انسانی تاریخ میں آزادی کا تصور‘ آزادی کا حصول‘ آزادی سے
رہنے کی خواہش‘ آزادی کے تحفظ اور آزادی کی قیمت کی ادائیگی نہایت کلیدی
اور بنیادی حیثیت کا حامل رہا ہے۔ انسان کی فطرت میں ہی آزاد رہنے اور زمین
پر سکون اور خود مختاری کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی خواہش بہت شدت سے رکھ دی
گئی ہے جس کی وجہ انسان کی اولین خواہش ہوتی ہے کہ اپنے انفرادی امور میں
بالخصوص اور اجتماعی امور میں بالعموم آزاد رہے اور اس کی آزادی ہر قسم کی
خطرات سے پاک ہو۔ آزادی کے حصول کے لیے انسانوں نے انفرادی کوششیں کی ہیں
اور جاری رکھی ہوئی ہیں جبکہ انسانوں نے جب سے معاشرے تشکیل دینے کا سلسلہ
شروع کیا ہے تب سے اپنے گھر سے لے کر خاندان تک‘ خاندان سے لے کر قوم قبیلے
تک‘ قبیلے سے لے کر خاص علاقے تک‘ خاص علاقے سے لے کر خطے اورملک تک آزادی
کے لیے کوشاں و سرگرم رہا ہے۔
آزادی کی اس کوشش ٗ جنگ میں انسانوں نے ہی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے
جنگوں اور قبضوں کا راستہ اختیار کیاہے۔ ابتدائی زمانے میں طاقت کی بنیاد
پر اپنی آزادی برقرار رکھنے اور دوسروں کی آزادیاں سلب کرنے کا سلسلہ شروع
ہوا۔ ایک طبقے نے اپنی آزادی کے دفاع میں دوسرے فریق کا مقابلہ کیا جبکہ
دوسرے فریق نے پہلے فریق کو اپنا غلام اور ماتحت رکھنے اور اپنی آزاد سلطنت
کی توسیع کے لیے چڑھائی کی۔ اس تصادم میں جہاں ایک فریق کی آزادی سلب ہوکر
غلامی میں تبدیل ہوئی وہاں باہمی مقابلہ اور قتل و غارت کے نتیجے میں
لاکھوں لوگوں نے اپنی جان سے ہاتھ دھوئے اور لاکھوں اموال کے نقصانات اور
خسارے کا سامنا بھی کرنا پڑا۔کسی قوم کے لئے اپنے آزاد و خودمختار وطن کی
تشکیل سے بڑی خوشی تو اور کوئی نہیں ہو سکتی اس لئے تشکیلِ وطن والا دن
منانا اور تزک و احتشام سے منانا ایک طرح سے وطن کے تحفظ و دفاع اور
استحکام کے لئے تجدید عہد کی صورت میں اور زیادہ ضروری ہو جاتا ہے۔ اس روز
جہاں ملکی اور قومی تعمیر و ترقی کے تقاضوں کو اجاگر کرنے میں مدد ملتی ہے
وہیں قومی قائدین کے جاری کئے گئے مشن پر چلنے اور اسے برقرار رکھنے کے لئے
قوم میں نیا جذبہ بھی فروغ پاتا ہے۔ ہمارے لئے تو جشن آزادی کو پورے قومی
جوش و جذبے سے منانے کی اس لئے بھی ضرورت ہے کہ ہمارا ازلی مکار دشمن
بھارت، جس کے بطن سے زمین کا ٹکڑا الگ کر کے تشکیل پاکستان کو ممکن بنایا
گیا تھا، اپنی اس ہزیمت، ناکامی اور بربادی کا انتقام لینے کے لئے شروع دن
سے پھنکارے مارتا، پیچ و تاب کھاتا اور اپنے سازشی جال پھیلاتا نظر آتا ہے،
ایسے دشمن کی موجودگی میں ملک کی سلامتی و دفاع کے تقاضوں کو ہمہ وقت پیش
نظر رکھنا ہمارے لئے محض ضروری نہیں، ہماری اولین ذمہ داریوں میں بھی شامل
ہے۔موجودہ زمانے میں دشمن ہم پر مختلف طریقوں سے حملہ آور ہے، ایک حملہ تو
براہ راست جنگی حملہ ہے جو مقبوضہ کشمیر کی صورت میں ہے جبکہ دوسرا حملہ جو
کہ دراصل بڑا اور سنگین حملہ ہے وہ دشمن کی طرف سے ہماری ثقافت اور حریت
پسندی پر حملہ ہے کہ جس کو نت نئے انداز اور بہانوں سے بروئے کار لایا جا
رہا ہے۔ ہمیں ایک امت ایک پاکستانی سے ایک علاقہ ٗ محلہ ٗ قوم قبیکلہ ٗ
لسانی تفرقوں میں ڈال دیا گیا جس سے شیرازہ ِ امت بکھر رہا ۔ ایسے حالات
میں ہمیں یخ بستہ بند کمروں میں کسی محدود، مختصر سی تقریب کا اہتمام کر کے
جشن آزادی منانے کی روایت پوری کر لینی کافی نہیں۔بلکہ وقت کا تقاضہ ہے کہ
ہر قومی تہوار اور بانیان پاکستان کے دن قومی جوش و جذبے سے منانے اور نئی
نسل کو قیام پاکستان کے مقاصد کے ساتھ منسلک رکھنے کا فریضہ سنبھالنا ہو
گا۔ یہ وطن کسی نے طشتری میں رکھ کر نہیں دیا۔اس کے حصول کے لیے ہمارے ابا
و اجداد کی لازوال قربانیاں ٗ ماوں بہنوں کی عصمتیں ٗ آبروریزی شہدا کا لہو
شامل ہے۔ہمیں آزادی کی قدر جاننے کے علاوہ اس وطن کے حصول کے بنیادی مقصد
سے نسل نو کا شعود بیدار کرنا ہوگا ۔ قائد اعظم نے واشگاف الفاظ میں
کہا:ہمارے پیش ِ نظر ایک ایسی آزاد اور خود مختار ریاست کا قیام ہے جس میں
مسلمان اپنے دین کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں ٗ پھر 114خطابات ٗ
تقاریروں میں واضح پیغام دیا کہ ـــ ملک کا آئین و دستور قرآن و سنت کے
تابع ہوگا ٗ جب قائد ِ اعظم سے دستور وآئین کے متعلقہ استفسار کیا گیا تو
سنہری حروف سے لکھے جانے والے الفاظ میں جواب دیا : ہمارا دستور وہی ہے جو
قرآن کی شکل میں اﷲ تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل ہمیں عطا فرمایا، یہ ایک
زمین کا ٹکڑا نہیں بلکہ اسلامی تجربہ گاہ ہے ، جہاں ہم اسلام کو نظام ِ
زندگی کے طور پر اپنا سکیں گے اور اپنی زندگیاں قرآن وسنت کے مطابق گزاریں
گے۔ یہ ہے مقصدِ پاکستان ہے۔ ہمیں آزادی کی قدر کے ساتھ اس وطن سے وفاء
کرنی چاہیے۔ اگر آزادی کی قدر جاننی ہے تو وادی کشمیر کے ان بہن بھائیوں سے
پوچھ لیں جو مکار دشمن کے غاصبانہ قبضہ نے کتنے گھر اجاڑے دیے کتنی ماوں
بہنوں کی عزتیں تار تار ہو رہی ٗ کتنے بچے بینائی سے ہاتھ دھو بیٹھے ٗ کتنے
بوڑھے بے سہار ا کر دئیے گئے ۔ ان کی زیست کس قدر کرب ناک ہے ۔ ہم آزادی سے
سانس لینے کے باوجود بے قدعی کر رہے۔ یہ وطن اسلامی نظریہ کی بنیاد پر معرض
وجود میں آیا لیکن آج جشن آزادی کے موقع پر ہمیں سوچنا چاہیے کہ 72سالوں
میں ہم نے وطن کو کیا دِیا: کمر توڑ مہنگائی جس نے غریبوں سے جینے کا حق
چھین لیا،ضروریات زندگی نصف آبادی کو میسر نہیں ٗ بے روزگاری کا عفریت ٗ
لوڈشیڈنگ ٗ تعلیم،ہسپتال،ٹریفک نظام،ٹریفک قانون بنیادی حقوق جن کیلیے عوام
ترس رہے ٗ ان مسائل سے ہمارے اخبار بھر ے۔اور دوسری طرف منی لانڈرنگ
تجاوزات ٗ رشوت خوری، چوربازاری اور اقرباء پر وریٗ ٗ ملکی وسائل کا غیر
ضروری استعمال ٗ بیرونی قرضے ٗ قتل و غارت ٗ لا قانونیت جیسے بڑے مسائل میں
