محمد اظہر محمود
پاکستان کے ایک قومی روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے ایک تجزئے کے مطابق
ملک کے لگ بھگ دو لاکھ بیس ہزار سکولوں میں سے میں ایسے کراماتی سکولوں کی
تعداد تیس ہزار کے لگ بھگ ہے جنہوں نے سلیمانی ٹوپی اوڑھ رکھی ہے۔ بیس ہزار
درختوں کے نیچے قائم ہیں۔چالیس فیصد سکولز میں پانی نہیں اور ساٹھ فیصد میں
بجلی نہیں۔
گویا غریب کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ دامن جھاڑ کر نکل لے۔
تعلیم کبھی بنیادی حقوق میں شامل تھی آج کل لگژری میں شامل ہے۔ جہاں تک مڈل
کا تعلق ہے تو انہیں ڈگری کی اس لیے ضرورت نہیں کہ وہ جہاں خرگوش کی طرح
زقندیں بھر کر پہنچنا چاہتی ہے۔وہاں پہلے ہی کوئی نہ کوئی کچھوا پہنچا ہوا
ہے۔ اور جس کچھوے کی اتنی پہنچ ہو کہ اس کے پاس ڈگری ہو نہ ہو، جعلی ہو کہ
اصلی کیا فرق پڑتا ہے ؟
یہی سبب ہے کہ جو کریم آف دی کریم مقابلے کے سرکاری امتحان میں بیٹھتی ہے
اس میں سے لگ بھگ ساٹھ فیصد امیدوار نہیں جانتے کہ پاکستان کی سرحدیں کتنے
ممالک سے ملتی ہیں۔اور اس میں سے جو کریم نکل کر بیوروکریسی کا حصہ بنتی ہے
تو اسے کوئی بھی جمشید حمید دستی جب چاہے ذلیل و رسوا کرنے کا حق محفوظ
رکھتا ہے۔انیس سو سینتالیس سے آج تک یہ ملک چودہ سے زائد تعلیمی پالیساں
دیکھ چکا ہے۔تب ہی تو جنوبی ایشیا کا سب سے ناخواندہ ملک ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی بات کرلیں۔ جہاں سب سے زیادہ بجٹ تعلیم کے
شعبہ پر خرچ ہونے کے باوجود تعلیم کا شعبہ سب سے زیادہ زبوں حالی کا شکار
ہے۔ آزاد کشمیر میں 70فیصد سے زائد سرکاری پرائمری سکولز میں میرٹ کیخلاف
بھرتی ہونے والے اساتذہ گھر بیٹھ کر تنخواہیں وصول کر تے ہیں ۔ آزاد کشمیر
میں امن بذریعہ تعلیم وابلاغ کیلئے کوشاں غیر سرکاری تنظیم پیس گروپ آف
جرنلٹس کی جانب سے عالمی یوم خواندگی کے موقع پر یونیسیف کو جاری کردہ
رپورٹ کے مطابق آزاد کشمیر حکومت آج تک کسی بھی قسم کی کوئی تعلیمی پالیسی
نہیں بنا سکی پاکستان کے چاروں صوبوں کے برعکس آزاد کشمیر میں کوئی ٹیکسٹ
بک بورڈ نہیں بلکہ ٹیچرز فاﺅنڈیشن کے نام پر محکمہ تحقیق وترقی ونصاب کی
ملی بھگت سے متعلق نصاب میں کوئی تحقیق وترقی نہ ہو سکی البتہ محکمہ تعلیم
اس پر خوب کمیشن کما کر تعلیم کے نام پر کاروبار کیا جا رہا ہے ۔
آمر مطلق جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں، سابق فوجیوں، بیوروکریٹوں اور این
جی اوز کے مالی و نظریاتی شکاریوں کو نوازنے کے لیے، کالجوں اور ہسپتالوں
میں بورڈ آف گورنرز مسلط کرنے، اور اس پردے میں درحقیقت ان تعلیمی اداروں
کو پرائیویٹائز کرنے کے احمقانہ منصوبے پر کام شروع کیا گیا۔
اب، جب کہ جمہوری حکومت، باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے، معلوم نہیں اس میں شامل
وہی پارٹیاں، جو بجا طور پر ماضی میں اس گھناؤنے کھیل کی مخالف تھیں، انھوں
نے کس طرح خود کالجوں میں بورڈ آف گورنرز قائم کر کے، اور پھر اس راستے پر
چلتے ہوئے مزید اداروں کا تیاپانچا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پھر یہ کہ انھیں
ایک ایسی انتظامیہ کے رحم و کرم پر چھوڑنے اور اس علاقے کے ہزاروں طالب
علموں کے تعلیمی مستقبل کو تاریک کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ کیا واقعی کوئی
جمہوری حکومت ایسے تعلیم دشمن اقدام کا فیصلہ کرسکتی ہے؟
ان کالجوں میں بورڈ آف گورنرز قائم کر کے، چار سالہ بی ایس ڈگری کورس کے
اجرا کا خوش نما خواب دکھایا گیا ہے۔ یہاں پر حکومت کے مشیروں کو اس امر کی
وضاحت کرنی چاہیے کہ جن چند تعلیمی اداروں کو گزشتہ برس کے اندر اس نوعیت
کے تجربے کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے، وہ ادارے اپنا شاندار ماضی رکھنے، اساتذہ
کی بڑی تعداد اور وسائل کا اچھا خاصا اثاثہ رکھنے اور بے تحاشا قومی وسائل
ہڑپ کرنے کے باوجود، تعلیمی زبوں حالی کا شکار کیوں ہیں۔ ایم فل اور پی ایچ
ڈی میں داخلوں کے لئے بین الاقوامی معیار کی لازمی شرط طلبہ اعلیٰ تعلیم کے
حصول کو ناممکن بنا رہی ہے۔اگر کوئی فرہاد اس کوہ گراں کو تراشنے کی جدوجہد
بھی کرتا ہے تو یونیورسٹیوں کے کرتا دھرتا اپنی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ
انہیں تعلیم جیسی نعمت سے بہرہ مند ہونے نہ دیا جائے۔ بہت سی جگہوں پر اب
تک کورس کی آٹ لائن نہیں بن سکی، کہیں سہولیات کا فقدان سوالیہ نشان ہے۔
اور کہیں دھاندلی اور انتقام کی آگ بھڑک رہی ہے۔ ذاتی انا کی تسکین کی خاطر
سکالرز کے مستقبل کو تاریک کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنا معمول کی بات ہے۔
لاہور کے ممتاز تعلیمی ادارے جی سی یونیورسٹی ، جہاں کے رجسٹرار آمر مطلق
کی طرح اساتذة اور طالب علموں کی جس طرح تذلیل کرتے ہیں، وہ کسی سے ڈھکی
چھپی بات نہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اساتذہ اور طلباء کو اپنے حقوق کے لئے انصاف
کے دروازے کھٹکھٹانا پڑتے ہیں۔ جس کی ایک تازہ مثال جی سی یونیورسٹی لاہور
کے استاد ڈاکٹر سکندر علی ہیں، جنہیں آسٹریلیا کی ایک یونیورسٹی کی طرف سے
پوسٹ ڈاکٹریٹ سکالر شپ کے لئے منتخب کیا گیا۔ لیکن جی سی یونیورسٹی کے
بادشاہ سلامت نے انہیں حصول تعلیم کی اجازت دینے سے صاف انکار کر دیا، وجہ
محض ذاتی اناء اور عناد۔ مجبوراً ڈاکٹر سکندر علی کو لاہور ہائی کورٹ میں
رجوع کرنا پڑا۔ خوشی کی بات یہ کہ عدالت عالیہ نے انہیں 13مارچ کو اجازت دے
دی کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک جا سکتے ہیں۔ لیکن دکھ کی بات یہ کہ
یونیورسٹی انتظامیہ ابھی تک انہی حربوں سے کام لے رہی ہے۔ کیا کہیں گے اس
بارے میں ”خادم اعلیٰ پنجاب“ اور یونیورسٹی کے چانسلر، وہ آگ جو گزشتہ دورِ
آمریت میں نظامِ تعلیم کے خرمن میں آگ لگائی گئی تھی اسے بجھانے کی بجائے
اس کے تسلسل کو برقرار رکھنا ہی نہیں تھا بلکہ اس سے آگے والے مراحل کی
تکمیل میاں صاحبان کے مبارک ہاتھوں سے وقوع پزیر ہونا تھی۔ پھر کیا ہوا
معلوم نہیں؟ کون سے معاہدے کس قیمت پر ہوئے، ہمیں کچھ پتہ نہیں۔ ہاں جن
پالیسیوں پر عمل ہو رہا ہے ان سے ان معاہدوں کی حقیقت اور ان کی قیمت کا
اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔ جس طرح پرویز مشرف اور شوکت عزیز خزانہ بھرنے
کی بشارتیں قوم کو سنایا کرتے تھے ان سے کہیں آگے بڑھ کر خادمِ اعلیٰ پنجاب
یہ خوشخبریاں قوم کو سنانے کی پوزیشن میں ہیں۔
آج دو الفاظ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ میاں شہباز شریف صاحب کے لیے بڑے عجیب سے
لگنے لگے ہیں۔ ایک "خادمِ اعلیٰ" اور دوسرا " مسلم لیگ" ان دونوں الفاظ کا
وقار اور تشخص انتہائی سرعت کے ساتھ میاں صاحب کے دامن سے دور ہوتا جا رہا
ہے۔ |