بیسویں صدی مسلمانانِ ہند کے لیے ایک تحریک، ولولے اور
جدو جہد کی صدی کے طور پررونما ہوئی اور اس صدی میں ہندوستان کے مسلمانوں
نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر ایک آزاد اسلامی ملک حاصل کیا۔قبل ازیں برِ
صغیر پاک وہند پر مسلمانوں نے تقریباََ ساڑھے چھے سو سال حکومت کی۔ اس
دوران کئی نشیب وفراز آئے لیکن اسلامی حکومت برقرار رہی مگر جب اس قوم کے
اندر غداروں نے جنم لیا تو اس لمبے اقتدار کو بچایا نہ جا سکا، اگرچہ ٹیپو
سلطان نے آخری کوشش کی لیکن وہ بھی دوسرے مسلم حکمرانوں اور غداروں کی وجہ
سے ناکام ہوا،تاہم اس نے آخری معرکے میں یہ ضرور ثابت کردیا کہ جان تو
قربان کی جاسکتی ہے لیکن اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا۔ٹیپو سلطان نے
اپنی جان، جانِ آفریں کے سپردکرکے رسمِ شبیری تازہ کردی اور اپنا نام ہمیشہ
ہمیشہ کے لیے تاریخ کے سنہری اوراق میں ایک بہادر شہید کے طور پر رقم
کروالیا۔برِ صغیر میں اسلامی اقتدار جو قطب الدین ایبک سے شروع ہوا بلآخر
نااہل مغل شہزادوں کی بدولت 1857ء میں ختم ہو گیا۔بایں ہمہ برطانوی،تاجروں
کے بھیس میں ہندوستان آئے تھے لیکن جلد ہی انہوں نے اس سرزمین پر برسرِ
اقتدار آ نے کے خواب دیکھنا شروع کر دیے جو انہیں یہاں کے غداروں کا ساتھ
مل جانے کی وجہ سے سچ ہوتے ہوئے نظر آئے؛ لہذا انہوں نے آہستہ آہستہ اپنے
قدم جمانا شروع کر دیے۔ اس کے لیے انہیں زیادہ تگ ودو بھی نہ کرنا پڑی۔
مسلم جرنیلوں نے کسی حد تک ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی لیکن وہ بھی
کامیاب نہ ہو سکے اور یوں 1857ء کے آخری معرکے کے بعدبرطانوی دہلی کی حکومت
پرقابض ہو گئے۔ انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کو پس ماندہ رکھنے کے تمام حربے
استعمال کیے؛ بلکہ انہیں ہر طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بھی بنایا۔انیسویں
صدی میں یوں لگتا تھا کہ جیسے برطانوی اس سر زمین سے کبھی واپس نہ جائیں
گے، لیکن یہ ایک وہمہ تھا جو جلد ٹوٹ گیا اور مسلمان زعما اور مذہبی رہنماؤ
ں نے آزادی کی تدابیر سوچنا شروع کردیں۔
ہندوستان کی آزادی کی تحریک صرف مسلمانوں ہی نے نہ چلائی بلکہ ہندوستان کی
تمام قوموں نے مل کر اس میں حصہ لیا۔سرسید احمد خان سے لے کر قائدِ اعظم ؒ
تک سب مسلم رہنماؤں نے مسلمانوں کی شخصی اور مذہبی آزادی کے لیے آواز بلند
کی۔سرسید پہلے رہنما تھے جنہوں نے مسلمانوں کے دکھ درد کو سمجھا اور انہیں
اس سے نجات دلانے کا بیڑا اٹھایا۔ ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے شاعرِ مشرق
حکیم الامت حضرت علامہ اقبال ؒنے نئی آزاد مملکت کا تصور دیا جبکہ بابائے
قوم حضرت قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ نے اس خواب اور تصور کو سچ
کردکھایا۔1930ء سے 1940ء کے دس سال مسلمانوں کے لیے سخت ترین سال تھے کہ ان
برسوں میں مسلمانوں پر ہر طرح کی مصیبتیں ٹوٹیں،لیکن انہوں نے ہمت نہ ہاری
اور آزادی کی جنگ جاری رکھی پھر 1940ء میں جب ہندوستان کے مسلمانوں کا جمِ
غفیرمنٹو پارک(اقبال پارک۔ یادگارِ پاکستان) میں بابائے قوم حضرت قائدِ
اعظم کی قیادت میں ایک پرچم تلے جمع ہوا اور قراردادِ پاکستان منظور ہوئی
تو اسے بھی دیوانے کا خواب کہا گیا، لیکن یہ خواب صرف اور صرف سات سال میں
نہ صرف شرمندہ ء تعبیرہوا بلکہ پاکستان کی شکل میں یہ تعبیر دنیا کے نقشے
پر قائم ہے اور ان شاءاللہ قائم رہے گی۔
پاکستان اکیسویں صدی میں جن خطرات سے دوچار ہے شاید وہ اپنی بہتر سالہ
تاریخ میں نہیں رہا؛ لیکن اس سے بھی کوئی مکر مفر نہیں کہ قیام پاکستان کے
ساتھ ہی وطنِ عزیز پاکستان کو بہت مشکل حالات کا سامناکرنا پڑا لیکن
پاکستانیوں نے اپنی اولوالعزمی اور ہمت و استقلال کی بدولت ان مشکل حالات
