انصاف چاہیے!!

وہ کئی روز سے لگاتار مجھے ایس ایم ایس اور کالیں کر رہی ہے۔اُس کہنا ہے کہ اُس کی حق تلفی ہوئی ہے اور وہ انصاف کی حکومت سے انصاف چاہتی ہے۔ ہمارا بھی اس بات پر اس سے اتفاق ہے کہ جس معاشرے میں میرٹ کا قتل ِ عام شروع ہو جائے تو وہاں ادارے تباہ ہوجاتے ہیں ، ہر طرف نااہل افراد کا قبضہ ہو جاتا ہے اور سارے کام ٹھیک کی بجائے غلط ہونے لگتے ہیں یا تاخیر کا سبب بنتے ہیں۔ پس میرٹ کی بالادستی سے اداروں کی کرکاردگی میں بہتری آتی ہے اور سارا نظام ٹھیک سمت گامزن ہوتا ہے۔ میں اُس کو ہر بار سمجھاتا کہ ہمارا کام صرف مسائل کو حقیقی معنوں میں اُجاگر کرنا ہوتا ہے، خامیوں کی نشان دہی کرنا ہوتی ہے، ایسا لکھنا ہوتا ہے کہ جس میں غیر جانب داری ہو اور ایسا لکھنا ہوتا ہے کہ جو جھوٹ کی ملاوٹ سے پاک ہو، کبھی کبھار ہم اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں جو ضروری نہیں ہے کہ ہمیشہ صحیح ہو کیوں کہ وہ ہماری ذاتی سوچ پر مبنی ہوتی ہے اور جب ہمارے علم میں یہ بات آجائے کہ ہماری رائے تصحیح طلب ہے تو ہم اپنی غلطی تسلیم کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اور ہم نئی سمت کا تعین کرتے ہیں ۔ میں نے بارہا اپنی قاریہ زعفرانہ کو سمجھایا کہ ہمارے ان کالم لکھنے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ ہم تو معاشرے کو ایک سوچ و فکر مہیا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں جابجا گندگی کے ڈھیر پڑے نظر آتے ہیں، اَب میونسپل کمیٹی والے ہمارے کالموں میں نشان دہی یا اخباری بیانات پر حرکت میں نہیں آتے، البتہ ہم لوگوں میں یہ شعور ضرور پیدا کرتے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے اور گندگی و غلاظت سے طرح طرح کی بیماریاں پھیلتی ہیں۔ بہر کیف میں نے اپنی قاریہ کے باربار اور روزانہ کے اصرار پر فیصلہ کیا ہے کہ میں اُن کا مسئلہ ان صفحات پر لکھوں، انہوں نے اپنا مسئلہ کچھ یوں بیان کیا۔ یاد رہے کہ زعفرانہ کا تعلق خیبرپختون خوا میں فاٹا کے ضم شدہ علاقے شمالی وزیرستان سے ہے۔ انہوں نے ابتدائی و ثانوی تعلیم خیبر پختون خوا کے انڈی پینڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ( آئی ایم یو) پراجیکٹ میں ڈیٹا کولیکشن اور مانیٹرنگ اسسٹنٹ ( ڈی سی ایم اے ) کی خالی آسامیوں کے لئے اپلائی کیا۔ یہ آسامیاں پاکستان ٹیسٹنگ سروس ( پی ٹی ایس ) کے ذریعے مشتہر کی گئیں تھیں۔ پی ٹی ایس کی جانب سے پچاس نمبرات شارٹ لسٹنگ کے لئے رکھے گئے، مردانہ آسامیوں دونوں کے لئے یہی طریقہ کار اپنایا گیا اور بعد میں زنانہ آسامیوں کے لئے اس کو تبدیل ، یعنی کم کرکے چالیس نمبر کردیا گیا۔ جواز یہ بتایا گیا کہ یہ پسماندہ علاقے ہیں اس لئے نمبروں کو پچاس سے کم کرکے چالیس کر دیئے گئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مردانہ اور زنانہ دونوں کے لئے ٹیسٹ میں کامیابی کا معیار ایک جیسا رکھا جاتا لیکن بقول میری قاریہ کہ انہوں نے یہ صرف من پسند افراد کو منتخب کرنے کے لئے کیاجو کہ سراسر ناانصافی ہے۔ دل چسپ بات یہ کہ انٹرویو کے لئے پہلے جو میرٹ لسٹ بنائی گئی ، اُس میں ٹیسٹ نمبر ، اکیڈیمیک نمبر اور تجربے کے نمبر زشامل کئے گئے تھے لیکن فائنل میرٹ لسٹ سے ٹیسٹ کے نمبروں کو حذف کیا گیا اور صرف اکیڈیمیک ، تجربے اور انٹرویو کے نمبروں پر سلیکشن کی گئی۔ ان لوگوں نے ایسا کیوں کیا ؟ اس کی وجہ کیا تھی کہ انہوں نے جانچ کا اصول باربار تبدیل کیا؟ ان سوالوں کا جواب کرپشن اور من پسند افراد کو نوازنا تھا۔ کیوں کہ اکیڈیمیک نمبر پچاس سے ساٹھ فیصد امیدواروں کے ایک جیسے تھے اور جو فرق بنتا تھا وہ ٹیسٹ کے نمبر تھے ،جن کو بیچ میں سے نکال دیا گیا تا کہ آسانی سے اپنے من پسند امیدواروں کو منتخب کیا جاسکے۔ اشتہار میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ کمپیوٹر میں مہارت رکھنے والے امیدواروں کو ترجیح دی جائے گی لیکن ایسا کچھ نظر نہیں آیا۔ میری قاریہ نے میٹرک سے ایم بی اے اور ایم اے ایجوکیشن تک تعلیم صوبہ پنجاب سے حاصل کی ہے ، اس کے علاوہ ایم اے انگلش لٹرییچر اور خیبرپختون خوا کے فنی تعلیمی بورڈ سے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ڈپلومہ کر چکی ہے۔ لہٰذا اس کی باموقع اور حسب حال قابلیتوں او ر ٹاپ ٹیسٹ سکور 53 کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا انتخاب کیا جاتا لیکن بے انصافی اس کی کامیابی کے راستے میں آڑے آئی۔ اس سلسلے میں اس نے متعلقہ حکام سے بات کی اور اپنا شکوہ بیان کیا لیکن انہیں تسلی بخش جواب نہیں ملا۔ میری قاریہ کہتی ہے کہ اسے انصاف چاہیے !! بقول شاعر۔
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے

میری محکمہ تعلیم کے اعلیٰ حکام سے گزارش ہے کہ قاریہ کے ’’انصاف چاہیے !! ‘‘ کی بات کو سنجیدہ لیں اور اس معاملے میں انہیں تمام حقائق مہیا کیے جائیں کیوں کہ وہ پاکستانی شہری ہونے کے ناطے یکساں حقوق رکھتی ہے اور اگر ناانصافی سامنے آجائے تو ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کریں اور قاریہ کے مسئلے کو حل کریں۔ کہتے ہیں کہ انصاف سزا کا نام نہیں ہے بلکہ مسئلہ حل کرنا اس کی روح ہے۔ اس ضمن میں ایک قصہ مشہور ہے۔ ملاحظہ ہو۔ عدالت میں ایک بڑھیا کو پیش کیا گیا جس پر کھیت سے سبزی چرانے کا الزام تھا۔ مدعی کی درخواست تھی کہ اگرچہ جرم بڑا نہیں ہے لیکن سزا ضرور ملنی چاہیے تاکہ دوسروں کے لئے سبق ہو۔ بڑھیا کے اعتراف جرم کے بعد جج نے دس ہزار روپے کا جرمانہ عائد کردیا اور جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں بڑھیا کو جیل کاٹنا ہو گی۔ بڑھیا نے روتے ہوئے کہا کہ اس کا بیٹا بیمار تھا اور مزدوری کے قابل نہیں تھا۔ جب کہ اس کا پوتا بھوک سے بلک رہا تھا اس لئے صرف اتنی سبزی چرائی تھی کہ ایک وقت کا کھانا ہوجائے۔ جج نے کہا۔ ’’ قانون اندھا ہوتا ہے پس جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ہاں ! البتہ جج اندھا نہیں ہوتا ، اس نے اپنی جیب سے ایک ہزار روپے نکالے اور گلاس میں ڈالے ۔ ‘‘ جج نے مزید کہا۔ ’’ یہاں موجود تمام افراد پر پانچ سو روپے فی کس جرمانہ عائد کیا جاتا ہے جو اس بات سے غافل رہے کہ ایک بچہ بھوکا تھا اور اس لئے چوری کی نوبت آئی۔ ‘‘ مدعی سمیت سب لوگوں نے خوشی خوشی جرمانہ ادا کیا ۔ اتنی رقم اکھٹی ہوئی کہ عدالت کا جرمانہ ادا ہوجانے کے بعد بڑھیا کو اچھی خاصی رقم پیش کی گئی۔
 

Prof Shoukat Ullah
About the Author: Prof Shoukat Ullah Read More Articles by Prof Shoukat Ullah: 205 Articles with 262397 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.