یہ لازمی نہیں ہے کہ بہروپ بدلنے والے بے ایمان ہی ہوں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ اگر کچھ کرکے دکھانا چاہتے ہیں اور دنیا کو فتح
کرنے کی چاہ ہے تو پھر آپ میں کچھ دینے اور سیکھنے کا جذبہ بھی ہونا چاہیے
اور اپنی غلطیوں کو نہ دہرانے کا عزم بھی آپ کو ایک اچھے ترغیبی بولنے والے
کا روپ دے سکتا ہے۔
اپنے خیالات رکھیں تاکہ آپنی انفرادیت قائم ہو اور لوگ بھی آپ کو سن اور
سمجھ سکیں۔
جس سے جو کہنا ہے اسی کے لحاظ سے خود کو تیار کریں یہ نہ کریں کہ بات جنگ
کی ہو اورآپ سپاہی کی بجائے بچوں کو لڑنے کا درس دیں۔
اپنے علم کی جانکاری بھی حاصل کریں کہ وہ کس قدر مستند ہے اور خود کو
سیکھنے کی جانب بھی راغب کریں تاکہ نئے نئے خیالات سے لوگوں کے ذہنوں کو
متاثر کر سکیں۔
پہلے پہل کوشش کریں کہ اپنی خدمات مفت میں فراہم کریں۔
اپنے ہنر کی اچھی سی تشہیر کریں تاکہ لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوں۔
جو بھی بولیں وہ آپ کے عمل میں لازمی ظاہر ہوتا ہو تو آپ اچھی ترغیبی مقرر
بن سکتے ہیں۔
جب سوچ کا دائرہ محدود ہو جائے تو انسان ذہنی طور پر مفلوج ہو جاتا ہے جو
کہ ذہنی اذیت کی شروعات ظاہر کرتا ہے کہ پھر جو بھی ہوتا ہے وہ اس کو
پریشان کئے رکھتا ہے۔
۔محض سوچنے رہنا اکثر عمل سے دور کرتا ہے لہذا سوچ کے ساتھ عمل کرنا بھی
فوری طور پر ہونا چاہیے۔
لمحہ موجود میں جینے سے سب ڈر ختم ہو جاتے ہیں۔
جو پوچھتا ہے وہ جان لیتا ہے جو آگاہی حاصل کر لیتا ہے وہ تباہی سے بچ جا
ہے۔
ہمارے ہاں کوئی خود اچھا اورقانون کے مطابق عمل نہیں کر سکتا ہے تو دوسرے
اگر اس پر عمل پیرا ہوں تو ان کےلئے مسائل کھڑے کرتے ہیں۔
جو اچھا کر رہا ہو کم سے کم اس کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ اپنی جہدوجہد
جاری رکھے۔
کوشش کرکے ناکام ہونا اس سے بہتر ہے کہ آپ خاموشی سے بیٹھ کر کامیابی کا
انتظار کریں۔
محبت ہم سے وہ بھی کروا لیتی ہے جو ہم کر نہیں پا رہےہوتے ہیں مگر کسی کے
لفظ ہم سے کروا لیتے ہیں۔
کسی کے ساتھ ظلم و ذیادتی ہوئی یہ تو کوئی ہونی تھی مگر ہم اور آپ اس کا
شکار بننے والے کا کھلے عام تماشہ بنا کر رکھ دیتے ہیں اور نام و پتہ کے
ساتھ تصویریں یوں یہاں وہاں شائع کرتے ہیں کہ جیسے یہ کوئی نیک کام ہے مگر
خود عملی طور پر قدم اُٹھاتے ہوئے شرما جاتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم
ایک حد میں رہتے ہوئے کسی کے لئے انصاف کا مطالبہ کریں یہ نہیں کہ کسی کو
اور رسوا کر کے رکھ دیں۔مزید یہ کہ ظلم و ذیادتی ہو تو فوری شور مچائیں بعد
میں محض مجبوری کا نام لے کر اس کا شکار مت ہوتے رہیں۔
ایک بار کا اعتماد یا تو آپ کی زندگی سنوار دیتا ہے یا برباد کر کے رکھ
دیتا ہے۔
یہ شکوہ سب ہی کرتے ہیں مگر یہ بات کوئی نہیں سوچتا ہے کہ بہترین رشتے
