مہنگائی میں عوام کا کردار

مہنگائی تازہ ترین اصطلاح میں عمران خان کی حکومت۔گزشتہ ایک سال سے حکومت وحزب ِاختلاف کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی میں کیا واقعی عوام مہنگائی کی چکی میں پیس رہی ہے؟ اگر کہا جائے نہیں تو پھر حکومت کی طرفداری کا لیبل لگ جا تا ہے اور اگر ہاں تو پھر آپ سچے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عوام کو کس دور میں مہنگائی کا سامنا نہیں کرنا پڑا؟

زیادہ لمبی بحث نہیں لیکن ہر کوئی اس مضمون کو پڑھنے کے دوران اپنی عمر کے مطابق سوچے کہ کب اُس کے گھر والوں نے بچپن یا لڑکپن میں سارے گھر کی بجلی جلانے کی اجازت دی اور اب کب وہ اپنے بچوں کو یہ اجازت دے رہے ہیں۔ بلکہ اُسکو فوراً اپنے والد کی آواز ہی سُنائی دے گی کہ فضول بتی بندکر دو۔فضول آواہ گردی کر کے پٹرول نہ ضائع کرو۔گیس کا چولہا غیر ضروری نہ جلاؤ۔

اب ذرا غور کریں تو یہ ایک مثبت عوامی رد ِعمل ہے حکومت ِوقت کی پالیسیوں پر تاکہ اپنی چادر کے مطابق پاؤں پھیلاؤ اور بہتر زندگی گزارو۔لیکن شاید یہ اب ماضی کی باتیں ہو گئی ہیں کیونکہ پہلے اگر کوئی اپنے بڑوں کی بات 70فیصد مان لیتا تھا تو اس دور میں " ٹیک آوے" کی اصطلاح کی وجہ سے کم ہو کر مشکل سے20فیصد رہ گئی ہوگی۔

آج ہمیں کیا نہیں چاہیئے اور کیا یہی وجہ مہنگائی کا باعث نہیں بن رہی۔آمدن کا ذریعہ کوئی بھی اپنانا پڑے لیکن نظام حکومت و ہی ٹھیک ہے جس میں آمدنی کے ذرائع میں حلال و حرام کی تمیز نہ ہو اور میرا میرا کہہ کر سب کچھ میرے گھر میں ہو اور ساتھ ہی مہنگائی کا رونا رو کر یہ بھی ثابت کرنے میں بھی کامیاب ہو جائیں کہ حالات بہت خراب ہیں۔

یہ ویڈیو جو آپ دیکھ رہے ہیں اس میں یہی کہا گیا ہے کہ آج کے دور میں عوامی کردار کیا ہے؟حکومت ِ وقت پر تنقید کرتے رہیں پر یہ ضرور خیال کریں کہ علی بابااور چالیس چوروں کی کہانی میں سبق کیا تھا۔
 

YOU MAY ALSO LIKE: