میں پاکستان کا ادنٰی سا شہری ہوں۔۔۔۔ نیا پاکستان کا
نعرہ لگا تو میں نے دل میں ہزاروں امیدیں اور آنکھوں میں حسین خواب سجا لیے
کہ اب تک جو کچھ میرے وطن میں ہو رہا ہے شاید وہ سب کچھ بدلنے جا رہا ہے
اور میری آنکھیں ایک بار پھر قائداعظم کا پاکستان دیکھنے جا رہی ہیں۔۔۔ مگر
نہیں!!! ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور میرے خواب کرچی کرچی ہو کر رہ گئے اور
ان کرچیوں نے میری رُوح کو چھلنی چھلنی کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔ ایسا لگا شاید ہماری
قوم قائد کے پاکستان کی حق دار ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔ اب خود ہی فیصلہ کریں کہ کیا
صدر پاکستان آ کرہمیں حکم دیتے ہیں کہ بیٹا سرخ مرچوں میں برادا ڈالو، دودھ
میں پانی ملاؤ، پھلوں کو رنگین انجکشن لگانے کے علاوہ گوشت کو پانی لگاؤ ،
وقت سے پہلے آفس سے چھٹی کرو، فرائض کی ادائیگی کا خیال نہ کرو ۔۔۔۔۔۔۔
یقیناً آپ کا جواب نہیں میں ہوگا۔۔۔۔
چلیے قائد کا پاکستان بھی دیکھتے ہیں۔ گورنر جنرل آف پاکستان ملیر کینٹ میں
سیر کرنے جا رہے تھے تو راستے میں پھاٹک بند تھا۔ اے ڈی سی فوراً نیچے اترا
اور پھاٹک والے سے کہا کہ جانتے بھی ہو گاڑی میں گورنر جنرل آف پاکستان
بیٹھے ہیں، یہ سنتے ہی اس نے فوراً پھاٹک کھول دیا۔ اے ڈی سی واپس آیا
تو قائد نے پوچھا کہ گیٹ کیوں کھلوایا، اس نے کہا کہ سر آپ کو انتظار کرنا
پڑنا تھا۔ ہمارے رہنما نے کہا کہ نہیں، پھاٹک بند کرواؤ میں نہیں چاہتا کہ
امیر آدمی کے لیے گیٹ کھلے اور غریب کے لیے بند رہے۔
لیکن اس کے بعد چشم فلک نے دیکھا کہ اس وطن میں ہر امیر اور طاقتور آدمی کے
لیے گیٹ کھلے اور ناتواں کے لیے بند ہوے۔
مجھے تو قائد کا پاکستان چاہیے جہاں ساڑھے اڑتیس میں سے چھے روپے سرکار سے
جب کہ باقی کے پیسے گورنر جنرل اپنی جیب سے دے، جہاں ملک کا سربراہ عام
لوگوں کی سی زندگی گزارے، جہاں حکام کے قافلے گزرنے کے باعث کوئی بوڑھا
مریض اپنی جان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھے ، اعلٰی حکام کے گھر والے اپنا خرچ
اپنی جیب سے ادا کریں، غریب کا کوئی حق نہ مارے۔ مجھے قائداعظم کا پاکستان
چاہیے۔
لیکن یہ سب سوچتے ہوے کچھ سمے میں رُک جاتا ہوں اپنے گریبان میں جھانکتا
ہوں تو شرم سار سا ہوجاتا ہوں کہ بد دیانتی تو میری رگ رگ میں ہے، قائد کے
دیے گئے اسباق میں تو کب کا بھلا بیٹھا ہوں، میں بھول گیا ہوں کہ میری
تاریخ میں علامہ اقبال جیسے مفکر اور ایم ایم عالم جیسے جانباز ہیں, میں
بھول گیا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔
ہمیں یہ سرزمین پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملی، اس کو قائد کا پاکستان بنانے کے
مجھے خود کو بدلنا ہے، خود کو سنوارنا ہےاور خود کو سنواروں گا تو معاشرے
کا ایک فرد سنور جائے گا کیونکہ
ع ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
شاید یہ تب ہی ممکن ہے کہ مجھے ایسے حکمران ملیں جو دنیا سے آنکھون میں
آنکھیں ڈال کے بات کر سکیں جو کشمیر کو ان کے حقوق دلا سکیں۔
|