ادی (میری والدہ ) نے کہا کہ آپ آجائیں ، تمہارے والد کی
طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔میں نے کہاادی ،اباجی تین برسوں سے جگر کے اس مرض کا
مقابلہ کررہے ہیں،ماشا ٰ اﷲ ۔ ان کی طبیعت کوکیا ہوا اور ڈاکٹر کیا کہہ رہے
ہیں ؟ وہ سب تو اپنی ذمہ داریاں پوری کررہے ہیں لیکن میرا دل مطمئن نہیں
ہے۔ ادی ،اباجی نے اس سی ایل ڈی مرض کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے الحمدﷲ۔ اب کیا
وہ مقابلہ نہیں کرنا چاہ رہے ہیں؟ بیٹا وہ کیا بول رہے ہیں مجھ سمیت کسی کو
بھی سمجھ نہیں آتا ہے۔بولتے تھے اور ہم کچھ سمجھ بھی جاتے تھے لیکن اب وہ
آنکھیں بند کئے خاموش ہوگئے ہیں کسی بھی بات کا جواب نہیں دیتے ۔۔۔
ادی ،کسی ڈاکٹر یا عملے سے بات ہوسکتی ہے ؟ ابھی وہاں کوئی ڈاکٹر نہیں ،
تمہارا بھتیجا ہی ان کے پاس ہر وقت رہتا ہے دن بھر تو ہم بھی ہسپتال میں
ہوتے ہیں تاہم رات دس بجے کے بعد یہاں کسی کو رکنے نہیں دیا جاتا اور بلال
رک جاتا ہے۔ رات میں ٹھنڈ بھی ہوتی ہے۔ بہرکیف بہتر یہی ہے تم آجاؤ۔ یہ کہہ
کر ادی نے خداخافظ کہا اور فون بند کردیا ۔ چند لمحے ہجوم میں بیٹھا زمین
کو دیکھتا رہا اور پھر اک لمبی سانس لینے کے بعد آسمان کی جانب دیکھا اور
دیکھتا ہی رہا۔ کچھ ساعتوں کے بعد زوجہ کو اطلاع دی اور ساری صورتحال بتائی
جسے سن کر وہ بھی پریشان ہوئیں۔انہوں نے کہا کہ چند دن پہلے ہی ہم آئے ہیں
اور ہم ملک کے کشیدہ صورتحال میں کہ جب فضائی سفر ممنوع تھے اور 32گھنٹوں
کے طویل سفر کے بعد وہاں پہنچے تھے تو اس وقت ان کی صورتحال قدرے بہتر
ہوگئی تھی ان کے طبیب سے بھی ہماری تفصیلی ملاقات رہی ۔ اب ایسا کیا ہوگیا
ہے کہ انہوں نے بات کرنا ، سوال کا جواب دینا چھوڑ دیا ہے ؟ مجھے اس
صورتحال کا علم نہیں ، اباجی اتنے برسوں سے بیمار ہیں کبھی بھی والدہ نے
ایسا نہیں کہا کہ آپ آجائیں لیکن اب کی بار انہوں نے یہ کہا ہے جس سے مجھے
ایسا لگتا ہے کہ ان کی طبیعت زیادہ خراب ہے۔ اباجی کے قریب ہم بیٹوں میں سے
بھی کوئی وہاں موجود نہیں ، بڑے بھائی دوماہ سی ایم ایچ اسلام آباد میں دو
ماہ گذارنے اور اپنے بائیں پاؤں کو گھٹنے سے اوپر تک گینگرین کے باعث
کٹوانے کے بعد گھر آئے ہیں تا ہم وہ بستر پر ہی ہیں ، چھوٹا بھائی اپنے
ادارے کے کاموں میں اس قدر منہمک ہیں کہ انہیں رخصت دینے کا فی الحال
انتظامیہ کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ بہرکیف ابھی چھوٹے بھائی کو فون کرکے گھر
بلاتا ہوں اور اس سے کہتا ہوں کہ وہ ہر صورت میں سی ایم ایچ کوہاٹ جائیں۔
12مارچ رات دس بجے بھائی میرے سامنے بیٹھا تھا اور اسے ساری صورتحال سے آگا