نبھائے اور قائم کرنے کرنے سے ہی اچھے ہو جاتے ہیں مگر ہر اچھی خوبی تلاش
کرتے کرتے بالوں میں چاندی بھی آجاتی ہے ۔
لہذا بنا جہیز کے اورسیرت کو معیار بنا کر نکاح کرائے جانے کی روایت قائم
ہونی چاہیے اس سے بہت سے مسائل ختم ہوں گے اور بے راہ روی کا شکار نوجوان
نسل بھی سدھر سکے گی۔
سادہ اور آسان طریقہ کار سے نکاح کی طرف جائیں کوئی رکاوٹ نہیں بنے گی مگر
خواہشات کو مدنظر رکھیں گے تو پھر اچھے رشتے ملنا ہی ایک سنگین مسئلہ بن
جائے گا لہذا اللہ کا نام لے کر نکاح کریں اپنی من مرضی کا رشتہ تلاش نہ
کریں۔
پاکستان میں لوگ ماہرِ نفسیات کے پاس جانے سے ڈرتے ہیں کیوں کہ ’لوگ سمجھتے
ہیں کہ اگر کوئی ذہنی مسئلہ ہے تو آپ پاگل ہیں‘ اور یہ خوف ذہنی امراض کے
علاج کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے۔
لوگ سوچے سمجھے بنا کسی کے کردار پر انگلی اٹھا دیتے ہیں جب سچ سامنے آتا
ہےتو پھر منہ دکھانے کے قابل بھی نہیں رہتے ہیں۔
میاں بیوی کے درمیان ہر طرح کے اختلافات کو دونوں مل کر جب تک حل نہ کریں
تو پھر دوسروں کو آگ لگانے کا موقع مل جاتا ہے کہ وہ بہتر طور پر جانتے ہیں
کہ معاملہ کیا ہے، محض سنی سنائی باتوں سے دوسرے اکثر غلط فیصلے کر جاتے
ہیں۔
بچے وہی کرتے ہیں جو اُن کے والدین اپنے بچوں کے لئے مثال سامنے رکھتے ہیں،
جب والدین ہی بچوں کے سامنے غلط رویہ اور کام کریں گے تو بہت ہی انہونی سی
بات ہوگی کہ اگر وہ اس کے برعکس کچھ کرتے ہیں۔
کسی کو کوئی بات سوچ سمجھ کر بتانی چاہیے کیونکہ وہ اس کو اپنے مقاصد کے
لئے استعمال کر سکتے ہیں۔
جو جتنا مل رہا ہو پر خوش نہ رہنے والے اکثر الجھے ہوئے ہی رہتے ہیں۔
نرم الفاظ ہمیشہ معاملات کو بناتے ہیں مگر کبھی کبھی نرمی گلے بھی پڑتی ہے
لہذا مناسب وقت پراپنے لہجے کو ضرورت کے مطابق ضرور ڈھالنا چاہیے۔
آج کل دوسروں کی بیٹیوں کے گھر اُجڑنے کا رواج عام ہو رہا ہے جس کی بڑی وجہ
لگائی بجھائی سامنے آئی ہے۔
کھٹن حالات سے ڈر کر خود کو کسی خول میں بند کرلینا اور خواب نہ دیکھنا بد
ترین بے وقوفی ہے۔
مرد اور عورت دونوں کو خواب دیکھنے کا حق حاصل ہے مگر خوابوں کی تعبیر اُن
کو ملتی ہے جو بلند حوصلہ ہوتے ہیں۔
آج کل خلع اور طلاق کی شرح بڑھنے کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک وجہ فریقین
کا آپس میں معاملات حل کرنے کی بجائے دوسروں پر انحصار کا ہونا بھی ہے۔
جہاں تعلق باقی نہ رکھنا ہو وہاں الزامات کی بارش کر دی جاتی ہے کہ پھر
واپسی کا راستہ باقی نہ رہے اور پھر عمر بھر کی اذیت بھی سہنی پڑتی ہے مگر
یہ جذبات کے طوفان تھم جانے کے بعد پتا چلتا ہے کہ کیا کھویا کیا پایا۔
آج لوگ جلتی پر تیل چھڑکنے کو تیار ہوتے ہیں مگر لگائی ہوئی آگ کو بجھانے
