سازشی مفروضے: دنیا کو کوئی ’ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس‘ چلا رہا ہے؟

آپ نے جتنے بھی سازشی نظریے یا ’کانسپریسی تھیوریز‘ سن رکھی ہیں اگر آپ ان پر یقین بھی کر لیتے تو دنیا نہایت عجیب ہوتی۔
 

image


مثلاً برطانوی شاہی خاندان عجیب الخلقت چھپکلیوں کی شکل و صورت اختیار کر لیتا، اطالوی نژاد امریکی اداکار رابرٹ ڈی نیِرو نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کے اقدامِ قتل میں ملوث ہوتے، گرِفن گدھ اسرائیل کے لیے جاسوسی کرتے، پھٹی ہوئی جینز کا فیشن کوئی خفیہ اشارہ ہوتا، نائجیریا کا صدر سوڈانی بہروپیا ہوتا، ایڈز اور اِیبولا کے وائرس امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی ایجاد ہوتے، زمین گول نہیں بلکہ چپٹی ہوتی یعنی ہم چاند پر کبھی نہ جا پاتے۔

تقریباً تمام ہی علوم اور فنون میں نظریے پائے جاتے ہیں۔ مگر یہ نظریے تحقیق اور علمی مباحث کی روشنی میں پیدا ہونے والے دلائل کی بنیاد پر قائم کیے جاتے اور نئے علم اور دریافت کی روشنی میں ان میں رد و بدل ہوتا رہتا ہے۔ اس کے برعکس سازشی نظریہ کی بنیاد ایسے مفروضوں پر قائم ہوتی ہے جنھیں بغیر تحقیق اور مباحثے کے مان لیا جاتا ہے۔

بے شک سازشی نظریے حقیقت پر مبنی نہ ہوں مگر ان کے اثرات حقیقی ہو سکتے ہیں۔ امریکا، فرانس، مڈگاسکر اور دوسرے ملکوں میں خسرے کے وبائی صورت اختیار کرنے کے پیچھے کسی حد تک ’اینٹی ویکسر موومنٹ‘ کا ہاتھ ہے جو حفاظتی ٹیکوں کے خلاف مہم میں مصروف ہے۔

تو آپ کیسے جان سکتے ہیں سچ کیا کیا ہے اور جھوٹ کیا؟
 

image


مقدس تثلیث

سمجھ میں نہ آنے والی باتوں اور واقعات کے بارے میں علم کی کمی سے جو خلا پیدا ہوتا ہے سازشتی نظریے اسے پُر کرتے ہیں۔

لندن کی اوپن یونیورسٹی میں نفسیات کے ڈاکٹر یووان بائفرڈ کہتے ہیں کہ کسی واقعہ سے متعلق جو بات سازشی نظریے اور متبادل وضاحت میں تمیز کرتی ہے وہ ’کسی شیطانی منصوبے کی موجودگی ہے جو کسی خفیہ مقام پر چند طاقتور لوگوں نے بنایا ہو۔‘

ہر سازشی نظریے کے تین بنیادی اجزا ہوتے ہیں: سازش کنندہ، منصوبہ اور وسیع پیمانے پر سازش کرنے کے ذرائع۔

سازش کنندہ

ڈاکٹر بائفرڈ کہتے ہیں کہ یہ قابل شناخت ارکان پر مشتمل تنظیم بھی ہو سکتی ہے، جیسا کہ ’اِلومناٹی، فری میسنز، بلڈربرگ یا سکل اینڈ بونز سوسائٹی۔‘
 

image


مگر سازش کنندہ کے لیے اکثر مبہم اصطلاحیں بھی برتی جاتی ہیں، مثلاً بِگ فارما، ملٹری انڈسٹریل کامپلیکس، عالمی امراء وغیرہ۔

ڈاکٹر بائفرڈ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسا لوگوں کو یہ باور کرانے کے لیے کیا جاتا ہے کہ ایک دشمن ہے جو چھپ کر خفیہ منصوبے بنانے میں مصروف ہے۔

منصوبہ

کسی سازش کے لیے منصوبے کا ہونا لازمی ہے۔ ڈاکٹر بائفرڈ کے مطابق ایسے منصوبے کا مقصد دنیا پر تسلط حاصل کرنا ہوگا اور سازش کے طاقتور ارکان کی موت کے بعد بھی منصوبہ قابل عمل ہوگا۔

