پاکستان میں 14اگست کا دن بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے
اوربڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ 14اگست کا دن ہر سال ہم سب پاکستانیوں
کے لئے حریت اور استقلال کا پیغام بن کر آتا ہے اور جہدو جہد ِ آزادی اور
قربانیوں کی یا د ذہنوں میں تازہ کر تا ہے آج ہماری آزاد ی کو 72سال ہو چکے
ہیں۔1857ء میں جب انگریزوں کے قدم ہند و ستان میں مضبوطی سے جم گئے تو
ہندوستان میں مسلمانوں پر مایوسی اور غلامی کی سیاہ رات نے ہر طرف اپنے پر
پھیلادیئے، مایوسی اور بددلی کے اس عالم میں مسلمانوں کو کسی راہ نما کی
ضرورت تھی۔ غلامی کا یہ احساس دلوں میں دبی چنگاریاں بن کر سلگتا رہااور
اپنے حقوق حاصل کرنے کا خیال مسلمانوں کے دلوں میں کروٹیں بدلتا رہا اور
آخر کار اس خیال نے ایک دن اجتماعی شکل اختیار کرلی۔ 1906ء میں مسلمانوں نے
آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے اپنی ایک جماعت قائم کرکے ہندوں کی تنظیم
کانگریس کے ساتھ مل کرانگریزوں سے آزادی کی جہدوجہد شروع کردی۔آہستہ آہستہ
آزادی کایہ مطالبہ شدت پکڑتا گیا اور ہندو مسلم دونوں قومیں متحد ہوکر پورے
جوش و خروش کے ساتھ آزادی کے نصب العین کی طرف بڑھنے لگیں ۔ انگریزوں نے
پوری قوت سے مسلمانوں اور ہندؤں کی اس متحدہ طاقت کو توڑنے کی کوشش کی،
پولیس اور فوج نے ان کے پر امن جلوسوں پر گولیاں چلائیں اور جیلوں میں بند
کردیا۔ لیکن آزادی کے متوالے بڑے صبر و تحمل اور عزم و استقامت کے ساتھ سب
صعوبتیں برداشت کر تے رہے بالآخر انگریزوں کو اتحاد کی اس قوت کے آگے سر
جھکانا پڑا اور ہندوستانیوں کو بہت سی مراعات حاصل ہوگئیں۔جوں جوں یہ
مراعات ملتی رہیں ہندؤں نے پر نکالنے شروع کردیئے، مسلمان ہندؤں کے روئیے
سے برابر یہ اندازہ لگاتے رہے کہ انھیں اپنے مذہب، زبان اور تہذیب کو زندہ
رکھنے کے لئے انگریزوں کے ساتھ ساتھ ہندؤں سے بھی علیحدگی اختیار کرنا پڑے
گی۔چنانچہ 1930ء میں ایک اجتماع میں علامہ اقبال ؒ نے اسی طرح کی ایک تجویز
پیش کی اور اسی تصور کی بنیا د پر مسلم لیگ نے پاکستان کو اپنا نصب العین
بنالیا۔ مسلم لیگ کے اس فیصلے کے بعد انگریز اور ہندو اس کوشش میں مصروف
ہوگئے کہ مسلمانوں کا یہ تصور ِ آزادی صرف ایک خواب بن کر رہ جائے۔لیکن
قائدِاعظم محمد علی جناح ؒکی قیادت میں مسلمان تہیہ کرچکے تھے کہ وہ
پاکستان لے کر رہیں گے۔آخر کا ر مسلمانوں کے عزم محکم اور قائد اعظم کے
سیاسی تدبر کے سامنے انگر یز وں کو ان کی بات ماننا پڑی اور 14اگست 1947ء
کو ہندوستان تقسیم ہوگیا اور پاکستان کے نام سے مسلمانوں کی ایک نئی مملکت
وجود میں آگئی۔
14اگست1947ء کا دن ہند و پاک کی تاریخ میں بڑا اہم دن ہے۔ ہندوستان کے وہ
علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی ایک آزاد مملکت تسلیم کرلیاگیا اور
غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر مسلمان اس قابل ہوگئے کہ اس آزاد سر زمین میں
اپنے دینی شعار اور تہذیب کے مطابق زندگی گزارسکیں۔ مسلمانوں کو یہ دن
سالہا سال کی بھرپور جہدوجہد، کشمکش اور قربانیوں کے بعد حاصل ہوا تھا۔ ہر
طر ف خوشیوں کے شادیانے بجنے لگے، ہر گلی کوچے میں چراغاں کا سماں تھا
اِدھر آزاد پاکستان میں خوشیاں منائی جارہی تھیں اُدھر ہندوستان میں رہ
جانے والے مسلمانوں کو ایک منظم سازش کے تحت صفحہ ہستی سے مٹایا جارہا تھا۔
مسلمانوں کے گھروں کو نذر آتش کرکے ان پر ایسے ایسے مظالم توڑے جارہے تھے