ملک کو دھکیل دیا۔ حالانکہ اﷲ پاک نے پاکستان کو اپنی بے شمار نعمتوں سے
نوازا ہے یہاں، وسیع میدان،پہاڑ،سمندر،صحرا،جنگل ہیں۔چاروں موسم ہیں،
پاکستان کی جغرافیائی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں یہ ایک ایٹمی ملک ہے، اس
میں نمک کی دوسری بڑی کان،دُنیا کی پانچویں بڑی سونے کی کان،تانبے کی
ساتویں، دنیا کا دوسرا بڑا ڈیم، اور پیداوار کے لحاظ سے کپاس،چاول،آم،مٹر
خوبانی گنا میں خود کفیل اور دُنیا میں دوسرے،تیسرے،چوتھے نمبر پر۔پاکستان
دُنیا میں زرعی پیداوار کے لحاظ سے 25 ویں اور صنعتی لحاظ سے 55ویں نمبر پر
ہے۔پاکستان میں گیس کے وسیع ذخائر ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی کے لیے
زرعی،صنعتی،معدنی اورافرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔یہ ساری نعمتیں اﷲ نے
پاکستان کو دی ہیں۔ ان سے خاطر خواہ فائدہ ہم نے نہیں اٹھایا۔ملک مسائل کی
آگ میں پھنسا ہوا ہے۔چین،جاپان،اسرائیل، بھارت،فرانس ہمارے ساتھ ہی آزاد
ہوئے،ان کی دُنیا میں اہمیت دیکھ لیں ترقی دیکھ لیں ہمارے ہاں ترقی معکوس
کا سفر جاری ہے،کیا ہم جشن آزادی منانے کا حق رکھتے ہیں؟جہا ں چوری، ڈاکہ
اور قتل و غارت عام ہو دہشت گردی کا راج ہو،ہم کو سوچنا چاہیے اس سے بڑی
اور کیا اذیت ہو گی کہ قیام پاکستان کے مقصد یعنی اسلامی نظام کے نفاذ کو
کو ہی ہم بھول گے۔
جشن آزادی ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ اپنی مٹی سے وفا کریں ذاتی مفاد سے ملکی
مفاد کو مقدم رکھیں ۔مسائل کا حل ہماری ذمہ داری ہے۔جب ہمیں اپنی ذمہ داری
کا کماحقہ احساس ہو گا تودشمن کے ناپاک عزائم خاک میں مل جائیں گے۔ ہم ایک
با صلاحیت قوم ہیں جو دشمن کی تمام تر سازشوں کو ناکام کرنے کی بھرپور
صلاحیت رکھتی ہے اور انشاء اﷲ پاکستان کا72 یوم آزادی ہمیشہ سے زیادہ جوش
وخروش اور ولولہ و عقیدت و احترام سے منایا جائے گا۔ اور ملک بھر میں سبز
ہلالی پرچم کی بہاروں کے ساتھ ساتھ مقبوضہ وادی کی آزادی کا سورج بھی جلد
طلوح ہو گا۔، یہی حب الوطنی اور وطن سے محبت اور وفا کا پیغام ہے۔ جس سے
دشمن ہمارا ناکام و نامراد ہے اور رہے گا۔ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا
ہے۔پاکستان زندہ باد ۔ اگر ہم نے وطن سے وفاء کو اپنا شعار نہ بنایا وطن کی
خاطر ایک امت نہ بنے ۔ یوں ہی قبیلہ ٗ علاقہ ٗ لسانی و دیگر تفرقوں میں
منقسم ہو کر ایک دوسرے کے دست و گریبان رہے تو ہماری اس قومی بے حسی کے
ماحول میں تو ہمارے دشمن کو ہمیں ختم کرنے کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے کسی
لمبی چوڑی حربی تیاری کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اگر یہ بے حسی کسی قومی
سطح کی سازش کا شاخسانہ ہے تو قوم آج پورے جوش وجذبے سے جشن آزادی سے منا
کر اس سازش کو ناکام بنا دے ورنہ یہ سازش ہمارے دامن کو آگ لگا کر ہی چھوڑے
گی۔
|