ایک میاں بیوی ایک کاؤنسلر کے پاس گئے۔
ان کا آپس میں شدید جھگڑا چل رہا تھا۔
وہ ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے کے بھی روا دار نہیں تھے۔
انہوں نے سوچا کہ لوگوں کے مشورے پر عمل درآمد کیا جائے اور تھوڑی سی
تھیراپی کروا لی جائے۔
جب وہ دونوں آفس میں داخل ہوئے تو کاؤنسلر نے دونوں کے چہرے پر سخت کشیدگی
دیکھی۔ اس نے ان دونوں کو بیٹھنے کے لیے بولا۔
جب وہ بیٹھ گئے تو اس نے بولا کہ اب آپ بتائیں کہ آپ کو کیا مسئلہ ہے؟
تو وہ دونوں یکدم بولنا شروع ہو گئے اور ایک سانس میں ایک دوسرے پر تنقید
کے پہاڑ ڈال دیے۔
دونوں اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھے۔
کاؤنسلر نے ان دونوں کو اپنے دل کی بھڑاس نکالنے دی اور چپ کر کے ان کی
لڑائی ختم ہونے کا انتظار کرنے لگی۔
جب دونوں بول بول کر تنگ آگئے تو کاؤنسلر نے انہیں بولا کہ اچھا یہ تو
لڑائی اور خامیوں والی کہانی ہو گئی اب ایک دوسرے کی خوبیاں بیان کرو۔
تم دونوں کو ایک دوسرے میں کیا کیا باتیں پسند ہیں؟
دونوں بالکل خاموش ہو گئے۔
بہت دیر تک دونوں نے کچھ نہیں بولا۔
کاؤنسلر سمجھ گئی کہ ان کو ایک دوسرے پر اتنا شدید غصہ ہے کہ ایک دوسرے کی
کوئی اچھی بات یاد ہی نہیں ہے اور نہ ہی وہ یاد کرنا چاہتے تھے۔
کاؤنسلر نے ایک ایک کاغذ اور پین دونوں کو تھما دیے اور میاں بیوی کو بولا
کہ اپنے اپنے کاغذ پر ایک دوسرے کی خوبیاں تحریر کرو۔
ایک دفعہ پھر بہت دیر دونوں نے کچھ بھی نہ لکھا اور غصہ ان کے چہروں پر
عیاں تھا۔
بہت دیر کے بعد خاوند نے جیسے ہی اپنے کاغذ پر کچھ لکھنا شروع کیا تو ایک
دم ہی اس کی بیگم بھی تیز تیز اپنے کاغذ پر کچھ لکھنے لگ گئی۔
لگ رہا تھا کہ ابھی بھی دونوں مقابلے پر اپنا اپنا کاغذ بھرنے بیٹھ گئے
تھے۔
جب انہوں نے لکھ لیا تو، بیوی نے اپنا کاغذ کاؤنسلر کو تھمایا۔
اس نے اسے واپس کرتے ہوئے بولا کہ اسے اپنے شوہر کو دو۔
وہ خود ہی پڑھے گا۔
بیوی نے اسے دے دیا اور اس کا کاغذ لے لیا۔
دونوں نے پڑھنا شروع کیا اور تھوڑی دیر بعد بیوی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو
گئے۔
وہ دونوں ایک دوسرے کی تعریفیں پڑھ کر بہت خوش ہوئے۔
کمرے کی فضا ایک دم تبدیل ہو گئی تھی۔
ایسے لگ رہا تھا جیسے ان دونوں کی کبھی لڑائی ہی نہ ہوئی ہو۔
کاؤنسلر کا فرض پورا ہو چکا تھا۔
وہ دونوں جیسے لڑتے بھڑتے اندر داخل ہوئے تھے ویسے ہی ہنستے مسکراتے بانہوں
میں بانہیں ڈالے کمرے سے نکل رہے تھے۔
ہر انسان بہت سی خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔
اگر ہم دوسروں کے عیب تلاش کرنے لگیں تو ان کی اور اپنی زندگی عذاب بنا
لیتے ہیں اور اگر ہم ہر ایک کی خوبیوں کو اپنی توجہ کا مرکز بنا لیں تو
اپنی اور دوسروں کی زندگی آسان بنا دیتے ہیں۔
فیصلہ آپ لوگوں کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
|