ہمارا آج کا تعلیمی نظام روٹی کمانا تو سکھاتا ہے لیکن
زندگی گزارنے کا ڈھنگ نہیں سکھاتا، نصاب میں اخلاقیات اوزندگی گزارنے کے
طریقوں کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی، اس دور کے تعلیمی اداروں میں فکر اور
شعور کی تعلیم نہیں دی جارہی، سب کے ذہن ایک مخصوص سوچ کے ساتھ جکڑے ہوئے
ہیں، یہاں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ جاری ہے، کسی کا مقصد تعلیم
حاصل کرنا’’ قابل بننا‘‘ نہیں بلکہ نام نہاد’’ ڈگریاں‘‘ حاصل کرنا ہے،مجھے
گزشتہ ہفتے اپنے بزرگ اور ماہر تعلیم جناب راجہ امیر افضل کے ساتھ ان کے
اسکول ’’اسلام آباد لائسیم ‘‘ جانے کا اتفاق ہوا ،کمال کی بلڈنگ ،ہوا دار
اے سی کمرے،دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا اہتمام ،تعلیم کے ساتھ
ساتھ تربیت بھی جو بہت کم سکولز میں میسر ہے ،دل خوش ہوا کہ کوئی تو ہے جو
اس دنیا میں بھی اپنے اصولوں پر قائم ہے ،اور تعلیم کو پیشہ نہیں
بنایا،راجہ امیر افضل نے بتایا کہ اس بار میٹرک کے نتائج میں تمام طالب
علموں نے اے پلس گریڈ حاصل کیا ہے جو کہ قابل ستائش ہے ،جب کہ دوسری طرف سب
سے بڑا مسئلہ نجی اور سرکاری تعلیمی سیکٹر کے درمیان عدم مساوات کا ہے،
گزشتہ چند برسوں کے دوران نجی تعلیمی اداروں میں بہت اضافہ ہوا ہے، سرکاری
اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں سے زیادہ علم نجی اسکولوں میں پڑھنے والے بچے
رکھتے ہیں، سرکاری تعلیمی اداروں کا حال یہ ہو چکا ہے کہ وہاں ایک کمرے میں
اتنے طلباء ہوتے ہیں کہ بچے پیچھے بیٹھ نے والے طالب علموں کو استاد نظر ہی
نہیں آتے، اساتذہ کی تعداد بھی کم ہے، جن میں سے شاذو نادر ہی کوئی
باقائدگی سے کلاسیں لیتے ہیں، ایک استاد پر بیک وقت سو سے ڈیڑھ سو طلباء کو
پڑھانے کی ذمہ داری ہوتی ہے، اس کے علاوہ ٹیکنیکل تعلیم کی طرف بھی توجہ
نہیں دی جاتی، طالب علموں کو اس سے بہت دور رکھا جاتا ہے، تعلیمی فنڈز اور
بجٹ کم ہیں، اساتذہ کو بنیادی ٹریننگ نہیں دی جاتی، یہ تمام عناصر شرح
خواندگی بڑھانے کی راہ میں حائل ہیں، تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے سب
سے اہم بات یہ ہے کہ ملک میں یکساں تعلیمی نظام رائج کیا جائے، چاہئے امراء
کے بچے ہوں، حکمرانوں کے یا غرباء کے سب کو ایک ہی معیار کا نصاب پڑھایا
جائے، ہر سطح پر ٹیکنیکل تعلیم کو لاگو کیا جائے، مدارس کے نصاب میں
انگریزی اور دیگر سائنسی مضامین کو بھی شامل کیا جائے کیوں کہ، مدارس سے
فارغ التحصیل ہونے والے زیادہ تر طلباء کی قرآن و حدیث پر تو گرفت مضبوط
ہوتی ہے، لیکن وہ انگریزی اور دیگر علوم کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں، جس کی
وجہ سے وہ زمانے کا مقابلہ نہیں کر پاتے اور ملازمت حاصل کرنے سے محروم
رہتے ہیں، اس نظام میں سائنس و ٹیکنالوجی، انگریزی اور کمپیوٹر کی تعلیم
ضرور ہونی چاہیے، اس کے ساتھ اساتذہ کے لیے ورکشاپس کا انعقاد ہونا چاہیے
تاکہ ان کی بھی تربیت ہو، وہ بھی جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں اور سب سے
ضروری بات یہ کہ اس طرح کی پالیسیاں صرف بنائی ہی نہیں جانی چاہیں بلکہ ان
پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنانا چاہیے، اگر تعلیمی نظام متوازن ہوجائے تو
اس ملک ہر نوجوان کا مستقبل روشن ہوگا اور ہمارا ملک بھی ترقی کی منازل
تیزی سے طے کرے گا،’’میں کم و بیش ہندوستان (تقسیم ہند سے پہلے) کے ہر حصے
کا سفر کر چکا ہوں، میں نے وہاں کوئی فقیر، کوئی چور نہیں دیکھا، اس ملک
میں ایسی دولت، ایسی اعلیٰ اقدار اور ایسے قابل لوگ دیکھے ہیں کہ میرا نہیں
خیال کہ ہم انہیں کبھی فتح کر سکیں گے۔ جب تک کہ ہم ان کی ریڑھ کی ہڈی (ان
کا روحانی و ثقافتی ورثہ) نہ توڑ دیں۔ چناچہ میں ان کے پرانے نظام تعلیم
اور کلچر کو ختم کرنے کی تجویز پیش کرتا ہوں۔ اس لیے کہ اگر ہندوستانی یہ
سمجھ لیتے ہیں کہ یہ غیر ملکی نظام اور انگریزی ان کے اپنے نظام سے بہتر ہے
تو وہ اپنی خود اعتمادی اور کلچر سب بھول جائیں گے، اور وہی کچھ بن جائیں
گے جو ہم چاہتے ہیں،یونی خالصتاً ایک مغلوب قوم‘‘یہ وہ بیان ہے جو لارڈ
میکالے نے برطانوی پارلیمان میں دیا تھا، جو تاریخ کا حصہ بن گیا، اس کی
بات بالکل درست تھی، انگریز کے ہندوستان پر قبضے سے قبل ہمارے عظیم الشان
تعلیمی نظام کی تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیسا جامع نظام اور
کیسی عظیم اقدار و روایات تھیں جنہیں انگریز سامراج نے ختم کر دیا،دوسری
طرف ایک برطانوی اخبار کی بڑی دلخراش رپورٹ سامنے آئی ہے، پاکستان کے پوش
علاقوں کے چمکتے شیشوں کے دروازوں کے پیچھے کم عمر غریب بچے نوکریاں کر رہے
ہیں، ایک اندازے کے مطابق ان کی تعداد 2لاکھ 64ہزار ہے جن کے ساتھ آجروں کی
بدسلوکی کے واقعات عام ہیں، ایسے واقعات سامنے آنے اور وائرل ہونے پر عوام
میں غم و غصے کی بڑھتی لہر بے جا نہیں، اس لئے کہ ایسے لوگوں کو قانون کی
گرفت میں آنے کے باوجود سخت سزا نہیں ملتی، سخت سزا کا نہ ملنا قانونی سقم
کا مظہر ہی قرار پائے گا، یہ بھی حیران کن امر ہے کہ گھریلو ملازمین کے
تحفظ کے لئے پنجاب میں ایک قانون موجود ہے، دوسرے صوبوں میں نہیں، چہرے پہ
داغ لگ جائے تو اسے دھونا چاہئے، آئینے پر تھوکنا سودمند نہیں ہوتا، چائلڈ
لیبر اور بالخصوص گھریلو کاموں کے لئے بچوں کو ملازم رکھنا ہمارے معاشرے کے
چہرے پر کسی داغ سے کم نہیں، برطانوی اخبار کی رپورٹ کو البتہ من و عن درست
بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ اول تو جوان ملازمین کی تعداد غالباً
زیادہ ہے، دوسرے یہ کہ جو تعداد رپورٹ میں ظاہر کی گئی ہے، قابل اعتبار
نہیں، اس امر سے بہرکیف انکار نہیں کیا جا سکتا کہ زیادہ تر لوگ نو عمر
بچوں کو ملازم رکھتے ہیں کہ انہیں کنٹرول کرنا اور ان کا استحصال آسان ہوتا
ہے، غربت اتنی ہے کہ والدین چند سو روپے کے عوض اپنے بچوں کو ملازم رکھوا
دیتے ہیں جہاں انہیں صرف دو وقت کا کھانا ملتا رہتا ہے، غربت بڑھتی رہی تو
یہ سلسلہ بھی جاری رہے گا اور آبادی میں اضافہ مزید ابتری کا باعث بنے گا،
پنجاب حکومت کی طرف سے ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ منظور کر کے چائلڈ لیبر کی حوصلہ
شکنی احسن امر ہے لیکن کافی نہیں، اس کیلئے جامع حکمت عملی وضع کرنا پڑے گی،
