مسلمان ہو یا کافر ، مرنا ہر ایک نے ہے۔ موت ایک ایسی اٹل
حقیقت ہے کہ منکر پر بھی طاری ہو کر رہتی ہے۔ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ
انسان دنیا میں جو بوئے گا ، وہ آخرت میں کاٹے گا۔ جیسا کہ خود حضور صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔" جس طرح بد اعمالی سے
آخرت کی بربادی یقینی ہے،ویسے ہی معصیت کا انسانی زندگی پر بھی برا اثر
پڑتا ہے، یہ کہ کر بات آئی گئی نہیں کی جاسکتی کہ "جو ہوگا آخرت میں دیکھ
لیں گے"، بلکہ بہت سی چیزیں اپنی بد اعمالیوں کے سبب دنیا میں ہی ،حالت
بیداری میں، عقل و شعور کے ساتھ دیکھنی پڑ جاتی ہیں۔پھر بھی اگر کوئی انکار
پر مصر ہو کہ معصیت کا زندگی پر کچھ اثر نہیں، یہ معاملہ آخرت کا ہے ، تو
ایسے منکرین کے لیے بطور دلیل کے وہ تمام واقعات جو قرآن میں بیان کیے گئے
ہیں ، کافی ہیں، کہ کس طرح بڑی بڑی ،طاقت ور قوموں کو ان کی بد اعمالیوں کی
وجہ سے رب تعالیٰ نے زیر و زبر کردیا۔
جس چیز نے ابلیس کو آسمان کے نوارنی ماحول سے نکال کر زمین پر پھینکا اور
رہتی دنیا تک کے لیے راندہ درگاہ کیا ۔ وہ یہی نافرمانی تو تھی۔ قوم نوح کا
طوفان میں غرق ہونا کسے یاد نہیں؟ قوم عاد کا زمین پر پٹک پٹک کر مرنا کون
نہیں جانتا؟ چنگھاڑ سے قوم ثمود کی تباہی اور قوم لوط کی بستیوں کا اوپر سے
نیچے ہونا اور سنگ کا برسنا، قوم فرعون کا غرق ہونا اور قارون کا دھنسنا،
قوم شعیب کی ہلاکت اور بنی اسرائیل پر مختلف قسم کے عذابات، یہ سب کچھ دنیا
میں ،ان کی آنکھوں کے سامنے ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ قصے آخرت کے نہیں ، قرآن نے
بڑے واضح طور پر جابجا ان کی تباہی کا تذکرہ کیا ہے۔ ان کے لیے آخرت کا
انتظار نہیں کیا گیا ، یہ جو کچھ ہوا، سب دنیوی عیش و عشرت کے ساتھ ہوا۔تو
کیا سزا کے لیے آخرت کے انتظار کی کوئی وجہ باقی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟
ابن ابی دنیا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا: جب اللہ بندوں سے انتقام لینا چاہتے ہیں تو بچے بکثرت
مرتے ہیں اور عورتیں بانجھ ہوجاتی ہیں۔
معصیت کے سبب دنیوی نقصانات کیا ہوتے ہیں؟؟ چند یہاں مرقوم کیے جاتے ہیں:
معاصی سے انسان علم سے محروم کردیا جاتا ہے۔
انسان کا رزق کم کردیا جاتا ہے۔
عاصی سے لوگوں کو رفتہ رفتہ وحشت ہونے لگتی ہے۔حتی کی جانور تک نافرمان ہو
جاتے ہیں۔
قلب سیاہ ہو جاتا ہے، دل اور جسم کمزور ہوجاتے ہیں۔
عمر میں برکت ختم ہوجاتی ہے۔
بندہ اللہ کی نظر میں ذلیل ہو جاتا ہے۔
عقل میں فتور اور فساد آجاتا ہے۔
اللہ اور اس کے رسول اور فرشتوں کی لعنت پڑتی ہے،جیساکہ کثرت سے احادیث
وارد ہیں۔ دنیا میں ذلت اور مذمت والے القاب ملتے ہیں، جیسے؛ فاسق ،فاجر،
ملعون،خبیث،زانی اور قاتل وغیرہ۔اور سب سے بڑھ کر نقصان یہ ہوتا ہے کہ گناہ
دل و دماغ میں اس طرح بس جاتا ہے کہ انسان (نعوذباللہ) موت کے وقت کلمہ سے
محروم ہوجاتا ہے۔ ایک شخص کے متعلق واقعہ لکھا ہے کہ موت کے وقت کلمہ کی
تلقین کی گئی تو تن تنا، تن تن کہتے گانا شروع کردیا اور اسی حالت میں دنیا
چھوڑ گیا۔
یہ چند مضرتیں دنیویہ ہیں جو گناہ کے سبب لاحق ہوتی ہیں۔اس کے علاوہ اور
بھی ظاہری اور باطنی بہت سے ضرر ہیں جن کا احاطہ مشکل ہے۔بس بات صرف یہ ہے
کہ عاقل کبھی ،وقتی اشتہاء کی خاطر اتنے بڑے آلام و مصائب ہرگز اپنے سر
نہیں لے گا۔ اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو اپنی نافرمانی سے محفوظ رکھے۔ آمین
|