ہ کرنے کے بعد اس سے یہ کہا کہ آپ ، بس چلے جائیں۔ اس کا کہنا تھا کہ مجھے
چھٹی نہیں ملے گی اور اس کے ساتھ بچوں کے بھی ان دنوں سالانہ امتحانات
ہورہے ہیں۔پھر بھی میں کل آپ کو بتاتاہوں ۔یہ کہنے کے بعد وہ تو چلے گئے
اور میں اس لمحے والدہ کو دوبارہ فون کرنے لگ گیا ، والدہ سے بات اور تازہ
ترین صورتحال معلوم کی ، میر ے تمام سوالوں پر انہوں نے صرف اتنا کہا کہ
ویسے ہی ہیں۔۔۔وہ رات کس طرح گذری ، صرف خدا جانتا ہے ۔۔۔
میرے اباجی جو میری زندگی میں کبھی ایسے بیمار نہیں ہوئے کہ انہیں بیماری
کے باعث ہسپتال میں داخل ہونا پڑا ہو، لیکن آج وہ ہسپتال کے میڈیکل آئی سی
یو میں ہیں اور ان کے ڈاکٹرز تک یہ کہہ رہے ہیں کہ دعا کریں۔دو برس قبل بھی
اسی سی ایم ایچ کے اسی آئی سی یو میں وہ داخل تھے اور ہم شہر قائد سے اسلام
آباد ائیر پورٹ اور وہاں سے کوہاٹ گئے تھے د و دن اسی ہسپتال اور پھر چار
دن پشاور کے سی ایم ایچ میں ان کے تمام ٹیسٹ کرانے کے بعد انہیں بہتر حالت
میں کوہاٹ لے آئے تھے ۔اس پورے سفر میں ہر پل ہر لمحہ عارفہ (شریک حیات )
ساتھ رہیں وہ چونکہ اسی طب کے شعبے سے وابستہ ہیں لہذا نہایت اطمینان کے
بعد ہی اچھی حالت میں اباجی کو ہسپتال سے خارج کرواکر ہم کوہاٹ بہن کے گھر
لے آئے تھے۔ وہاں تو والد صاحب کی صحتیابی کی خوشی میں کیک تک کا ٹا گیا،
خوشی کہ وہ لمحات اب تلک شعور میں ہیں۔لیکن اب یہ صورتحال ، اﷲ اکبر۔۔۔
اباجی کو اک بار یہ کہا تھا کہ آپ نماز فجر اور عشاء کے بعد اول و آخر درود
شریف پڑھیں اور 115بار یاسلام پڑھیں ،ا ن شاء اﷲ آپ ضرور صحتیاب ہوجائیں
گے۔ انہوں نے اس پرعمل کیا ، اورخوب دل لگاکر پڑھا ۔میری جب بھی ان سے فون
پر بات ہوتی تھی تو اس لمحے بھی دیگر باتوں کے اختتام پر وہ یہ کہا کرتے
تھے کہ میں پڑھ رہا ہوں ۔۔۔فروری کے آخری عشرے میں جب ہم کرک گئے تو اس وقت
بھی ہوش و حواس میں رہتے ہوئے یا سلام پڑھا کرتے تھے۔ ان دنوں حالانکہ ان
کی زبان سوجھ گئی تھی اور ن کے کہے ہوئے الفاظ ہمیں تو بالکل سمجھ نہیں
آپاتے تھے لیکن ادی سمجھ جایا کرتی تھیں ۔اباجی کہ ان دنوں باقی الفاط تو
ہم نہیں سمجھ پاتے تھے لیکن جب وہ یاسلام پڑھتے تھے توہم وہ سمجھ جایا کرتے
تھے۔
13مارچ کی صبح ہوئی اور آغاز دن سے ہی ہمیں اس بات کی جلدی رہی کہ بھائی
اعجاز ہمیں بتائیں کہ چھٹی مل گئی ہے اور اسکول میں بھی بات ہوگئی ہے لہذا
اب ہم جارہے ہیں۔دن بھر ہم والدہ ، بڑی بہن ،بھتیجے سمیت دیگر عزیزوں سے
رابطے میں رہے اور ان سے اباجی کا حال پوچھتے رہے ۔ ان کے ساتھ عملے کے اک
فرد سے بھی ہم تفصیلات معلوم کرتے رہے،پورے دن میں سبھی سے رابطوں میں کہیں
سے بھی ہمیں ایسی خبریں نہیں ملیں کہ جن کو سن کر ذراسی تسلی ہوپاتی۔ بھائی
