ہرسال آبادی کا عالمی دن 11جولائی کومنایاجاتا ہے مگراسے
منانے کامقصدآج تک لوگوں کونہیں آیا کچھ لوگ چھوٹے چھوٹے سیمنارکرکے کچھ
لوگ ٹی پراشتہارات چلا کرسمجھتے ہیں ہم نے اپنافرض اداکردیا اورسب بھول
جاتے ہیں جس کی وجہ سے آبادی پرکنٹرول ممکن نہیں ہورہاآرٹیکل شروع کرنے سے
پہلے اپنے قارائین کوبتاتاچلوں کہ آج سے 30سے 40سال پیچھے جائیں اوردیکھیں
تویادپڑتاہے کہ کوئی ایسا والد نہ ہوگاجس کے 10سے کم بچے ہوں میرے خود نانا
ابو کے ایک ہی شادی سے 11بچے داداابو کی تین شادیاں ہوئیں جن میں سے 14بچے
اورایک چاچوجن کے 12بچے باقی ایسی کئی مثالیں مجھے اپنی فیملی سے ملتی ہیں
۔میری ایک مولوی سے ملاقات ہوئی جس کے 12بچے تھے اوراس کی عمرتقریباً50کے
قریب تھی جوابھی تک بھی بچوں کی پیدائش کوجاری رکھے ہوئے تھا تومیں نے کہا
سراب بس کردیں تووہ مجھ سے خفاہوگیا کہ ہم نبی کریم ﷺ کی امت بڑھانے کیلئے
کوشش کررہے ہیں اورآپ لوگ امت کم کرنے کی بات کرتے ہیں اس کو تویہ بھی کہنا
تھا کہ عیسائی ہم سے زیادہ ہیں توہرمسلمان کو زیادہ سے زیادہ بچے پیداکرنے
چاہیے تاکہ امت محمدﷺ کی تعدادزیادہ ہو مگرمیں سوچ میں پڑگیا کہ یاراگرہم
بچے پیداکرتے جائیں اوران کی اچھی پرورش اوراچھاروزگارنہ دے سکیں توپھراپنے
نبی کوکیامنہ دکھائیں گے ۔دنیاکی آبادی 7.5ارب تک پہنچ گئی ہے جو1800میں
صرف1ارب تھی جس کو2ارب ہونے کیلئے 127سال لگے پھر33سال کے کم عرصہ میں 3ارب
ہوگئی جوکہ 2012میں 7ارب اور2025میں 9ارب کی سنوائی ہے جس کی وجہ سے
مہنگائی ،بے روزگاری،خوراک کی کمی اورگھربھی کم پڑتے جارہے ہیں پاکستان کی
آبادی 1951میں 3کروڑ40لاکھ تھی اس کے بعد1961میں 4کروڑ30تک ہوگئی ،1972میں
6کروڑ50لاکھ ،1981میں 8کروڑ40لاکھ ،1998میں 13کروڑ 20لاکھ ہوئی اس کے
بعد2018کی مردم شماری کے مطابق 22کروڑ تک آبادی پہنچ چکی ہے اس حساب سے
لگتا ہے یہ صدی ختم ہونے تک ہم 40کروڑ تک پہنچ جائیں گے جو یقینا ملک کیلئے
نقصان دہ ہے اورہمارے کم وسائل پربہت بڑابوجھ ہوگا۔2019میں 30آبادی کا
عالمی دن منایاجارہاہے اس دن کومنانے کی ابتدا1989میں ہوئی ۔ایک رپورٹ کے
مطابق پاکستان دنیاکا آبادی کے لحاظ سے 6بڑاملک ہے اوراپنے پڑوسی ممالک میں
سے سب سے زیادہ سالانہ آبادی بڑھنے کی شرح والاملک ہے چین کی آبادی بڑھنے
کی سالانہ شرح 0.5ہوچکی ہے،بھارت1.2فیصد،بنگلہ دیشن اورایران1.4فیصد جبکہ
پاکستان کی سالانہ شرح 2.1فیصدہے ۔اقوام متحدہ ،پالولیشن کونسل اور حکومت
پاکستان کے 2010کے پیش بینی کے مطابق2050میں پاکستان کی کل آبادی27کروڑ
ہوجائے گی اور2018کی پیش بینی کے مطابق32کروڑ کے لگ بھگ ہے ۔ہمارے ہاں
اوسطاًایک گھرمیں 4بچے پیداہوتے ہیں جنہیں 2پرلاکے ہم آبادی کوکنٹرول
کرسکتے ہیں ۔1950سے 2000کے درمیان 15سال تک کے بچوں کی تعدادمیں کمی آئی ہے
