو تے جائیں گے۔ صدیوں کا علمی ورثہ ہماری دسترس میں رہے گا اور تہذیبی ورثے سے ہمارا تعلق گہرا ہوتا چلا جائے گا۔ ہم اپنے سماج میں جینے کا ہنر سیکھ پائیں گے اور سفید فام جاہلوں کی خداگریز جہالت سے بھی نجات پالیں گے۔مغرب میں دستیاب تمام جدید ایجادات الحمدﷲ سب مسلمانوں کے کارہائے نمایاں ہیں، وہ بھی اس دور کے مسلمانوں کے جب وہ اپنی قومی زبانوں میں پڑھتے لکھتے تھے۔ اب ہرطرف فرنگی زبان کے غلبے نے مسلمانوں کی علمی اور فکری صلاحتیوں کو سلب کرلیا ہے۔ ایک رٹہ باز ڈاکٹر، انجنئیر یا پی ایچ ڈی سکالر کا حیثیت ایک حافظ قرآن جیسی ہوتی ہے ، جو قرآن کو بہت خوبصورت انداز میں تلاوت تو کرسکتا ہے لیکن قرآن کے علم و فکر کو نہ سمجھ سکتا ہے اور نہ بیان کرسکتا ہے۔

ہمارے نظام تعلیم میں خرابیوں کی فہرست طویل ہے، محض اردو کی طرف مراجعت کافی نہیں اساتذہ کی تربیت اور توجہ کو درست رکھنے کی ضرورت ہے۔اساتذہ کی مراعات کو نتائج سے جوڑے بغیر بہتری ممکن نہیں۔ اسی طرح حکمرانوں، سرکاری افسروں اور اساتذہ کے بچوں کا سرکاری سکولوں کے علاوہ کسی بھی ادارے میں پڑھانے پر پابند عائد کیے بغیر
 

Ata Ur Rehman Chohan
About the Author: Ata Ur Rehman Chohan Read More Articles by Ata Ur Rehman Chohan: 10 Articles with 9533 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.