نے بتایا کہ اسکول والے ایک ہی دن میں تمام پرچے لے لینگے اور چینل والے
20مارچ سے چھٹیاں دے دینگے۔یہ اطلاعات اس لمحے میرے لئے ناقابل تسلی تھیں
اور زوجہ سے مشاورت کے بعد 14مارچ کی دوپہر کے وقت کی جہاز کی ٹکٹ بک کر
لی۔
اباجی کی طبیعت کی آگاہی کیلئے کالز آتیں رہیں اور ان کا اضافہ اس روز
زیادہ ہوا جب ہم پشاور کیلئے روانہ ہوئے۔ متواتر کالز اور ایس ایم ایس میں
متعدد کے ہم سن نہ پائے اور نہ ہی ایس ایم ایس کے جوابات دے سکے۔ایئرپورٹ
کے انتظار گاہ میں اس جگہ کو غور سے دیکھتے اور اس کے آس پاس ٹہلتے رہے
جہاں اک برس قبل اباجی اور ادی بیٹھے تھے اور ہم ان کے ساتھ روانگی کے
اعلان کے منتظر تھے۔ اس روز مسافروں کی تعداد زیادہ تھی تاہم ان لمحات میں
ہمیں سب خالی نظر آنے کے سے احساسات ساتھ محسوس ہوتا رہے۔ اس دوران شہر
قائد سے کالز آتیں رہیں اور انہیں ہم نظرانداز کرتے رہے۔ ہمیں ان لمحات میں
کوہاٹ سے ایسے فون کی تمنا تھی جو ہمیں یہ بتاتے کہ اباجی بہتر ہورہے ہیں
اور بہتری کی جانب بڑ ھ رہے ہیں۔تاہم ایسا کچھ نہ ہوا۔۔۔ ادی کو ہم نے خو د
کال کی اور انہیں بتایا کہ کچھ دیر میں ہم روانہ ہونے والے ہیں اور پھر کچھ
دیر میں پشاور اور وہاں سے کوہاٹ آپ کے پاس پہنچ جائیں گے۔ان کے جوابات میں
صرف یہ جملہ تھا کہ اﷲ آپ کے اباجی کو آسانیاں عطا کرئے اور آپ کو بخیر
پہنچائے۔ ہم نے امین کہا اور اسی دوران جہاز کے اندرجانے کا اعلان کیا گیا۔
کراچی سے پشاور کا سفر اور پھر پشاور سے سی ایم ایچ کوہاٹ تک کا سفر ۔۔ ۔
کسی درد بھرے سفر نامے سے کم نہ تھا ، اندورنی کیفیت و احساسات بس وہ جانتا
ہے جسے اس دوران پکاراجاتارہا۔۔۔۔۔۔
دو گھنٹے کا سفر زندگی کا طویل سفر لگ رہا تھا ، بہرحال گذر گیا اور پشاور
بھی آگیا۔ کالز اور ایس ایم ایس کا ناختم ہونے والا سلسلہ دوبارہ جاری ہوا
جسے ہم نظرانداز کرتے رہے۔ ایئرپورٹ سے باہر آئے اور ٹیکسی کے ڈرائیور کو
واضح انداز میں یہ کہا کہ سی ایم ایچ کوہاٹ کے اندر جانا ہے اس لئے گفتگو
سے اجتناب کرتے ہوئے تیزی کے ساتھ ہماری اولین ترجیح ہے ، اگر وہ تیار ہیں
تو بس چل پڑیں۔ اس ڈرائیور نے بھی صورتحال کو سمجھتے ہوئے برق رفتاری سے
گاڑی کو کم وقت میں کوہاٹ سی ایم ایچ پہنچایا۔الحمداﷲ
سی ایم ایچ میڈیکل کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں اباجی نرسنگ کاؤنٹر کے
قریب بستر پر تھے اور انہیں متعدد کینولے لگے ہوئے تھے اور اس کے ساتھ
کارڈیک مشین بھی لگی تھی جس میں انکی ساری تفصیلات عیاں تھیں۔انہیں دیکھنے
اور آوازیں دینے کے عمل سے گذرنے کے بعد بس انہیں غور سے تکتے رہے۔ اپنی
زندگی میں کبھی انہیں اس قدر بیمارنہیں دیکھا تھا اور نہ ہی اس حال میں کہ