وہ کہتے ہیں کہ ایسے کسی منصوبے کو پوشیدہ رکھنے جتنی احتیاط برتنے کی ضرورت ہوگی اس کے لیے لازمی ہے کہ کوئی ایسی ہستی ہو جس کے پاس ہر چیز کا کنٹرول ہو۔

’یہ خیال کہ دنیا کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے سازشی نظریوں کے لیے بہت ہی قوی محرک ہوتا ہے، خاص طور سے بحرانی حالات میں جب تفصیلات کا فقدان ہو۔‘

وسیع پیمانے پر اثرپذیری
 

image


معلومات کی کمی کی وجہ سے قیاس آرائیاں جنم لیتی ہیں اور اگر اتفاقاً کوئی غیرمتوقع بات ہوجائے تو لوگ ان قیاس آرائیوں کو سچ سمجھ لتیے ہیں۔ وہ سوچتے ہی نہیں کہ جو ہوا وہ محض اتفاق بھی ہوسکتا ہے۔

سازباز کو ایسے ذرائع سے جوڑا جاتا ہے جس پر یقین بھی آئے۔

ہم ایسی باتوں پر یقین کیسے کر لیتے ہیں؟

برطانیہ کی وِنچسٹر یونیورسٹی کے ماہر نفسیات ڈاکٹر مائیک وُڈ کہتے ہیں کہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سازشی نظریوں پر یقین آنے کا تعلق کسی بحران کی وجہ سے پڑنے والے دباؤ سے بھی ہے۔ جب کوئی شخص خود کو بے بس سمجھتا ہے تو وہ سازشی نظریے کا قائل ہونے لگتا ہے۔‘
 

image


یونیورسٹی آف آکسفرڈ میں انٹرنیٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ڈاکٹر مائٹرو پینٹازی کے مطابق اس کا اظہار اجتماعی صدمے کی حالت میں بھی ہوتا ہے۔

اپنے رفقائے کار کے ساتھ انھوں نے ان سازشی نظریوں کا جائزہ لیا جو سمولینسک پلین کریش کے بعد وجود میں آئے۔ اس ہوائی حادثے میں پولینڈ کے صدر اور 95 سیاست دان اور اعلی فوجی حکام ہلاک ہوگیے تھے۔

انھوں نے یہ تنیجہ اخذ کیا کہ جیسے جیسے ان نظریوں پر لوگوں کا یقین پختہ ہوتا گیا ویسے ویسے سماج کے اندر تقسیم بھی بڑھتی چلی گئی اور ان نظریوں کو ماننے والوں اور ان پر سوال اٹھانے والوں کے درمیان دوری بڑھتی چلی گئی۔

ڈاکٹر پینٹازی کہتی ہیں کہ لوگوں نے اس تقسیم کو اپنی پہچان بنا لیا۔

اور جب آپ کو ایسی باتوں کا سامنا مسلسل رہے تو اس کا اثر بھی گہرا ہو جاتا ہے۔ ماہرینِ نفسیات اس کیفیت کو ’سچ کا سراب‘ کہتے ہیں، جسے سوشل میڈیا نے بڑھاوا دیا۔

برطانیہ کی سٹینفرڈ یونیورسٹی میں ابلاغیات کے پرفیسر جیف ہین کاک کہتے ہیں کہ ’جس چیز کو آپ جتنا زیادہ دیکھیں، وہ اتنی ہی زیادہ مانوس لگنے لگتی ہے اور جو چیز جتنی زیادہ مانوس لگے وہ اتنی ہی زیادہ قابلِ یقین ہو جاتی ہے۔‘
 

image

ایک انتباہ

ڈاکٹر پینٹازی کہتی ہیں کہ سازشی مفروضے معاشرے کے لیے مہلک ہو سکتے ہیں، ’جو لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ویکسین آٹِزم جیسی نفسیاتی مرض کا باعث ہے اور اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگوانے سے گریز کرتے ہو وہ اپنے بچوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔‘

Partner Content: BBC
YOU MAY ALSO LIKE: