مثالی نوجوان کی نشانیاں

الحمدللہ رب العالمین و الصلاۃ و السلام علی رسو لہ الکریم ۔امابعد !

مذہب اسلام ایک مکمل نظام حیا ت اور ہمہ گیر مذہب ہے ،اسکی آفاقی تعلیمات ہم انسانوں کے لئے ایک اچھی، مثالی اور بہترین زندگی گذارنے کے لئے ہر شعبے میں ممدو معاون اور کارآمد ثابت ہو تی ہیں ۔ اسکی تعلیمات ہی کا نتیجہ اور ثمرہ ہے کہ آج ہم دنیا میں تو حید پر قائم و دائم ہیں ،اور اپنے معاشرے و سماج میں امر بالمعروف و النھی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اللہ تعالی نے ہمار ے لئے ایسے قوانین و ضوابط اور اصول بنائے ہیں جن پر عمل کر کے ہم دنیا وآخرت میں سرخر و ی اور کا میانی و کا مرانی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں ، یقینا اسلام ( قرآن و حدیث ) کی صاف شفاف تعلیمات ہم انسانوں کے لئے اسو ہ ہیں ، اور خاص طور سے نبی محترم حضرت محمد بن عبد اللہ ﷺ ہمارے لئے قابل تقلید اور آپ ﷺ کی پوری زندگی ہمارے لئے اسوہ ، ایڈیل اور نمونہ ہے ۔

آپ کی بعثت ہمارے لئے باعث اجرو ثواب اور رحمت ہے ، آپ ایسے معاشرے اور قبیلے و خاندان مین آنکھیں کھو لیںجو معاشرہ شرک کی غلاظتوں اور دنیاؤی بے حیاؤں و بر ایئوں اور فحاشو ں میں لت پت تھا ، چنانچہ نبی محترم ﷺ نے ایسے پر خطر وپر آشو ب سماج میں توحید کی آو از کوبلند کیا اور لو گو ں کو ایک اللہ واحد کی طر ف بلایا اور خود ساختہ دیو ی دیو تاؤںاور باطل خداؤں سے کنارہ کشی اختیا ر کرنے کی تلقین کی ۔جسکی وجہ سے آپ ﷺ اور آپ کے سچے و جانثار ساتھیو ں کو ( صحابہ کر ام رضوان اللہ علیھم اجمعین) کو طرح طرح کی تکالیف و پر یشانیو ں کا سامنا کر نا پڑا، لیکن پھربھی آپ ﷺاور آپ کے جا نثار ساتھی قر آن و حدیث کی تعلیما ت پر گامزن رہے ، اور کفار و مشر کین کے مظالم و اذیتوں کو با دل نخواستہ بر داشت کرتے رہے ، لیکن کبھی بھی ان کے سامنے جھک کر اپنے ایمان کا سودانہ کیا ، بلکہ چو ری چھپے اپنے قیمتی اور فرصت کے اوقات کو اللہ رب العا لمین کی عبا دت وبندگی میں صر ف کرتے تھے ۔

ذیل میںچند اچھے ،نیک و دیندار اور مثالی نو جوان کے او صاف حمیدہ کو قرآن و حدیث کی رو شنی میں بیان کیا جارہا ہے جن سے ہمیں عبر ت و نصیحت حاصل کرنی چاہئے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔

(۱):۔ مثالی اور اچھانو جوان وہ ہے جو ہر حالت میں اپنے ایمان کو محفو ظ رکھے اور کبھی بھی اپنے ایمان کا سو دانہ کر ے :۔ جیساکہ صحابہ کر ام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اپنے ایمان کو بچانے اور محفو ظ رکھنے کے خاطرہرطرح کے مصائب و آلام کو بر داشت کیا ، پھر بھی اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے ، اور اسی طرح اصحا ب کہف ( غار والے )بھی اپنے ایمان کو بچانے کی خاطر اپنے اہل و عیال ، اعزہ و اقرباء اور دوست و احباب اور گھر بار چھو ڑکر ایک غار میں پناہ گزیں ہو ئے ۔ اللہ رب العالمین ان نو جو انو ں کا تذکر ہ اپنے مقدس کتاب قر آن مجیدمیں اس طرح کر تا ہے ﴿نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُمْ بِالْحَقِّ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى ، وَرَبَطْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَنْ نَدْعُوَ مِنْ دُونِهِ إِلَهًا لَقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا، هَؤُلَاءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً لَوْلَا يَأْتُونَ عَلَيْهِمْ بِسُلْطَانٍ بَيِّنٍ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللَّهِ كَذِبًا﴾ ( سورۃ الکہف : ۱۳،۱۴،۱۵) ترجمہ :۔ ہم ان ( اصحاب کہف ) کاصحیح واقعہ تیر ے سامنے بیان فرمارہے ہیں ، یہ چند نو جو ان اپنے رب پر ایمان لائے تھے اورہم نے ان کی ہدایت میں ترقی دی تھی ۔ہم نے ان کے دل مضبو ط کر دئیے تھے جبکہ یہ آٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ ہما ر اپر ور دگاتو وہی ہے جو آسمان و زمین کا پر ور دگارہے۔ناممکن ہے کہ ہم اسکے سوا کسی اور معبو د کو پکاریں اگر ایسا کیا تو ہم نے نہایت ہی غلط بات کہی ، یہ ہے ہماری قوم جس نے اسکے سوا اور معبو د بنا رکھے ہیں ، ان کی خدائی کی یہ کو ئی صاف دلیل کیو ں پیش نہیں کر تے ، اللہ پر جھو ٹ افتراء باندھنے والوں سے زیادہ ظالم کو ن ہے؟

﴿ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ﴾کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ یہ عیسایت کے پیرو کار تھے اور بعض کا کہنا ہے کہ کہ ان کا زمانہ عیسی ؑسے پہلے کا ہے ، چنا نچہ اس وقت کا بادشاہ دقیانوس تھا جو لو گوں کو بتوں کی عبادت کرنے اور ان کے نام کی نذر و نیاز دینے کی ترغیب دیتاتھا ، لیکن اللہ تعالی نے ان چند نو جوانوں ( جن کی تعداد ۹یا اس بھی کم تھی ) کے دلو ں میں یہ بات ڈال دی کہ عبادت کے لائق تو صرف ایک اللہ ہی ہے جو آسمان و زمین کا خالق اور کائنات کا رب ہے ، چنانچہ یہ لو گ اسی ایک جگہ اللہ واحد کی عبادت کر تے ،آہستہ آہستہ لو گو ں میں ان کے عقیدئہ تو حید کا چرچا ہوا ، جب بادشاہ تک بات پہنچ گئی اوراس نے انہیں اپنے دربار میں طلب کر کے ان سے پو چھا تو انہو ں نے بر ملا اللہ کی تو حید بیان کی ، بالآخر ہ لو گ بادشاہ اور اپنی مشرک قو م کے ڈر سے اپنے دین کو بچانے کے لئے آبادی سے دور ایک پہاڑ کے غار میں پناہ گزیں ہو گئے ، جہا ں اللہ تعالی ٰ نے ان پر نید مسلح کر دی اور وہ تین سو نو (۳۰۹) سا ل تک وہاں (غار میں ) سوئے رہے ۔ ( دیکھئے : تفسیر احسن البیان اردو ، سو رۃ الکہف :آیت۱۳۔ از صلاح الد ین یو سف ، ص : ۸۰۱)اس سو رہ اور آیت سے خصو صا نو جو انو ں اور عمو ما تمام لو گو ں کو یہ سبق ملتی ہے ، کہ ہمیں اللہ رب العالمین کے ذکر و اذکا ر میں ہمیشہ مصروف و مشغو ل رہناچاہئے اورخواہ کتنی ہی پر یشانیو ں کا سا منا کر نا پڑے ہمیں اپنے ایمان اور دین کا سو دا نہیں کر نا چاہئے ۔ کا ش !آج کے نو جو ان اپنی جو انیو ں کو اللہ کی عبادت میں صر ف کر یں ۔

(۲):۔ اچھا و مثالی نو جو ان وہ ہے جو اپنی جو انی کو اللہ کی عبادت و بندگی میں صر ف کرے ، اور نبی کر یم ﷺ کے ار اشاد گرامی کے مطابق اس اجر عظیم کا مستحق بنے ، جسکا ذکر اللہ کے رسول ﷺ نے اس حدیث میں کیا ہے ’’ عن ابی ھر یر ۃ رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ قال : سبعۃ یظلھم اللہ فی ظلہ لا ظل الا ظلہ : امام عا د ل ، شاب نشأفی عبادۃ اللہ ،و رجل قلبہ معلق فی المساجد و رجلان تحابافی اللہ ، اجتمعا علیہ و تفرقا علیہ ، و رجل دعتہ امراۃ ذات منصب و جمال فقال : انی اخاف اللہ ، و رجل تصدق بصدقۃ ، فاخفاھا حتی لا تعلم شمالہ ما تنفق یمینہ ، ورجل ذکر اللہ خالیا ففاضت عینان ‘‘ ( صحیح بخاری : کتاب الاذان ، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلاۃ ۔ صحیح مسلم : کتاب الزکو ٰ ۃ ، باب فضل اخفاء الصدقہ : برقم ۔۱۰۳۱) تر جمہ :۔ حضرت ابو ھریر ۃ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کر یم ﷺ نے فر مایا کہ : سات آدمی ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالی ٰ قیامت والے دن اپنے ( عرش یا حفا ظت ) کے سائے تلے جگہ دے گا ، اس دن اس سائے کے علاوہ کو ئی سایہ نہیں ہو گا (۱) انصاف کر نے والا حکمران (۲) وہ نو جو ان جسکی نشوونمااللہ تعالی ٰ کی عبادت میں ہو ئی ہو (۳)وہ آدمی جس کا دل مسجد کے ساتھ اٹکا ہو (۴) وہ دو آدمی جو ایک دوسرے سے صرف اللہ کے لئے محبت کر تے ہیں اسی پر وہ باہم جمع ہو تے او راسی پر ایک دوسرے سے جداہو تے ہیں (۵)وہ آدمی جسے کو ئی حسین و جمیل عو رت دعو ت گنا ہ دے لیکن وہ اسکے جواب میں کہے کہ میں تو اللہ تعالی سے ڈرتا ہو ں (۶)و ہ آدمی جس نے کو ئی صدقہ کیا اور اسے چھپا یا حتی کہ اسکے باتیں ہاتھ کو علم نہیں کہ اسکے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے (۷) وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور (اسی کے خوف )سے اسکی آنکھیں بہہ پڑیں ۔

مذکو رہ حدیث میں محل استشھا د ’’ و شاب نشاء فی عبادۃ اللہ ‘‘ہے ۔یعنی ایسا نو جو ان جسکی جوانی اپنے مالک حقیقی کی عبادت و ریا ضت اور بندگی میں گذر ی ہو ، تو ایسے نو جو انوں کا اللہ کے یہا ں بر وز قیامت ایک خاص اور مکر م مقام و مرتبہ ہو گا ۔ کاش آج کے نو جو ان اللہ تعالی ٰ کی عبادت و بندگی کرکے وہ معزز و مکر م اور بلند و بالا مقام پا نے کی کو شش کر یں ۔

(۳):۔ دیندار اور مثالی نو جوان وہ ہے جو مو قع دیکھ کر چو کہ نہ مارتا ہو ( یعنی مو قع پا کر بے حیائی و بر ائی اور فحاشی کی طرف مائل نہ ہو جائے ) بلکہ اپنے نفس پر کنٹر ول رکھتا ہو اور فحاشی و بر ائی سے دور رہتاہو اور ہمیشہ اللہ رب العالمین سے ڈرتا اور خو ف کھا تا ہو ، جیساکہ حضرت یو سف ؑنے عزیز مصر کی بیو ی کے دعو ت گناہ پر کہا کہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتاہو ں ، اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سو رۃ یو سف کے اندر اس طر ح کیا کہ ﴿وَرَاوَدَتْهُ الَّتِي هُوَ فِي بَيْتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ﴾(سو رہ یو سف :۱۲۔ آیت۲۳)۔ تر جمہ :۔ اس عو رت ( عزیز مصر کی بیو ی ) نے جس کے گھر میں یو سف ؑ تھے ،یو سف ؑ کو بہلا نا پھسلانا شر وع کیا ، کہ وہ اپنے نفس کی نگرا نی چھو ڑ دے ، اور دروازہ بند کر کے کہنے لگی آجا ؤ، یو سف ؑ نے کہا کہ اللہ کی پنا ہ ! وہ میر ا رب ہے ، بے انصافی کر نے والو ں کا بھلا نہیں ہو تا ۔

