ڈولفن فورس کے شکاری ،عوام کے لئے وبالِ جان

ہمارے ملک میں 72برسوں سے شہنشاہیت نما نظام حکومت رہی ہے ۔شہنشاہوں کے نام اورطریقہ کار تبدیل ضرور ہوئے،مگر حکمرانی کی بنیاد ایک ہی رہی ہے کہ عوام کو غلام ابن غلام رکھنا ہے ۔عوام کی غلامی کو یقینی بنانے کے لئے ہر وہ طریقہ ،ہربہ اور نظام بنایا گیا،جس سے غلاموں کو دبانے میں تقویت ملی۔ایسے ادارے ،فورسز بنائی گئیں اور ظاہر کیا گیا کہ یہ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے اقدام اٹھایاگیا ہے ،لیکن حقیقت میں شہنشاہوں کا مقصد عوام پر خوف و ہراس پیدا کرنا رہا ہے ۔یہ شہنشاہیت فوجی اور جمہوری دور میں یکساں رہی ہے ۔فوجی ادوار میں اپنے اقتدار اور حریفوں کو نکیل ڈالنے کے لئے ادارے بنائے تو سولین نے عوام کو ہراساں کرنے کے لئے فورسز بنائیں ۔اسی طرح کی ایک فورس میاں محمد شہباز شریف نے لاہور میں بنائی ۔جس کا نام ڈولفن فورس رکھا۔میاں شہباز شریف لاہور کو پیرس بنا رہے تھے ۔ترکی گئے وہاں اس قسم کی فورس دیکھی،ان کی موٹر سائیکلیں اور وردی اچھی لگی ،انہیں ہالی ووڈ کی چند فلموں کے سین بھی یاد آ گئے ۔اب شہنشاہ کے ذہن میں جو سین سما جائے ،اس پر عملی جامہ پہنانے سے کون روک سکتا ہے ۔ایک دم سے حکم صادر ہوا اور ایک بڑے بجٹ کے ساتھ آنن فانن فورس تیار ہو گئی ۔حالانکہ اس وقت مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی خزانہ خالی ہونے کا رونا رو رہی تھی۔لیکن شہنشاہ کی خواہش کیسے رد ہو سکتی تھی ۔اربوں روپے لگا کر لاہور کی سڑکوں پر آئرن مین بنے عجیب و غریب ڈولفن بنی خلائی لباسوں میں ملبوس مہنگے ترین موٹر سائیکلوں پر سوار بے وجہ گشت کرتے نظر آنے لگے ۔کیونکہ ان کا نام ڈولفن فورس رکھا گیا ہے اور اس میں بھرتی اہلکار بھی ڈولفن کی طرح ڈبکیاں لگاتے ،سیٹیاں بجاتے اور شریر اور فلرٹ حرکات کرتے نظر آتے ہیں ۔ڈولفن فورس کے کارنامے ایسے ہیں،جنہیں سن کر دل دہل جاتے ہیں ۔انہوں نے شہریوں کی حفاظت کیا کرنی ہے ،انہیں تو عوام کو ہراساں کرنے کا لائسنس دے دیا گیا ہے ۔عوام کے ٹیکس سے ہر دواہلکاروں کے پہناوے ،ہیلمٹوں اور موٹر سائیکل پر تقریباًنصف کروڑ خرچ کیا گیا ہے ۔ان کے پاس نہایت مہنگا اور جدید اسلحہ ہوتا ہے۔لاہور میں ڈولفن فورس کے اہلکاروں کی ایسی مجرمانہ حرکتیں سامنے آئی ہیں کہ جس کی وجہ سے صوبائی دارالحکومت کے لاکھوں شہری خوف کا شکار ہو گئے ہیں ، شہریوں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ مستقبل میں ان کے ساتھ کیا ہو گا۔

