کسی بھی ملک میں بسنے والے باشندوں کے معیارِزندگی کا
اندازہ رہن سہن،فی کس آمدنی،پس اندازی قوت اور معاشی خوش حالی سے لگایا سے
لگایا جا سکتا ہے۔لوگوں کا معیار زندگی تبھی بلند ہوتا ہے جب ان کی آمدنی
اخراجات سے زیادہ ہو،جب آمدنی زیادہ ہوگی تو یقینی بات ہے کہ ان کی بچت بھی
زیادہ ہوگی ،یہی بچت انسان کے معیار زندگی کو بلند کرنے میں ممدومعاون ثابت
ہوتا ہے۔اور اگر افرادکی آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہوں تو ظاہر سی بات ہے
کہ انہیں وسائل سے زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہ بات صرف لوگوں پر
ہی لاگو نہیں ہوتی ملکوں کی ترقی کا راز بھی اسی ایک بات میں پنہاں ہوتا ہے
کہ ملک میں موجود وسائل کے بروئے کار لا کر معاشی مسائل کو کم سے کم کر کے
معاشی بجٹ میں بچت کو لازم بنایا جائے۔جو ملک بھی اپنے ملک میں موجود وسائل
کے استعمال سے مسائل کو کم کر کے بچتوں میں اضافہ کر لیتا ہے وہاں کے لوگوں
کا معیار زندگی اور فی کس آمدنی میں اضافہ یقینی بات ہو جاتی ہے۔اگر
خدانخواستہ ایسا نہیں ہوتا تو پھر ملکوں کی تاریخ گواہ ہے کہ معاشی بدحالی
ملکوں کے معاشی، تہذیبی، سیاسی،سماجی اور ثقافتی زوال کا باعث بن جایا کرتی
ہے۔اس تباہی سے بچنے کا ایک ذریعہ ہوتا ہے کہ امیر ملکوں،ورلڈ بنے یا آئی
ایم ایف سے قرض لے کر معاشی بحران سے بچا جائے لیکن یہ ایک ایسا چکر ہے جس
ے چکر میں کوئی ملک ایک بار آگیا پھر جان خلاصی قسمت سے ہی ممکن ہو پاتی
ہے۔ملک پاکستان کا بھی یہی حال ہے کہ پچھلا قرض اتارنے کے لئے نئے قرضے
حاصل کئے جا رہے ہیں گویا صحیح معنوں میں دادا لے کر پوتا اتارے تو بات
بنتی ہے وگرنہ پوتا بھی مقروض سے مقروض ہوتا جائے گا،قرض کا سب سے بڑا
نقصان یہ ہوتا ہے کہ جیاں ملک میں بے شمار مسائل سر اٹھاتے ہیں ان میں سب
سے بڑا مسئلہ مہنگائی کا ہوتاہے کہ جب قرض کی ادائیگی کا بہانہ بنا کر ملک
کو چلانے والیکوئی بھی حکومت عوام پر ٹیکس کا نفاذ کرتی ہے تو بالواسطہ یو
بلا واسطہ عوام ہی متاثر ہوتے ہیں۔مثلا پٹرول کی مہنگائی براہ راست نہ سہی
کسی نہ کسی طور ہر اس شے کو مہنگا کرنے کا باعث بنتا ہے جس کا تعلق پٹرولیم
مصنوعات سے ہو۔
سب اپنی جگہ درست لیکن کہیں نہ کہیں ملک میں مہنگائی کا باعث عوام کی اپنی
کوتاہی،کمی،ایمانی کمزوری،عدم انتظامی اور چادر سے بڑھ کر پاؤں پھیلانا بھی
ہوتا ہے۔اگر انسان اپنے درائع آمدن کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اخراجات کو
محدود کر لے تو کوئی وجہ نہیں کہ اسے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے پڑیں۔جس کو
بھی دیکھیں اپنے ذرائع آمدن کو بہتر انصرام میں لانے کی بجائے ایک بات کا
شور اور واویلا مچا ر ہا ہے کہ ملک میں مہنگائی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے،خاص
کر آپ سب نے بھی مشاہدہ کیا ہو گا کہ پاکستان میں خاص کر جب بھی کوئی مذہبی
تہوار جیسے عیدین،شب برات،رمضان المبارک الغرض محرم الحرام میں بھی ہر
کاروباری حضرات کی حتی المقدور کوشش ہوتی ہے کہ وہ سارے سال کا منافع ایک
ہی ماہ میں صارف سے وصول کر لے۔گویا حکومت کی غلط پالیسیوں اور حکمت عملی
کے ساتھ ساتھ ملک میں مہنگائی کی ذمہ دارعوام کی بے ایمانی ،حرص وطمع اور
ناجائز منافع کا حصول بھی ہے۔جیسے کہ رمضان کی آمد سے قبل ہی
گھی،چینی،دالیں،کھجور اور روزمرہ استعمال کی اشیاٗ کی ذخیرہ اندوزی اس نیت
سے کر لی جاتی ہے کہ رمضان کے ماہ مقدس میں اپنی مرضی کا منافع وصول کیا
جائے گا۔ایسے ہی عیدین کے مواقع پر خاص کر حالیہ آمد عید البقر پر
گائے،بکرے و دیگر قربانی کے جانور کا تو مہنگا ہونا بنتا ہے ساتھ ہی ساتھ
پیاز ،مصالحہ جات ،چھریاں اور قصابوں کے ریٹ بھی ایک دم سے آسمانوں کو
چھونا شروع ہو جاتے ہیں۔گویا ایک خاص طبقہ اسی انتظار میں ہوتا ہے کہ کب
موقع ملے اور لوگوں کی کھال اتار لی جائے قطع نظر کہ موقع کون سا ہے۔
اگر مذہبی تہوار اور مواقع کی نسبت سے پاکستان کا موازنہ دیگر اسلامی ممالک
یا یورپی ممالک سے کیا جائے تو مہنگائی کی شرع کہیں بھی پاکستان جیسی نہیں
ہے ،میں چونکہ عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہوں تو میں نے دیکھا کہ
اکثر عیدین اور رمضان المبارک کے موقع پر ہر چھوٹے بڑے ،مسلمان یا غیر مسلم
کے سٹور پر سب پر رمضان سیل ضرور لگی ہوتی ہے تاکہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ
سہولت فراہم کی جائے۔ایسے ہی یورپی ممالک میں بھی ایسٹر،کرسمس کے علاوہ
رمضان اور عید پر بھی اشیا کو سستا کر دیا جاتا ہے تاکہ لوگ فکر معاش سے بے
پرواہ ہو کر اپنی عبادات میں انہماک پیدا کر سکیں۔لہذا ہم پاکستانیوں کو
بھی خدا خوفی کرتے ہوئے ہر بات کو حکومت پر ڈالنے کی بجائے خود ساختہ
مہنگائی سے اجتناب کرنا چاہئے تاکہ لوگ اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی کو بجا
لانے میں کوئی کمی یا کوتاہی نہ برتیں،خدا پر اگر ایمان کامل ہے تو اﷲ اس
کا بھی ضرور اجر عطا فرمائے گا۔
|