وہ بوجہ علالت ہسپتال میں داخل ہوں، نہیں کبھی نہیں ایسا ہوا تھا ۔ ہاں کچھ
عرصہ قبل جب وہ اسی جگہ پر زیر علاج تھے اور مجھ سمیت میری زوجہ نے ہنگامی
بنیادوں پر شہرقائد سے اسلام آباد اور پھر وہاں سے کوہاٹ کا رخ کیا تھا ،
اس روز جب اباجی کو دیکھا تو ہماری حالت نہ قابل بیاں تھی۔ اباجی کے دونوں
ہاتھوں کو بستر کے اطراف باندھا گیا تھا اور ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ وہ
دواٗوں کے استعمال سمیت دیگر علاج معالجے میں تعاون نہیں کررہے ہیں اور اسی
وجہ سے یہ قدم اٹھایا گیاہے۔بہرحال اس روز بھی شریک حیات کی کاوشوں کے
نتیجے میں اک ٹیسٹ ایم آر آئی کرانے کیلئے پشاور سی ایم ایچ لے جانہ
پڑا،جہاں اباجی نے کئی روز قیام کیا اور تمام ٹیسٹ کی درستگی کے بعد
بخیروعافیت ہم کوہاٹ آئے ۔ پشاور سے کوہاٹ تک کے سفر کو اباجی نے اچھے
انداز میں گذارا تھااور انہوں نے تو گھر میں سب کی موجودگی میں کیک بھی
کاٹاتھا، ان لمحوں میں اباجی ،ادی ، چھوٹی بہن اور ان کے سارے بچوں کے
چہروں پر مسکراہٹیں اس وقت بھی یاد آرہی تھیں۔ آج انہیں جس حالت میں دیکھ
رہا تھا وہ یکسر مختلف تھی۔نرسنگ اسٹاف سے تفصیلات جاننے کیلئے رابطہ کیا
جس پران کا کہنا تھا کہ کچھ دیر میں ان کے ڈاکٹر آجائیں گے لہذا بہتر یہی
ہے کہ ان کا انتظار کیا جائے۔یہ سب سن کر اباجی کو دوبارہ دیکھا اور اﷲ سے
ان سمیت اس وارڈ میں تمام مریضوں کی جلد صحتیابی کی دعائیں کرتا باہر
آگیا۔انتظارگاہ میں ادی، بہن، بھتیجا،چچاسمیت دیگر کئی عزیزموجود تھے جن کے
چہرے ان کے اندرو نی صورتحال کی عکاسی کررہے تھے۔ بہرکیف ادی سمیت سبھی کو
تسلی دی اور بتایا کہ اباجی کا بڑا ڈاکٹر آرہاہے، ان شاء اﷲ وہ مزید اچھی
صورتحال سے نہ صرف آگاہ کرینگے بلکہ اپنی جاری کاوشیں ،نئے منصوبوں کے ساتھ
بتائیں گے۔ ان جملوں پر ادی سمیت دیگرنے نگاہیں نیچی کرکے زمین کو دیکھا
اور دیکھتے ہی رہے ۔
موبائل فونز کالز اور ایس ایم ایس کا سلسلہ اپنی جانب ہمیں متوجہ
کرتارہاتاہم تازہ ترین صورتحال کو دیکھنے کے بعد عجب کیفیات طاری ہوئیں۔ اس
لمحے زوجہ کو کال کی اور انہیں ساری صورتحال بتائی۔ انہوں نے دعائیں کیں
اور ڈاکٹر سے مزید تفصیلات معلوم کرنے کو کہا۔ اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی
کہنا تھاکہ آپ شہر قائد سے گئے ہیں ،یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بڑے بھائی
پہلے ہی بستر پر ہیں اور چھوٹا بھی اباجی کی صورتحال کے پیس نظر آج ہی کوچ
سے نکل گئے ہیں۔ لہذا آپ کو تسلی مائی سین والا کام کرنا ہے۔ گفتگو جاری
تھی کہ اس وقت بھتیجے نے کہا کہ وہ بڑا ڈاکٹر آگیا ہے سو آپ فوری طور پر