اس طرح تنہا ئی اور بند کمرے میں حضرت یو سف ؑ نے مو قع پا تے ہو ئے بھی حرام کا ری اور گناہ عظیم (زنا ) سے باز رہے اور اللہ رب العالمین سے پنا ہ ما نگی ۔ کاش ! آج کے اس پر فتن دور میں حضرت یو سف ؑ کی طر ح ڈر و خوف ہمارے( نو جو انوں کے ) دلو ں میں پیدا ہو جائے ۔ تو یقینا ہمارے معاشرے و سماج سے بر ائیو ں بے حیائیوں ، زنا کا ریو ں اور فحاشیو ں کا خاتمہ ہو جائے گا ، اے اللہ ہمارے دلو ں میں اپنا ڈر و خوف پیدا کر دے ۔

(۴):۔ اچھا نو جوان وہ ہے جو اپنے وقت اور عمر کا صحیح استعما ل کرے اور اپنے قیمتی اوقات کو یو ں ہی لھوو لعب ، کھیل تماشے میں ضائع و بر باد نہ کر ے ، بلکہ انہیں غنیمت جا نتے ہو ئے اللہ رب العالمین کے ذکر و اذکا ر ، دعو ت و تبلیغ اور دینی و رفاہی کا مو ں میں صر ف کر ے ، جیسا کہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مر وی ہے کہ نبی کر یم ﷺ نے ارشا د فر مایا کہ ’’ اغتنم خمسا قبل خمس ، شبابک قبل ھرمک ، صحتک قبل سقمک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘(مستدرک حاکم :۷۸۴۶) تر جمہ : ۔ حضر ت ابن عبا س ؓبیان فر ماتے ہیں کہ نبی کر یم ﷺ نے ہمیں و عظ و نصیحت فرمائی اور یہ تعلیم دی کہ پا نچ چیزو ںکو پا نچ چیزو ں سے پہلے غنیمت جانو (۱) نو جوانی کو بڑھاپے سے پہلے (۲) تندرستی کو بیماری سے پہلے (۳) مالداری کو فقیر ی سے پہلے (۴) زندگی کو مو ت سے پہلے ۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے مر وی ہے ۔’’ عن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما قال : اخذ رسو ل اللہ ﷺ بمنکبیی فقال کن فی الدنیا کانک غریب او عابر سبیل ، وکا ن ابن عمر یقو ل اذاامسیت فلا تنتظر الصبا ح و اذااصبحت فلا تنظر المساء و خذمن صحتک لمر ضک ومن حیاتک لمو تک ۔(بخاری :کتاب الرقاق ، باب قو ل النبی ﷺ کن فی الدنیا کانک غریب او عابر سبیل ۔ ح: ۶۴۱۶) ۔ترجمہ :۔ حضرت عبد اللہ بن عمر سے مر وی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میر ے کندھے پر ہاتھ رکھا ااور ارشاد فرمایا کہ دنیا میں ایک اجنبی اور مسافر کی طرح رہو۔ اسکے بعدحضرت ابن عمر ؓ کہا کر تے تھے کہ جب شام ہو جائے تو ۔سبح کا انتظا ر مت کر و اور جب صبح ہو جائے تو شام کا انتظا ر مت کر و اور تندرستی کی حالت میں اتنا عمل کر لو جو بیماری کی حالت میں کافی ہو جائے اور اپنی زندگی میں اس قدر نیکیاں کمالو جو موت کے بعد بھی تمہارے لیے نفع بخش ہو ں ۔

مذکو رہ حدیثوں کی روشنی میں ہمیںاپنے نفس کا محاسبہ کر نا چاہئے کہ دن بھر میں ہم کتنا گناہ کر تے ہیں اور ہمیں کتنا نکیاں کر نا چاہئے جو ہمارے مستقبل کے لئے کار آمد اور فائدہ مند ثابت ہو اور خاص طور سے ہمیں اپنے وقت اور زندگی کا صحیح استعمال کر نا چاہئے اور دنیاؤی لہو و لعب و خرافات سے دور رہنا چاہئے ۔