ڈولفن فورس کے اہلکاروں کے مجرمانہ رویوں کی ایک لمبی فہرست ہے ۔سی آئی اے نے 2 ڈولفن اہلکاروں کو ڈاکیتی کی وارتیں کرتے ہوئے گرفتار کیا۔ان اہلکاروں کے فرائض تو یہ تھے کہ ڈاکوؤں کو پکڑا جائے۔لیکن یہ شہریوں کے محافظ بن کر انہیں لوٹتے رہے ہیں ۔انہی ڈولفن اہلکاروں نے 15سالہ لڑکی کو اٹھایا،اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی ۔جب لڑکی کے لواحقین تھانے رپورٹ درج کروانے گئے تو انہیں اہکاروں نے تھانے سے دھکے مار کر نکال دیا گیا۔اپنے پیٹی بھائیوں کی پشت پناہی کی گئی ۔یہ بات میڈیا پر بھی آئی ،فیروزوالہ تھانے کا واقع ہے،مگر کیا ہونا تھا کچھ بھی نہیں ہوا۔غلاموں کو انصاف نہیں دیا جاتا ۔ان پر صرف ظلم کے پہاڑ ڈھائے جاتے ہیں ۔ڈولفن فورس پہلی نہیں ہے بلکہ پنجاب میں ریگولر فورسز کے علاوہ متعدد فورسز قائم کی گئی ہیں ،مگر یہ تمام ناکام ہی رہی ہیں ۔کیونکہ ان فورسز کو باقاعدہ ضرورت یا پلاننگ کے تحت نہیں بنایا جاتا۔ان کے اہلکاروں کی تربیت ،اہلیت اور مثبت رویوں کو میرٹ پر نہیں پرکھا جاتا۔ڈولفن فورس ترکی نے متعارف کروائی تھی ۔اس کا نام ڈولفن اس لئے رکھا گیا کہ ڈولفن مچھلی میں اہم خوبیاں اس کی دانشمندی ،رہنمائی اور دوسروں کی خوشگوار ماحول میں امداد کرنا ہے ۔ڈولفن وہ جانور ہے جو اپنے ماحول سے دوسرے ماحول میں جلدی ایڈجسٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔یہ جانور ہونے کے باوجود محافظ کے طور پر اپنا کردار ادا کرتی ہے ۔ڈولفن فورس کو بنانے کا اصل آئیڈیا یہی تھا کہ پنجاب پولیس پر عائد نا اہلی ،بدعنوانی ،کاہلی وسستی اور فرائض سے غفلت برتنے کی چھاپ کو دھونا تھا۔اس کی کارکردگی سے حوصلہ افزا اور عوام دوست نتائج کو سامنے لانا مقصود تھاتاکہ پولیس اپنی ساکھ ،عزت اور وقار کو بحال کر سکے ۔دہشت گردی ،ملک دشمن ،عوامی و قومی مفادات کو نقصان پہنچانے والوں سے نبردآزما ہو سکے۔

ڈولفن فورس نے عوام اور ان کے بنانے والوں کو مکمل طور پر مایوس کیا ہے ۔انہوں نے روایتی پولیس والوں سے بھی دو ہاتھ آگے جا کر عام شہریوں کو تلاشی کے بہانے انتہائی تذلیل اور مضحکہ خیز انداز میں تلاشی لی جاتی ہے۔شہریوں کو گھٹنوں کے بل زمین پر بٹھایا جاتا ہے اور پھر ان کے منہ ،بازوں اور دیگر جگہوں کی تلاشی لی جاتی ہے ۔یہ جسے چاہتے ہیں گولیوں سے چھلنی کر دیتے ہیں ۔ایک پاگل شخص کو گولی مار دی گئی ، کیونکہ وہ ایک ایسی چھری سے لوگوں کو ڈرا رہا تھا ،جس سے شاید سیب بھی نہیں کٹ سکتے تھے ۔محلے داروں کے چیخنے چلانے کے باوجود کہ یہ شخص پاگل ہے اسے مار دیا گیا ۔

یہ نا تجربہ کار فورس ہے ،اکثر جوانوں کو SOP کا ہی اندازہ نہیں ہے ۔انہیں واضح نہیں ہوتا کہ انہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے ۔عوام تو غلام ہیں انہیں تو بتانا ضروری ہی نہیں سمجھا جاتا کہ متعلقہ فورسز ان کے لیے کیا کر سکتی ہیں اور کیا ان کی حدود میں نہیں ہیں۔ان فورسز کی ناکامی کی وجہ بھی یہی ہے کہ اپنے اصل فرائض کو بھول کر نوجوان جوڑوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ۔لڑکیوں کی مدد کرنا،کوٹھیوں کے سامنے منڈلی سجا کر ناکے لگانا ۔کسی بچے کی موٹر سائیکل کی پلیٹ درست نہ لگی ہو اسے ہراساں کرنا ۔بچوں سے بداخلاقی اوران کی تذلیل کرنا۔جب والدین بات کریں تو ان سے بدتمیزی کرنا ڈولفن فورس اہلکاروں کا معمول ہے ۔