متبادل نہ ہو تو انسان حالات سے سمجھوتا کر ہی لیتا ہے خواہ وہ کتنے ہی
بیرحم کیوں نہ ہوں، ہمیں قانون سازی اور متبادل کی تلاش کا فریضہ بیک وقت
سرانجام دینا ہوگا،ہر سیاسی جماعت ہر طبقے کی نمائندگی کی دعویدار ہے،طلباء
اور نوجوانوں کی نمائندگی کرنے سے متعلق بیانات کی کمی نہیں ذوالفقار علی
بھٹو کے جیالے نواز شریف کے جانثار،جماعت اسلامی کے جانباز، ایم کیو ایم کا
ہراول دستہ،اور عمران خان کے سپاہی سب نوجوانوں کو مائل کرنے اور اپنی
سیاست کو قومی دھارے سے جوڑنے کے طریقے ہیں ،حقیقت میں متاثر نوجوان کسی
سیاسی جماعت میں مطمئن نہیں ہے۔۔۔جوانی کے جوش اور تبدیلی کے ولولے کے تحت
یا شخصیت سے متاثر ہو کر وہ سر توڑ کام تو کرتا ہے مگر آخر میں اسکے ہاتھ
ثمر سے خالی ہی رہتے ہیں ۔۔۔اس کی وجہ تمام سیاسی جماعتوں پر طاقت اور
مفادپرست گروہوں کا قبضہ ہے جو ووٹ اور نوٹ کے ذریعے فیصلہ سازی پر قبضہ کر
لیتے ہیں اور پھر جوان خون کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔۔ان کے
لیے نوجوان وہ مزدور رہے جو اپنی کمر پر پتھر لاد کر ان کے لیے طاقت کے
اہرام بنانے کے لیے کارآمد ہے،نوجوانوں کو خواب دیکھا کے ان کو سبز باغ کی
نوید دے کر یہ سیاسی دھڑے باز اپنا کام نکالتے ہیں اور پھر ان مزدورں کو
آدھے راستے چھوڑکر آگے نکل جاتے ہیں۔۔۔ اب پھر بلدیاتی الیکشن کاتیسرا موسم
آن پہنچا ہے،ہرطرف نوجوانوں کی مانگ بڑھ گئی ہے تحریک انصاف ہو یا نواز
لیگ،پیپلز پارٹی ،ہو یا جماعت اسلامی، جمیت علماء اسلام کے مدارس کے طالب
علم ہوں یا عوامی نیشنل پارٹی کے جوان ساز قوم پرست،ہر کوئی جوانوں کو
میدان میں دھکیل رہا ہے مگر قیادت ابھی بھی بوڑھے طوطوں اور عمر رسید
گھوڑوں کے ہاتھوں میں لگتا ہے کہ اس مرتبہ بھی سوار پرانے ہی ہو گئے اور
کاٹھی جوانوں پر کسی جائے گی۔۔۔۔؟ گاڑیوں کے آگے پپچھے بھاگ کر کباب تکوں
کا آاڈر لینے والے بچے ،گھروں میں ٹیوشن پڑھا کر خرچہ چلانے والے،نوجوان ،کسی
پرائیوایٹ فرم میں سیلز مین کی ملازمت کرنے والیافراد ،دیہاڑی پر کام کرنے
والے مزدور یا تنور پر روٹیاں لگانے والے محنت کش ۔۔۔۔یہ اور اس طرح کے
کروڑوں لوگ اس ملک میں روزانہ صبح اپنے گھروں سے نکلتے ہیں ،اپنے گھر کا
خرچہ چلانے کے لئے خون جلاتے ہیں آندھی ہو یا طوفان یہ لوگ کسی قسم کی چھٹی
افورڈ نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ چھٹی کریں گے توزندگی سے ہی چھٹی کر سکتے
ہیں یہ بیمار ہونے کی عیاشی بھی نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ ان کی جیب انہیں
نزلہ،زکام سے زیادہ کسی بیماری کی اجازت نہیں دیتی۔۔۔۔کیونکہ جس دن ان کے
جسم میں توانائی نہیں رہے گی اس دن ان کا مالک کھڑے کھڑے ان کو نوکری سے
نکال دے گا۔۔۔۔؟جس دن انہیں دیہاڑی نہیں ملے گی یا یہ کسی بیماری کی وجہ سے
کام کرنے کے قابل نہیں رہیں گئے اس دن ان سے کوئی نہیں پوچھے گا کہ تیرا
گزا بسر کیسے ہو گا۔۔۔۔؟تیری بیماری کا خرچہ کون اٹھائے گا۔۔۔؟ان باتوں سے
ملک کے حکمران اور سیاسی جماعتوں کو سروکار نہ ہے ۔۔۔عوام کو ان مفاد پرست
سیاسی جماعتوں کو اپنے ’’ووٹ‘‘ سے احتساب کرنا ہو گا،اور یہی انقلاب ہو گا،
ہمارا نظامِ تعلیم۔۔۔۔۔۔۔ |