(۵):۔دین دار اور اچھا انسان وہ ہے جو دین کی نشر و اشاعت کر ے اور دعو ت و تبلیغ کا کا م کر ے ۔ خواہ کتنے ہی مصائب و الآم اور پر یشانیاں ہی کیو ں نہ بر داشت کر نی پڑیں پھر بھی خلو ص و للہیت کے سا تھ اپنے مشن اور دعو ت و تبلیغ میں سر گر م عمل رہے اور لو گو ں کو ایک اللہ واحد کی طر ف بلاتا رہے اور غیر اللہ کی پو جا و پر ستش سے لو گوں کو روکنے و منع کرنے کی بھر پو ر کو شش کر نی چاہئے ۔ جیسا کہ حضرت یوسف ؑ نے قید خانے میں رہ کر بھی اپنے ساتھیو ں اور قیدیوں کو تو حید کی دعوت دیتے رہے ،اللہ تعالی ٰ قرآن مجید کے اندر ارشاد فرماتا ہے کہ﴿وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ مَا كَانَ لَنَا أَنْ نُشْرِكَ بِاللَّهِ مِنْ شَيْءٍ ذَلِكَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ ، يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَأَرْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ أَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ﴾( یو سف :۳۸۔۳۹) تر جمہ:۔ میں اپنے باپ دادوں کے دین کا پابند ہو ں ،(یعنی ابر اہیم و اسحاق اور یعقوب کے دین کا ) ہمیں ہر گز یہ سزوار نہیں کہ ہم اللہ تعالی ٰ کے ساتھ کسی کو بھی شریک کر یں ، ہم پر اور تمام لو گو ں پر اللہ تعالیٰ کایہ خاص فضل ہے ،لیکن اکثر لو گ ناشکری کر تے ہیں ، اے میر ے قید خانے کے ساتھیو !کیا متفر ق کئی ایک پر ور دگار بہتر ہیں ؟یا ایک اللہ زبر دست طاقتور ۔

اسی طر ح علامہ ابن تیمیہ اور امام الہند مو لانا ابو الکلام آزاد رحمھما اللہ نے قید خانے میں بھی دین کی نشر و اشاعت میں سر گر م عمل رہے اور بہت ساری کتابیں قید خانے ہی میں تصنیف و تالیف کیے۔ اسلئے ہمیں بھی اپنے اسلاف کرام کے نقش قدم پر چلتے ہو ئے دین کی نشر و اشاعت اور دعوت و تبلیغ کا فریضہ انجام دینا چاہئے ۔

(۶):۔ مثالی نو جوا ن وہ ہے جو ملکی سیاست و قیادت میں آگے بڑھے اور خلو ص و للہیت کے ساتھ سیادت و قیادت کر ے ، جیساکہ حضر ت یو سف ؑنے دیکھا کہ قحط سالی کی وجہ سے ملک کا نظام درہم بر ہم ہو جائے گا اور لو گ بھو ک مری و قحط سالی سے پر یشان او رہلاک ہو جائیں گے تو انہو ں نے کہا کہ﴿قَالَ اجْعَلْنِي عَلَى خَزَائِنِ الْأَرْضِ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ﴾(یو سف : ۵۵) ترجمہ :۔ یوسف نے کہا :آپ مجھے ملک کے خزانو ں پر مقررکر دیجئے ،میں حفاظت کر نے والا اورباخبر ہو ں ۔ ا سطر ح اگرانسان کے اندر خود اعتمادی اورصلاحیت ہو کہ وہ ملک کی قیادت و سیادت اچھی طرح نبھا سکتا ہے تو وہ اپنے اہلیت و صلاحیت کے مطابق عہدے و منصب کو طلب کر سکتا ہے ، اسلئے ہم تمام مسلمانو ں کو بھی آپس میں متحد ہو کر ملک کی قیا دت و سیا دت کی طرف تو جہ دینی چاہئے ،تاکہ ملک کا نظام درہم بر ہم نہ ہو بلکہ اسلامی طور طریقے سے چل سکے ۔

(۷):۔ اچھا ،مثالی اور دین دار نو جوان وہ ہے جو جوانی میں شادی کر لے ، تاکہ اپنے عزت و آبر و اور شرمگاہ کی حفاظت کر سکے اور ادھر ادھر منھ مارنے سے محفو ظ رہے ۔ جیسا کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ سے راویت ہے کہ ’’ یا معشر الشبا ب من استطاع منکم الباۃفلیتزوج فانہ اغض للبصر و احصن للفرج ومن لم یستطع فعلیہ بالصو م فانہ لہ و جاء ‘‘ ( بخاری : کتاب النکاح ،باب من لم یستطع الباء ۃ فلیصم ، ح : ۶۰۶۶)تر جمہ :۔ اے نوجو انو ں کی جماعت ! تم میں سے جو شادی کر نے کی استطاعت رکھتا ہو وہ ضرور شادی کرلے ، اس سے نظر جھک جاتی ہے او رشر مگاہ کی حفاظت ہو تی ہے اور جو شخص قدرت نہ رکھتا ہو تو وہ روزہ رکھے کیو نکہ روزے اس کے لئے ڈھال کا کا م دیتے ہیں ۔