کی کوشش کم ہی کرتے ہیں۔
یہ کیسی محبت ہے جو اپنے محبوب کی تذلیل کرواتی ہے اور عزت کی دھجیاں
بکھیرتی ہے۔
کسی کے کہے میں آکر اپنا گھر برباد کرنا بدترین بے وقوفی ہوتی ہے۔
دوسروں کے سامنے کسی کی تذلیل کرنے سے آپ دودھ کے دھلے نہیں بن سکتے یہں۔
کسی کو اتنا ذلیل مت کروائیں کہ آپ کے لئے بھی واپسی کے سب دروازے بند ہو
جائیں اور آپ چاہ کر بھی واپس نہ آ سکیں۔
کسی کو اُس حد پر ہم لے جاتے ہیں کہ وہ اپنا فیصلہ سوچ لیتا ہے مگر ہم پھر
بھی اس سوچ میں رہتے ہیں کہ غلطی اس میں ہماری نہیں ہوگی۔
دوسروں کے اشاروں پر وہ چلتے ہیں جو اپنی سوچ نہیں رکھتے جو دوسروں کی سوچ
پر چلتے ہیں وہ جب تنہا ہوتے ہیں تو پھر کوئی ساتھ نہیں دیتا ہے۔
اگر آپ کو اللہ کے فیصلوں پر من مانی کرنی ہے تو پھر اُس کی دنیا سے کہیں
دور چلے جائیں۔
جھک کر رشتے قائم رکھنے والوں کو لوگ جتنا دبانے کی کوشش کرتے ہیں اگر اکڑ
دکھا دی جائے تو پھر رشتہ بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتا ہے۔
جس رشتے کو نبھانے کی کوشش میں آپ ہی ذلیل و رسوا ہوں تو پھر اُس سے کنارہ
کشی ہی بہتر ہے۔
ہر پریشانی اور مسائل کا حل ہوتا ہے محض یہ سوچنے سے کہ اب کیا ہوگا کچھ
نہیں حاصل ہوتا ،آپ کو یہ سوچنا چاہیے کہ کوئی شے اتنی اہم ہے کہ اس کے لئے
پریشان ہوا جائے، پاس موجود نعمتوں پر نظر ڈال لی جائے اور سوچا جائے کہ جو
بہتر ہوتا ہے وہی ہوتا ہے،اللہ اپنے بندے سے زیادتی نہیں کرتا ہے تو انسان
کو رب پر یقین سے ذہنی سکون ملنا شروع ہو جاتا ہے۔ذہنی سکون ہمیشہ دین سے
منسلک رہنے اور رب پر اعتماد سے ملتا ہے۔
خود سدھرنے کے لئے اپنی خامیوں کو نظر میں رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
عقلمند اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتا ہے جبکہ بے وقوف اپنی من مانی ااور ضد کی
وجہ سے نقصان اُٹھاتا ہے۔
شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری ہمیشہ لے ڈوبتی ہے۔
اللہ سے بڑھ کر کوئی اور انسان کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا ہے لہذا اُس ذات
کے سوا کسی کوا پنا خیر خواہ نہ سمجھیں۔
ہر بڑا اپنے قول وفعل کے مطابق عزت و احترام رکھتا ہے
مشق کرتے رہنا ہی آپ کو کامیابی کی منزل تک پہنچاتا ہے۔
سسرال میں وہی لڑکی عزت پاتی ہے جو اپنے آپ کو وہاں کے ماحول میں ڈھال لیتی
ہے۔
کوئی عزت دے یا نہ دے انسان کو ازخود اپنے کردار کو باوقار بنانے کے لئے
دوسروں کی عزت کرنی چاہیے،
انسان کی ناکامی حالات سے کم خود سے ہارنے سے زیادہ ملتی ہے۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ ہم کہہ پہلے دیتے ہیں، مگر جب حقائق سامنے آتے ہیں تو
پھر ضمیر کی عدالت میں خود کا سامنے کرنے سے بھی کتراتے ہیں اور معافی سے
بھی گریز کرتے ہین۔
|