کہ انسانی تاریخ میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ ہندوستان میں ہر طرف قتل و غارت
کا میدان گرم تھا۔ بے شمار معصوم بچے، عورتیں، جوان اور بوڑھے افرادظالم
اور متعصب ہندؤں اور سکھوں کی بربریت کا نشانہ بن گئے۔اور بالآخر ہندوستان
میں رہ جانے والی مسلمانوں کی عظیم اکثریت بھی اپنے گھر بار چھوڑ کر
پاکستان ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئی۔الحمد اﷲ اب پاکستان اﷲ کے فضل و کرم سے
قائم ہوچکا ہے اور انشااﷲ قائم و دائم رہے گا ۔ 14 اگست کا دن یوم مسرت بھی
ہے اور یوم تجدید عہدبھی، اگر ہمیں اپنی آزادی عزیز ہے تو اس کی تعمیر و
ترقی اور تحفظ کے لئے ہمیں اپنی تمام تر قوتوں کوایک قوم بن کر صرف اور صرف
پاکستان کے لئے وقف کرنا ہو گا 14 اگست کو جب ہم جشنِ آزادی مناتے ہیں تو
اس مبارک موقع پر ہم سب کو یہ سوچنا چاہیئے کہ ُاس نے اب تک پاکستان کے
استحکام کے لئے کتنا کام کیا؟پاکستان بنانے میں بزرگوں، نو جو ا نو ں،
بچوں، یعنی مسلمانوں نے بہت قربانیاں دی ہیں ۔ 14 اگست 1947ء کا سورج
برصغیر کے مسلمانوں کے لیے آزادی کا پیامبر بن کر طلوع ہوا تھا۔ مسلمانوں
کو نہ صرف یہ کہ انگریزوں بلکہ ہندؤوں کی متوقع غلامی سے بھی ہمیشہ کے لیے
نجات ملی تھی۔ آزادی کا یہ حصول کوئی آسان کام نہیں تھا جیسا کہ شاید آ ج
سمجھا جانے لگا ہے۔ نواب سراج الدولہ سے لے کر سلطان ٹیپو شہید اور آخری
مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر تک کی داستاں ہماری تاریخ حریت و آزادی کی لازوال
داستان ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے المناک واقعات بھی اسی سلسلے کی کڑیاں
ہیں۔ سات سمندر پار سے تجارت کی غرض سے آنے والی انگریز قوم کی مسلسل
سازشوں، ریشہ دوانیوں اور مقامی لوگوں کی غداریوں کے نتیجے میں برصغیر میں
مسلمانوں کی حکومتیں یکے بعد دیگرے ختم ہوتی چلی گئیں۔ اگرچہ مسلمان
حکمرانوں اور مختلف قبائل کے سرداروں نے سر دھڑ کی بازی لگا کر اور جان و
مال کی عظیم قربانیاں دے کر انگریزوں کو یہاں تسلط جمانے سے روکنے کے لیے
ہر ممکن کوششیں کیں تھیں۔قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے کیا خوبصورت بات کی
تھی۔ پاکستان اسی دن یہاں قائم ہو گیا تھا، جس دن برصغیر میں پہلا شخص
مسلمان ہوا تھا، حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے کبھی بھی انگریز کی
حکمرانی کو دل سے تسلیم نہیں کیا تھا۔ انگریزوں اور ان کے نظام سے نفرت اور
بغاوت کے واقعات وقفے وقفے کے ساتھ بار بار سامنے آتے رہے تھے۔ برطانوی
اقتدار کے خاتمے کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے جو عظیم قربانیاں دی ہیں اور
جو بے مثال جدوجہد کی ہے۔ یہ ان کے اسلام اور دو قومی نظریے پر غیر متزلزل
ایمان و یقین کا واضح ثبوت ہے۔ انہی قربانیوں اور مسلسل جدوجہد کے نتیجے
میں بالآخر پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔
جب ہم تحریک پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو اس تاریخی جدوجہد میں یہ
بات سب سے زیادہ نمایاں طور پر ہمیں نظر آتی ہے کہ مسلمان اپنے جداگانہ
اسلامی تشخص پر مصر تھے۔ یہی نظریہ پاکستان اور علیحدہ وطن کے قیام کی دلیل
تھی۔ ہر قسم کے جابرانہ و غلامانہ نظام سے بغاوت کرکے خالص اسلامی خطوط پر
مبنی نظام حیات کی تشکیل ان کا مدعا اور مقصود تھا۔ جس کا اظہار و اعلان
قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے بار بار اپنی تقاریر اور خطابات میں کیا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تحریک پاکستان کے دوران برصغیر کے کونے
کونے سے لے کے رہیں گے پاکستان بن کے رہے گا اور پاکستان کا مطلب کیا؟، لا
الہ الا اﷲ یہ نعرے برصغیر کے مسلمانوں کے دلی جذبات کے حقیقی ترجمان
تھے۔انسان اپنے وطن سے جانا پہچانا جاتا ہے، بے وطن نہ کوئی شناخت رکھتا ہے
اور نہ ہی کہیں کوئی اس کا بار ضمانت اٹھاتا ہے۔ اﷲ رب العزت کا ہم پر
احسان ہے کہ ہمیں اپنا گھر، اپنا آزاد اور خود مختار وطن اسلامی جمہوریہ
پاکستاان میسر ہے۔ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہم اس کی عنبر بار فضاؤں میں
سانس لیتے ہیں۔ہم اس کے فلک بوس پہاڑوں کی رفعتوں سے حظ اٹھاتے ہیں۔ ہم اس
کے گھنے جنگلوں کے نظارے کرتے ہیں۔ ہم اس کے وسیع و عریض صحراؤں کے کھلے
بازوؤں میں جھولتے ہیں کہ اگر دن کو اس کے آفتاب درخشاں کی کرنوں سے فکرو
نظر کو منور کرتے ہیں، تو شب تاریک کے سناٹوں میں چاند ستاروں کی شیریں
ضیاء باریوں سے کیف و حسرت کا سامان کرتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ غلام ہوتے تو
کسی کے سامنے آنکھ اٹھانا تو درکنار سانس لینا بھی دشوار ہوتا، جیسا کہ
متحدہ ہندوستان میں ہمیں اچھوت سمجھا جاتا تھا،ذرا ایک لمحے کے لئے سوچئے
کہ اگر ہم پاکستان جیسی نعمت عظمیٰ سے فیض یاب نہ ہوتے اور انگریزوں کے
کھچاؤ اور ہندوؤں کے دباؤ میں ہوتے تو ہم پر کیا بیت رہی ہوتی؟ یہ اکابرین
ملت اور قوم کے عمائدین و زعماء کا احسان عظیم ہے کہ ہمیں اپنی شناخت ملی
اور پاکستان ہماری مستقل پہچان بن گیا۔ اگر یہ لوگ ہمیں قومی تشخص نہ دیتے
تو شاید ہم آہستہ آہستہ ملیا میٹ ہو جاتے، جیسا کہ حریفان اسلام کے ناپاک
عزائم سے ظاہر تھا۔ ہمارا ایک الگ وطن کا مطالبہ محض اپنی الگ شناخت اور
اپنے ثقافتی ورثے،یعنی اپنی روایات کے تحفظ کا ذریعہ تھا، اگر ایسا نہ
ہوتا، تو آج ہمارا ہر باشندہ پاکستانی کہلانے میں فخر و مسرت محسوس نہ
کرتا۔خدا کا خاص کرم ہے کہ ہم سب پاکستانی ہیں، نہ کہ سندھی، بلوچی، سرحدی
اور پنجابی ہونے پر نازاں ہیں۔ ہماری زبان ایک ہے،ہمارا لباس ایک ہے، ہمارا
آئین ایک ہے، حتیٰ کہ قرآن ایک ہے۔ہم متحد ہیں۔ہم سب ایک ہی عمارت کی
اینٹیں ہیں۔ ہم ایک ہی سمندر کی لہریں اور ایک ہی گلستان کے پھول ہیں،
کیونکہ ہمارا خدا اور رسول ؐ ایک ہیں۔ہم کسی بیرونی مُلک میں قیام پذیر
ہوں، تو ہمیں پاکستانی جانا جاتا ہے۔ سندھی یا بلوچی، سرحدی یا پنجابی
نہیں۔ ہمارے کارہائے نمایاں کسی پشتو یا پنجابی بولنے والے کی میراث نہیں
ہیں، بلکہ اردو بولنے والے پاکستانیوں کی شناخت ہیں، ہماری خدمات جلیلہ
پاکستان کی وجہ سے نمایاں ہیں۔ ہمارا نام، انعام اور مقام صرف پاکستان ہے۔
ہمیں پاک سرزمین کی محبت میں رقصاں ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنے دیس، اپنی ماں کو
ادب و پیار دینا چاہئے کہ وطن کے درو دیوار کی چادر عصمت کی طرح مقدس ہیں۔
اس کا نظریہ ماں باپ کے عقیدے اور ایمان کی صورت جگمگاتا ہے۔
پاکستان کو پیارا پاکستان اور دنیائے اسلام کا سہارا بنائیں گے، کیونکہ یہ
ہماری شناخت ہے، ہماری پہچان ہے، ہمارا ایمان بلکہ ہماری جان ہے۔پاکستان
دنیا میں ہماری آخری پناہ گاہ ہے اور اسلام کا ایک مضبوط قلعہ ہے اس کے
تحفظ، ترقی اور بقاء کے لئے جہدوجہد ہر پاکستانی کا قومی و دینی فرض ہے۔ اﷲ
تعالیٰ ہمیں اپنی ذمّہ داریاں پوری کرنے کی توفیق عطا فرمائیے۔ آمین
|