مذکورہ حدیث میں نگاہ اور شر مگاہ کی حفاظت کے لیے ایک بہترین اور جامع نسخہ بیان کر دیا گیا ہے، اسلئے جن نوجوانوں کے پا س استطاعت ہو ( چاہے وہ مالی ہو یا مردانگی ) انہیں جلد از جلد شادی کر لینا چاہئے ، اس لئے کہ نکاح کر نا باعث اجر و ثواب اور اللہ تعالی ٰ اور اسکے رسول ﷺ کی فر مانبر دار ی ہے ، اور اسی طر ح میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات بھی ایک عبادت اور بیو ی کے منھ میں لقمہ ڈالنا او رمجامعت کر نابھی صدقہ ہے ، جیساکہ رسو ل اکر م ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ و فی بضع احدکم صدقہ،قالو ا یا رسو ل اللہ ﷺایاتی احدنا شھوتہ ویکون لہ فیھااجر؟قال: ارئیتم لو وضعھا فی حرام اکان علیہ وزر؟فکذالک اذا وضعھا فی الحلال کان لہ اجرا‘‘(مسلم :کتاب الزکوٰۃ،باب بیان ان اسم الصدقۃیقع علی کل نوع من المعروف :ح:۱۰۰۶) ترجمہ: ۔تمہارا (اپنی بیوی سے)جماع کرنے میں بھی صدقہ ہے لوگوں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ ہم میں سے کوئی شخص اپنی شہوت کو پورا کرے تو اس پر بھی اسے اجر ملتا ہے؟تو آپﷺ نے فرمایا تمہارا کیا خیال ہے اگر وہ اپنی شہوت ناجائز طریقے سے پوری کرے تو کیا اسے اس پرگناہ ہوگا؟اسی طرح اگر وہ جائز طریقے اسے پورا کرے تو اس پر اسے اجر ملتا ہے۔

اس حدیث سے ہمیں نکاح اور شادی کے فوائدوثمرات سے آگاہ وآشنا کیا گیا ہے کہ اگر ہمارے پاس طاقت وقوت ہو تو شادی کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے اور خاص طور سے سرپرست (والدین)کو چاہیے کہ وہ اپنے اولاد(بیٹوں وبیٹیوں)کی شادی بلوغت اور وقت مقررہ پر کر دیں تاکہ وہ اسلامی دائرے میں رہ کر اپنے عزت وآبرو اور شرمگاہوں کی حفاظت کر سکیں۔

آج ہم جس ماحول اور سماج میں سانس لے رہے ہیں وہ بہت ہی گندہ اور غبار آلود ہے ہر طرف برائیوں و بے حیائیوں اور عریانیت کا بسیرا ہے،ایسے پر فتن دور اور سماج میں اگر نوجوان بیدار ہو جائیں اور مذکورہ تمام قرآنی آیات واحادیث نبویہ پر عمل پیرا ہو کر اپنے معاشرے کی اصلاح میں منہمک ہو جائیں تو یقینا ہمارا یہ معاشرہ اور ملک اصلاح کی طرف گامزن ہو جائیگا اور دنیا سے برائیوں اور بے حیائیوں کا خاتمہ ہو جائیگا اور دنیا میں ایک بار پھرامن وامان اور صلح وآشتی کابول بالا ہو جائیگا ۔

ٓؒ اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ مولائے کریم ہم تمام لوگوں کو ایک اچھا ،مثالی اور دیندار انسان بنا اور خاص طور سے ہمارے نوجوان بھائیوں و بہنوں کی اصلاح فرما اور انھیں قعر مذلت سے نکال کر صراط مستقیم پر گامزن فرما۔آمین ۔ تقبل یا رب العالمین۔
 

Abdul Bari Shafique
About the Author: Abdul Bari Shafique Read More Articles by Abdul Bari Shafique: 114 Articles with 133519 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.