وارڈ کے اندر جائیں۔وارڈ میں وہ ڈاکٹر اپنے جونیئر کے ساتھ راؤنڈ کررہاتھا
جب وہ اباجی کے پاس آئے تو سلام کرنے کے بعد پوچھا آپ ان کے بیٹے ہیں ،میرا
مثبت جواب پاکر کہنے لگے کہ ہم آپ سے تفصیلی بات کرینگے اس کیلئے آپ انتظار
کیجئے تاکہ ہم تمام مریضوں کو دیکھ لیں۔اثبات میں جواب دینے کے بعد وہ
اباجی کے متعلق اپنی ٹیم سے گفتگو کرتے رہے اور اس کے ساتھ انہیں ہدایات
بھی دیتے رہے۔
بعدازاں وارڈ کے باہر ہمیں طلب کیااور پھر انہوں نے اباجی کے متعلق تفصیلی
باتیں کیں اور اس کے ساتھ سوالات کے جوابات دیتے رہے۔انکا کہنا تھاکہ ان کے
جسم سے پانی کا اخراج نہیں ہورہااور پانی پیٹ میں جمع ہورہاہے جو کہ ان کی
صحت کیلئے نقصان دہ ہے۔ اس کے ساتھ بلڈپریشرکم ہے اور اسی طرح کی دیگر
تفصیلات سے آگاہ کرتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ اب ہم اک سی وی پی لائن ڈالنا
چاہتے ہیں جس کیلئے آپ کے دستخط ہونا ضروری ہیں۔ ان کی ساری گفتگو سننے کے
بعد ہم نے انہیں یہ کہا کہ اب تک کے تمام اقدامات سے ہم مطمئن ہیں اسلئے آپ
جیسا مناسب سمجھتے ہیں ویسا قدم اٹھائیے۔ہماری تو ایک ہی دعا ہے کہ اﷲ
اباجی کو جلدی صحتیاب کردے ۔وہ مسکراے اور کہاکہ ہم اپنی کوشش کرتے ہیں اور
آپ ضروردعائیں جاری رکھیں۔ ادی و دیگر کو ساری صورتحال بتائی اور زوجہ کو
بھی آگاہ کیا ان کو ڈاکٹرز کے اس اقدام سے قدرے تسلی ہوئی ، دعا خود بھی کی
اور ہمیں بھی دعائیں جاری رکھنے کا کہا۔ رات کے دس بجے ہی تھے اور ہسپتال
انتظامیہ کے اہلکار مریضوں کے تیمارداروں کو رخصت ہونے کی تاکید کرتے ہوئے
سامنے آئے ، ہم نے بھی اس پر عمل کیا تاہم نہ چاہتے ہوئے بھی والدہ اور بہن
کے ساتھ ساڑھے گیارہ بجے ہم ہسپتال سے رخصت ہوئے ۔ سردی عروج پر تھی تاہم
ان لمحوں میں ہم اسے محسوس نہیں کرپارہے تھے۔گھر آئے اور ادی کے ساتھ بیٹھ
کر کھانا کھایا اور ڈھیر ساری باتیں کیں ، وہ با ر بار مجھے یہ کہتی رہیں
کہ آپ سوجائیں سارادن سفر کیا ہے تھک گئے ہوگے تاہم ان کی اس بات سے نظر
انداز کرتے کرتے جب شب کا ایک بج گیا تو مناسب یہی جانا کہ چند گھنٹوں کا
آرام ازخد ضروری ہے ، فجر کی ادائیگی کے بعد دوبارہ سی ایم ایچ جانا ہے اس
لئے سو جایا جائے۔ ڈیڑھ سے دوبجے کے درمیان ہم جائے نماز بچھا کر اﷲ سے
اباجی کی جلد صحتیابی کی دعائیں کرتے رہے۔ اس دوران بھی کالز کا سلسلہ کم
جبکہ ایس ایم ایس کا سلسلہ جاری رہا۔ ہم لیٹ گئے اور سونے کی کوشش کی ،نیند
نہیں آئی ۔ تین بجے ہسپتال کے عملے سمیت بلال کو کالز کیں اور صورتحال
پوچھی ، ان کے جوابات اس وقت بھی وہی تھے۔
سوتے جاگتے بلاآخر صبح موبائل فون کے الارم نے اٹھا دیا ۔ اٹھے وضو کیا پھر