اس کی وجہ زیادہ آبادی کی وجہ سے اچھی اورزیادہ خوراک نہ ملنا ہے جس کی وجہ
سے 15سال سے 64سال کی عمرکے لوگوں میں اضافہ نظرآیا ہے اگرکام کاج کے قابل
آبادی بے روزگاررہی توسماجی ،معاشی اورسیاسی اعتبارسے اس کے انتہائی منفی
نتائج مرتب ہونگے ۔زیادہ آبادی کیلئے زیادہ خوراک،رہائش،تعلیمی
اداراے،روزگاراوروسائل کی ضرورت ہوگی اوراگروسائل کم رفتارمیں بڑھیں
توبھوک،غربت،جرائم، جہالت جیسے عناصرجنم لیتے ہیں عالمی ماہرین کا کہنا ہے
کہ جس طرح سے آبای بڑھ رہی ہے اسی رفتارسے وسائل مہیانہیں ہورہے ماہرین کے
مطابق چوری،ڈاکہ زنی،لوٹ مار،دھوکہ دہی،نجی اورسرکاری شعبہ میں جرائم
،سنگین بدعنوانیوں اورقتل وغارت کی ایک وجہ بڑھتی ہوئی زیادہ آبادی بھی ہے
۔زیادہ آبادی کی وجہ سے زراعت کا رقبہ کم پڑتاجارہاہے شہرگنجان ہوتے جارہے
ہیں پینے کے پانی کی فی کس مقدارکم ہورہی ہے اورنوجوانوں کیلئے بے روزگاری
بڑھتی جارہی ہے ماہرین کاکہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذہبی اورسماجی
جماعتوں کوبھی عوام میں یہ شعوراجاگرکرنا چاہیے کہ ’’بچے دو ہی اچھے‘‘۔ہمیں
اپنے ساتھ ملک کے باقی لوگوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے کیونکہ اس بڑھتی ہوئی
آبادی کی وجہ سے ملک کی نصف آبادی غربت کی زندگی گزاررہی ہے ۔آبادی
کوکنٹرول کرنے کیلئے عورتوں کو خاندانی منصوبہ بندی پرعمل کرنے کیلئے جان
کاری پہنچاناہوگی جس کیلئے بچے میں 3سے پانچ سال کا وقفہ ضروری ہے وقفے کی
خدمات تک رسائی فراہم کرکے خاندانی منصوبہ بندی کاپروگرام ایسی خواتین کو
دھارے میں لاسکتا ہے جوان طریقوں پرعمل توکرنا چاہتی ہیں مگرکسی وجہ سے عمل
نہیں کرپارہیں اگرخاندانی منصوبہ بندی پرعمل کیاجائے تو2050تک پاکستان کی
آبادی 26کروڑ تک محدودرہے گی بصورت دیگر30کروڑسے تجاوز کرنے کاخدشہ دکھائی
دیتا ہے اس کے ساتھ ہی بچوں کی غیرارادی پیدائش یعنی بچوں کی اموات کے خوف
سے زیادہ بچے پیداکرتے ہیں کہ بڑھاپے میں کوئی توہماراسہارابنے گااس
غیرارادی پیدائش پرکنٹرول کرکے بھی ہم آبادی کوکنٹرول کرسکتے ہیں ۔آخرمیں
اپنے قارائین کوبتاتاچلوں کہ پاکستان کا شمارآبادی کیلئے پالیسی مرتب کرنے
والے اولین ممالک میں ہاتا ہے مگرافسوس عملی طورپرکام بڑی دیرسے کیاگیا
کیونکہ 1951سے 1981تک پاکستان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوااورہم نے
1989میں اس پرعمل شروع کیاجنوبی ایشیاء ممالک کے دوسرے ممالک کی نسبت یہ
کمی ان سے 10سال بعد جبکہ آبادی کی پالیسی واضع کرنے کے 25سال بعدشروع ہوئی
اس کاصاف مطلب ہے پاکستان جنوبی ایشیاء کا آخری ملک ہے جس میں آبادی بڑھنے
میں کمی کارجحان شروع ہوا حکومت کیساتھ ساتھ عام عوام کوبھی جن کومعلوم ہے
وہ لوگوں کوبڑھتی ہوئی آبادی کے نقصانات کے متعلق آگاہ کریں تاکہ ہمارا ملک
مزیدمسائل سے بچ سکے۔
|