14 اگست عزم و استقلال کا دن، آزادی کی ہر آن کا دن،
غلامی سے نجات کا دن ، ہمت، شجاعت اور منزل کو پانے کی چاہ میں خوں کا
نذرانہ پیش کرنے والوں کا دن ہے کہ جن کا احسان کبھی نہیں چکایا جا سکتا۔
جن ہستیوں کا مقصد مسلمانوں کیلئے ایسا آزاد ملک حاصل کرنا تھا کہ جہاں دین
پر عمل کرنا جرم نہ ہو۔ مسلمان نماز پڑھنے کی خاطر تذلیل کا شکار نہ ہوں
جہاں مساجد شہید نہ کی جائیں جہاں ہر دل میں دین کی عزت و وقار شاد رہے۔
جہاں حلال رزق کیلئے در در کی ٹھوکریں نہ کھانی پڑیں۔ جہاں فجر کی نماز
کیلئے آزادی سے بیدار ہوا جا سکے۔جہاں اسلامی قوانین کی بنیاد پر حکومت
قائم ہو اور ہر مسلمان کو مساوات کی بنیاد پر انصاف میسر ہو۔ جہاں ہر آنے
والی نسل ہر پاکستانی محب وطن ہو۔ غرض کہ پوری قوم شعوری طور پر غلامی کی
زنجیروں سے آزاد ہو اور اپنے رب کی صحیح معنوں میں شکر گزار ہو۔
مگر افسوس! صد افسوس! کہ ہم اور ہماری نسل ان تمام مقاصد سے دور گویا ان
ہستیوں کی قربانیوں کو پاؤں تلے روندتے ہوئے اپنی من مانیوں و عیاشیوں میں
مگن ہیں۔ ہمارے لئے صرف ایک دن اپنے وطن سے محبت جتاتےہیں ۔تقاریر کیں،
نغمے گنگنائے، پرچم لہرائے، موج مستی کی ، کھایا پیا اور چل دئیے۔ عام دنوں
میں ملک سے عقیدت اور ساری محبتیوں کا گلا گھونٹ کر قبر میں سلا ہی ڈالتے
ہیں۔ ملک سے محبت صرف ایک دن جتلانے کا نام نہیں بلکہ محبت ہر دن ہر لمحہ
اپنے ملک کیلئے وقف کرنا، اسکی صورتحال کو بہتر بنانے کی کوشس کرنا ، مساجد
میں پانچ وقت باقاعدگی سے حاضری دینا، اپنے رب کے سامنے جھکنا شکر ادا کرنا
کہ ہم آزادی سے رکوع و سجود کر سکتے ہیں،اپنی گلی محلے اور شہر کی صفائی کا
خیال کرنا اور دوسروں کو تلقین کرنا کہ یہ ملک محنت سے حاصل کیا گیا ہے اس
کے ہر کونے کا خیال رکھنا ہمارا فرض ہے۔ اپنے ملک کے پرچم کی عزت تہ دل سے
کرنا اپنے بچوں کی اسکی اہمیت کا درس دیتے ہوئے انہیں جھنڈیاں زمیں پر
گرانے سے روکنا، زمین کی نظر ہوئے سبز ہلالی کے ٹکڑوں کو چوم کر اٹھانا اسے
سنبھال کر رکھنا اصل محبت ہے۔
آج 14 اگست کے بعد ہر گلی ہر کوچے سے گزرتے ہوئے زمین پر بے دردی سے پھینکے
گئے شہید پرچم دیکھ کر دل پاش پاش ہو جاتا ہے۔ کیا ہماری مائیں ہمارے بڑے
اپنے بچوں کو یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ جس پرچم کی ہم توہین کرتے ہیں اس
نشان کو حاصل کرنے کیلئے ہماری خاطر ہمارے باپ دادا مر مٹے تھے ہماری ماؤں،
بہنوں نے اپنی عزتیں لٹائیں تھیں ؟؟ اس کی عزت کرو؟ آج ہماری مسجدیں
نمازیوں سے خالی ہیں، ہماری تحریکیں اس دور کے نوجوانوں سے خالی ہیں جن کا
مقصد صرف ملک کو حاصل کرنا اور اسکی ترقی تھا، آج نوجوان سیاسی ہتھکنڈوں کا
شکار ہیں اپنی اپنی پارٹی کو درست ثابت کرنے کیلئے لڑتا پھرتا ہے ملک کو
سنوارنے کی کوئی فکر نہیں ! مولانا مودودی(رحمتہ اللہ) ٹھیک کہا تھا "اگر
ہم آزاد ہونگے تو دین(پرواہ) چھوڑ دیں"۔
رہی بات مقبوضہ کشمیر کی ان کیلئے آواز اٹھانے والوں یکجہتی کرنے والوں کی
تعداد بیشمار ہے لیکن ان کی خاطر حقیقی معنوں میں اٹھنے والے بہت کم ہیں
اور ان کم کا ساتھ دینے والے ان سے بھی کم ہیں۔ آزادی کی تحریکیں فقط کشمیر
بنے گا پاکستان کے نعروں سے نہیں چلتیں بلکہ اپنے لخت جگر کو قدم اٹھانے
کیلئے وقف کرنا پڑتا ہےہمت جوش و جذبے کی ضرورت ہوتی ہے۔آزادی بیٹھے بٹھائے
باتوں اور نعرے بازیوں سے نہیں ملتی بلکہ آزادی تو جنون ،عشق، قوم، اتحاد و
ایماں اور قائد کے قول پر عمل سے ملتی ہے۔
ہمیں ضرورت ہے کہ ہماری مائیں اپنے بچوں کو کشمیر کی آزادی کی تحریکوں کا
ساتھ دینے کیلئے وقف کریں۔ اپنی نسلوں کو پاکستان اور آزادی کی اہمیت کا
درس دیں ان کے دلوں میں ایمان جگانا ہے۔مغربی غلامی سے رہائی حاصل کرنا ہے۔
|