چند دنوں قبل ہمارے ایک انتہائی محترم دوست کے بچے اپنی موٹر سائیکل پر سٹور سے چند چیزیں خرید کر گلی میں جارہے تھے کہ چار ڈولفن اہلکاروں نے پکڑ لیا۔بچوں کے ساتھ انتہائی بیہودگی سے پیش آئے ۔بچوں نے والد کے ساتھ فون پر بات کروانے کی کوشش کی ،مگر وہ بچوں کے والد سے بات کرنا دور گالیاں دینا شروع ہو گئے۔گھر کا پتہ بتایا کہ وہ سامنے گلی میں ہمارا گھر ہے ۔لیکن بچوں اور موٹر سائیکل کو تھانے لے جایا گیا ،وہاں بتایا یہ گیا کہ سامنے والی نمبر پلیٹ درست طریقے سے نہیں لگی تھی۔اسی طرح علامہ اقبال ٹاؤن سے صبح پانچ بجے طالبہ اور اس کا بھائی یونیورسٹی جانے کے لئے رکشے پر نکلے کہ ڈولفن موٹر سائیکل والوں نے روک لیا اور اصرار کرنے لگے کہ دونوں گھر سے بھاگ رہے ہو۔دونوں نے شناختی کارڈ دکھائے جس پر والد ایک تھا ،بھائی نے بتایا کہ بہن نے یونیورسٹی ٹور پر جانا ہے اسے چھوڑنے جا رہا ہوں ،مگر اہلکاروں کا مؤقف وہی رہا اور آخر منت سماجت کے بعد جان چھڑوائی۔ڈولفن کی لوگ شکایت نہیں کرتے۔کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ مدعی کے بجائے ملزم کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے ۔

ایس پی ڈولفن بلال ظفر کا کہنا تھا کہ ڈولفن پولیس کی مشتعل ہونے کی شکایات باقاعدگی سے موصول ہو رہی ہیں ،اس لئے انہیں ذہنی تناؤ اور حالات سے پر امن رہ کر مقابلہ کرنے کے لئے نفسیاتی کورس کروا رہے ہیں ۔اگر ڈولفن فورس کے اہلکار اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ انہیں نفسیاتی ڈاکٹرز کی ضرورت ہے تو یہ شہریوں کہ لئے انتہائی خطرہ ہے ۔

یہ ذمہ داری کیپٹن (ر) عارف نواز خان آئی جی پنجاب کی بنتی ہے کہ ایسی فورس جسے نفسیاتی معاملات درپیش ہوں ۔اسے عوام کی حفاظت کے لئے جدید اسلحہ کے ساتھ کھلی چھٹی دے دی جائے تو نتائج کیا سامنے آئیں گے ․․؟عوام کے ٹیکس کے اربوں روپے استعمال کرنے والی ڈولفن فورس کو عوام سے اخلاقیات کے دائرے میں کام کرنے کا پابند بنایا جائے ۔ان کے اختیارات عوام کے سامنے واضح کئے جائیں ۔اگر ان اہلکاروں میں سے کوئی بھی اپنی حدود سے تجاوز کرتا ہے اس پر محکمانہ کارروائی کو یقینی بنایا جائے ۔ورنہ ایسی فورس کو ختم کر کے ملکی خزانے کے اربوں روپے بچائے جائیں ۔

پاکستان میں کسی کو کوئی اختیارات ملتے ہیں تو وہ دوسروں کو کیڑے مکوڑے سمجھنا شروع کر دیتا ہے ۔ان کی عزت نفس سے کھیلنا اور دوسروں کے کام میں ٹانگ اڑانا معمول بن جاتا ہے ۔یہ کلچر ہمارے قومی مزاج کا حصہ بنتا جا رہا ہے ۔اس کلچر کا خاتمہ کرنا بہت ضروری ہے ۔

 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95128 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.