بلال کو کال کی انکا جواب یہی تھا کہ بس ویسے ہی ہیں ۔نماز ادا کیا اور بہن
کے اصرار پر ناشتہ کیا اور ہسپتال کی جانب چل دیئے۔ اباجی کو دیکھا کچھ دیر
دیکھتا رہا پھر بلال کو لے کر کینٹین لے گیا وہاں اسے ناشتہ کرنے کو کہا
اور پھر اسے مسجد میں کچھ آرام کرنے کی تاکید کی۔ اس کا کہنا تھا کہ رات
تین بجے آپ نے فون کیا تھا اس لمحے اباجی کی طبیعت بہت ناساز ہوگئی تھی
،میرا دل چاہ رہاتھا کہ میں آپ سے کہوں کہ آپ جلدی سے آجائیں لیکن مجھے
معلوم تھا اور ہے بھی کہ اس وقت سواری نہیں ملے گی اس لئے بس میں اﷲ سے دعا
کرتا رہا ۔۔۔
وہ مسجد گئے اور ہم واپس اباجی کے پاس چلے گئے ، دعائیں پڑھ کر ہم نے اباجی
کا چہرہ ، ہاتھ گیلے کپڑے سے صاف کئے اور پھر دوسرے رخ کی جانب گئے وہاں
بھی اسی انداز میں اباجی کا چہرہ ، بازو صاف کیا ۔ اس لمحے مجھے اباجی
تروتازہ سے لگے ۔ دل کے نہایت اندر سے اباجی کی جلد صحتیابی کیلئے دعائیں
نکلیں۔آوازیں دیں جن کا کوئی جواب اباجی نے نہیں دیا ۔ بہرحال اس وقت ہم نے
ان کا سیدھا ہاتھ اپنے سیدھے ہاتھ میں تھاما اور الٹے ہاتھ سے ان کے بالوں،
چہرے پر پھیرتے رہے۔ بہت اچھا لگ رہا تھا۔ ان لمحوں کی کیفیات ناقابل بیاں
ہیں اور رہیں گیں۔۔۔
اس پورے عمل میں ہم سورہ یسین کی تلاوت کرتے رہے ۔ آٹھ بجکر کچھ منٹ ہوئے
تھے ، وارڈ کی انچارج نرس آئیں اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ باآواز بلند
سورہ یسین پڑھیں ۔ میرے جواب پر کہ وہی پڑھ رہا ہوں انکا کہنا تھا کہ بلند
آواز سے پڑھیں اور ان کے کان کے قریب ہوکر پڑھیں۔ اﷲ ، آپ کے پڑھنے کو قبول
فرمائے اور آپ کے والد کو ٹھیک کرئے ، امین ۔ انچارج نرس کی ہدایت پر ہم نے
عملدرآمد کیا اور اباجی کے کان کے قریب سورہ یسین کو پڑھنا شروع کیا، نظریں
کارڈیک مشین پر ہی رہیں۔یہ سلسلہ جاری تھا کہ ہمارے اک چچا آئے اباجی کو
دیکھا پھر مجھ سے حال پوچھا اور تفصیلات جاننے کے بعد باہر چلے گئے۔ سواآٹھ
بجے کا وقت تھا اس لمحے کارڈیک مشین پر نظر آنے والے ہندسوں میں ہمیں کمی
محسوس ہوئی ، اباجی کا بلڈ پریشر کم ہوا اور مزید کم ہورہا تھا ۔ ہم نے اس
نرس کو مطلع کیا ، انہوں نے جونہی مشین کو دیکھا تو عملے کو فوری حکم دیا
کہ ڈاکٹر میجر یاسر کو بلاؤ، جلدی کرو۔ اور اسی اندازمیں ہنگامی کاروائی
انہوں نے شروع کردی۔ مجھ سے کہا کہ آپ باہر چلے جائیں، ہم نے منع کیا اور
کہا کہ آپ اپنے اقدامات کریں ہم کسی بھی عمل میں مخل نہیں ہونگے۔اباجی کے
گرد پردے لگادیئے گئے اور اس کے ساتھ فوری ادویات کی ٹرالی و دیگر ضروری
اشیاء بھی لے گئے۔ اس وقت ڈاکٹر میجر یاسر آئے اور ہم سے مخاطب ہوئے ، ہمیں
صورتحال بتائی ، اپنی کاوشیں بھی سامنے رکھیں ۔ ان کی گفتگو کے دوران ہماری
نظریں کارڈیک مشین پر مرکوز رہیں۔ڈاکٹر نے میرے لئے پانی منگوایا اورہم سے
پینے کو کہا ، ہم نے بمشکل ایک گھونٹ لیا اور پھر ان سے کہا کہ میرے اباجی
نے اپنی زندگی کے 32برس اس ملک کے سرحدوں کی حفاظت کی ہے ، اس بیماری کا
انہوں نے طویل عرصے مقابلہ کیا ہے ۔ ہمیں اپنے والد صاحب کی ان خدمات پر
فخر ہے اور یہ انہی کی تربیت کا اثر ہے کہ ہم ہر طرح کی صورتحال سے
نبردآزما ہونے کیلئے تیار ہیں۔اس لئے ڈاکٹر صاحب آپ اپنا کام کیجئے ، ہم ہر
طرح کی صورتحال اور خبر کیلئے تیار ہیں۔انہوں نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا
اور اباجی کی جانب لپکے۔ ہم دیکھتے رہے اور ۔۔۔اور ۔۔۔پھر کچھ دیر کے بعد
کارڈیک مشین پر سب لائنیں سیدھی ہوئیں اور غائب بھی ہوگئیں۔۔۔و ہی ڈاکٹر
یاسر اباجی کے پاس سے آئے میرے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کر یہ بتانے کی کوشش
کرتے رہے کہ آپ کے والد صاحب چلے گئے۔۔۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے والد صاحب
کی جدوجہد کو ، انکی خدمات کو میں ، میری پوری ٹیم سیلوٹ کرتی ہیں۔۔۔ مجھے
گلے لگایا اور کہا چیف صاحب چلے گئے۔۔۔میں کچھ دیر کھڑا رہا انہوں نے میرے
لئے پانی کے گلاس کیلئے حکم دیا تاہم ، اس لمحے ہم وہاں سے باہر آگئے اور
آسماں کی جانب دیکھتے رہے ، پھر انا ﷲ وانا الیہ راجعون پڑھا اور پڑھتے
رہے۔۔۔ میری آنکھوں سے نمی پلکوں سے آکر رکھ گئی اور پھر ہم واپس اباجی کے
پاس گئے۔ وہاں عملہ ان پر مصروف تھا لہذا ہم دوبارہ باہر آگئے اور لان میں
اپنی پھوپھی کے پا آکر بیٹھے ۔ انہوں نے حال پوچھ ، جس کا جواب دینے کے
بجائے ہم نے انہی سے پوچھا کہ چچا کہاں گئے اور ادی لوگ ابھی تک نہیں آئے
؟انہوں سے کچھ جواب دیئے اور پھر اباجی کا پوچھا ۔ اسی اثنا ء میں ہم نے
ادے کو کال کی ، انہوں نے کال وصول کی تاہم وہ رکشے میں ہونے کی وجہ سے
میری آواز کو صحیح طور نہ سن پائیں اور فون بہن کو دیدیا ۔ ہم نے پوچھا کہ
آپ لوگ کہاں تک پہنچے ہیں ان کا جواب تھا کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی نکلے
ہیں ، کیوں کیا ہوا ، اباجی تو ٹھیک ہیں نا؟ بھائی ، آپ بتائیں کیا ہوا ہے؟
ہم نے کہا کہ آپ لوگ ابھی نہ آئیں کچھ دیر کے بعد آئیے گا ،ہم آپ لوگوں کو
جب آنے کا کہیں گے۔ اس نے میری بات کو سننے سے پہلے دوبارہ کہا کہ مجھے
بتائیں کیا ہوا ہے اباجی کو ، بس اس لمحے میری زبان سے نکلا کہ گلے ، اباجی
چلے گئے ۔۔۔اناﷲ و انا الیہ راجعون پڑھیں اور آپ لوگ گھر جائیں۔ یہ سنتے ہی
اس کی آواز بھراآگئی تاہم ہم نے انہیں سختی سے کہا کہ ادے آپ کے ساتھ ہیں ،
خبردار آپ نے انکا خیال رکھنا ہے ۔ ابھی نہیں رونا ، آپ لوگ یہاں نہ آئیں