پر قابو پالیا اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو گیا لیکن وطنِ عزیز پاکستان
کی ترقی ہمارے دشمن کو پسند نہ آئی اور اس نے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے
منصوبے بنانا شروع کردیے اور پھر پاکستان پر دو بڑی جنگیں مسلط کیں اور کئی
دیگر معرکے بھی ہوئے جن میں اللہ تعالی نے پاکستان کو محفوظ رکھا لیکن
1971ء کی جنگ میں اندرونی خلفشار کی وجہ سے ہمارا ایک حصہ ہم سے جدا ہو کر
بنگلہ دیش بن گیا۔لیکن نہیں معلوم کہ ہم تاریخ سے سبق کیوں نہیں سیکھتے کہ
ایک طرف تو پاکستان دشمن کے ناپاک عزائم سے نبرد آزما ہے اور دوسری طرف اس
وقت بھی حکمران اور دیگر سیاستدان ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے میں مصروفِ
کار ہیں۔
امسال آزادی کا یہ دن ہمارے لیے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے کہ دشمن نے ایک
بار پھر پاکستان کو نقصان پہنچانے کا ارداہ کیا ہے اور کشمیر جو ہمارے وطن
کی شہ رگ ہے اس کے مقبوضہ علاقے کی آئین میں دی گئی خصوصی حیثیت کو ختم
کرکے اسے بھارت کا حصہ بنانے کی مذموم کوشش کی ہے۔ کشمیریوں نے نہ اسے پہلے
کبھی تسلیم کیا ہے اور نہ اب کریں گے۔وہ ایک بار پھر سروں پر کفن باندھ کر
نکلے ہیں اور اس بار ان شاء اللہ ان کی یہ قربانی رائیگاں نہیں جائے گی اور
وہ دن دور نہیں جب کشمیری بھی آزاد فضا ئوں میں آزادی کا جشن منائیں گے۔ ان
شاء اللہ ۔
پاکستان نے ہمیشہ کشمیریوں کی جد وجہدِ آزادی کو دنیا کے ہر فورم پر سپورٹ
کیا ہے اور کرتا رہے گا کیونکہ بانئ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے
کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا تو اگر پاکستان ایک جسم ہے اور
کشمیر کی اس کی شہ رگ تو پاکستان کے اپنے وجود کے لیے بھی کشمیر کا پاکستان
سے الحاق جزولاینفک ہے۔
اگرچہ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ عزت اور ذلت دینے والی صرف اور صرف
ایک ہی ذات ِپاک ہے جو ازل سے ابد تک ہے۔لیکن ٹیلی ویژن چینلز پر بیٹھ کر
ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنا اور ان دیکھی قوتوں کے اشاروں پر ناچنا، وعدہ
ایک سے کرنا اور وفاداری کسی اور سے نبھانا کچھ لوگوں کا وتیرہ بن چکا ہے
اور تو اور مذہبی طبقے سے تعلق رکھنے والے بھی اس سے مبرا نہیں۔ ہر سال جب
یومِ آزادئ پاکستان 14/اگست کا دن آتاہے تو اپنے ساتھ ہر سال کچھ تقاضے بھی
لے کر آتا ہے اور ہم سے متقاضی ہوتا ہے کہ اے سرِ زمین پاک کے باسیو!کیا تم
اپنی ذمہ داریاں پوری کررہے ہو؟ کیا تم نفرتوں کو مٹاکر محبتوں کا درس دے
رہے ہو؟ کیا تم آپس کی کدورتوں کو پس ِپشت ڈال کر اپنے وطن کی ترقی اور
خوشحالی کے لیے دن رات تگ و دو کررہے ہو؟ اے حکمرانو! کیاتم اپنے فرائض
ایمانداری اور دیانتداری سے ادا کررہے ہو؟ کیا تم اسلامی اقدار کی پاسداری
کے لیے شبانہ روز کوشاں ہویا زبانی جمع خرچ کی پالیسی پر ابھی تک گامزن ہو؟
آیئے! یومِ آزادئ پاکستان کے اس یادگار موقع پر ایک عہد پھر کریں کہ ہم
پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں گے اور
اپنے وطن کو عالمی برادری میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام دلانے کے لیے اپنی بساط
کے مطابق ضرور حصہ لیں گے نیز اپنے اندر تحمل اور بردباری کو پروان چڑھائیں
گے۔رواداری، ادب و حترام اور در گزر کو اپنی روز مرہ زندگی کا شعار بنائیں
گے اور محبِ وطن پاکستانی بن کر دنیا کو دکھائیں گے۔ یہ مشکل ضرور ہے لیکن
ناممکن ہرگزنہیں۔اور سب سے اہم کہ ہم کل بھی کشمیریوں کی جدو جہدِ آزادی کے
ساتح کھڑے تھے، ہم آج بھی ان کے ساتھ ہیں اور کل بھی ان کے ہم رکاب رہیں
گے۔ پاکستان زندہ باد!
|