۔۔۔ میری یہ گفتگو سامنے بیٹھی پھوپھی نے سنی تو وہ زاروقطار رونے لگیں۔ اس
لمحے فون پر بہن اور سامنے پھوپھی ،دونوں کو سنبھالنا بہت مشکل تھا ، پھر
بھی اﷲ کا شکر ہے کہ بہن ادے کو لے کر واپس گئیں اور پھوپھی نے بھی کچھ ہمت
سے کام لیا۔ چھوٹا بھائی جو اپنے کنبے کے ساتھ گاؤں کی جانب گامزن تھا اسے
بھی فون کرمطلع کیا اور تاکید کی کہ جذباتی نہ ہونا کیونکہ بچے سب آپ کے
ساتھ ہیں ، اگر آپ جذباتی ہوئے تو اس کے ان پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔
الحمداﷲ اسنے حامی بھری ،اس لمحے چچا بھی آگئے اطلاع سن کر وہ بھی قدرے
جذباتی سے ہوئے انہیں گلے لگاکر ہم واپس وارڈ میں گئے جہاں پر اباجی کی
پٹیاں ، کینولے نکالے جارہے تھے ۔ ہم سے عملے نے کچھ مزید تفصیلات لیں اور
ڈیتھ سرٹیفکیٹ کچھ دیر میں فراہم کرنے کا کہا۔ کچھ دیر بعدوردی میں
دواہلکار آئے اور انہوں نے اباجی کا پورا نام و دیگر تفصیلات معلوم کیں اور
بتایا کہ آج جمعے کا دن ہے اور آج جمعے کی نماز کے بعد دعا میں امام مسجد
ان کاذکر کرینگے اور ان کیلئے خصوصی دعائیں کی جائینگی۔
اباجی کے وفات پانے کے بعد کوہاٹ سے گاؤں تک کا سفر اور اس سفر کے بعد گاؤں
میں پہنچنے سے نماز جنازہ اور تدفین تک کا سارا قصہ ہمارے لئے ناقابل بیان
ہے اور تاعمر حیات رہے گا۔ ہاں چند باتیں ازحد ضروری ہیں ، میری ادی کا
پہاڑ جیسا حوصلہ ، کوہاٹ سے گاؤں تک کے سفر میں ایمبولینس کے پچھلے حصے میں
اباجی ان کے سامنے ہم ، ادی کا پورے سفر کے دوران میرے کندھے پر سر رکھ کر
اﷲ کا ذکر اور دعائیں، دوبار ان کا جذباتی ہونااور باقیوں کے جذباتی ہونے
پر انہیں تسلی دینا ۔۔۔ اباجی کا جانے سے پہلے یہ حکم دینا کہ میرا جنازہ
میرا پوتا حارث پڑھائیگا، حارث کا ہی نماز جنازہ پڑھانا، پھر بڑے بھائی کا
بہنوں کا بھانجے، بھانجیوں، بھتیجے ، بھتیجوں کا ، ان کے ساتھ سبھی عزیز
رشتہ داروں غرض پورے گاؤں وا لوں کا جمع ہونا ، نماز جنازہ کا اٹھنے سے لے
کر اباجی کے جسم کے قبر میں اتاراجانا۔۔۔ آہ بس یااﷲ ۔۔۔۔
اب تلک کی زندگی میں بہت سارے نماز جنازے اداکئے ، میتوں کو کندھادینے کے
ساتھ قبروں میں بھی اتارا ، قبروں پر مٹی بھی رکھی ، کئی کئی گھنٹے تک
قبرستانوں میں بھی گذارے تاہم اباجی کے جانے کے بعد اب تلک کی کیفیات سمجھ
سے بالاتر ہونے کے ساتھ ناقابل بیاں ہیں۔ اﷲ ان سمیت تمام مرحومین کے درجات
کو بلند کرئے ، امین اس کے ساتھ لواحقین کو اپنے پیاروں کے ایصال ثواب
کیلئے مثبت اقدامات کرنے رہنے کی توفیق دئے ، ثماامین اور اس کے ساتھ اباجی
نے جو خدمات اس ملک کیلئے سرانجام دیں، مجھے اس سفر کو جاری رکھنے کی توفیق
دئے ، امین ثماامین
|