تحریر : ماہا عابد
وہ تھی ہی ایسی بالکل معصوم جیسے کوئی بھٹکی ہوئی پریوں کے دیس سے معصوم سی
پری ہو، جو انسانوں کے درمیان میں بھولے بھٹکے سے آبسی ہو۔ باتیں کرتی اس
کا اتنا ہی نرم میٹھا سا لہجہ، باتوں کے دروان اتنی مگن ہوتی گویا ایک ایک
عضو محو گفتگو ہو۔ اپنی ہر بات کو مجھ سے شیئر کرنے والی، چھوٹی چھوٹی پہ
پریشان ہونے والی ایسا لگتا تھا جیسے خدا نے اسے بنایا ہی میرے لیے ہو۔ ہر
کسی کو اپنی اوٹ پٹانگ حرکتوں اور شرارتوں پر ہنسانے والی اس کا پسندیدہ
مشغلہ تھا۔ مجھ سے بے اتنہا محبت کرتی تھی اور میں اسی محبت کے زعم میں ہر
وقت سرشار رہتا۔ دوران گفتگو وہ اکثر مخاطب کرتے مجھے بولتی تھی اسے ڈر
لگتا ہے ان دنیا والوں سے وہ ڈرتی تھی مجھے کھونے سے۔ محبت اس قدر گہری
کرتی تھی کہ میں حیران ہوتا تھا مجھے علم ہی نہ تھا اس کی اس شدت پسندگی کا۔
اسے محبت تھی مجھ سے میری ذات سے میری ہر بات سے۔ مجھے شاعری کرنا بہت پسند
تھی اور وہ گھنٹوں اپنے گلابی ہاتھوں کے پیالوں میں چہرہ ٹکائے مجھے سنتی
رہتی تھی۔ جہاں کہیں میں اسے کوئی شعر سنانے لگتا اس کے چہرے پر جو تجسس
ہوتا وہ میری ساری تگ ودو کا حاصل تھا۔ اسے پھولوں کی مہک بہت پسند تھی
جہاں کہیں میں پھول دیکھتا تو اس کے لیے ضرور خرید لیتا تھا۔ پھول دیکھتے
ہی وہ پھولے سرخ چہرے پر خوشی سے جھوم اٹھتی تھی۔ میں اس کے اس پاگل پن کر
مسکراتا بس اسے دیکھتا ہی رہتا۔ اکثر کہتی تھی کہ اگر کبھی وہ یہ دنیا چھوڑ
گئی تو کیا میں اسے یاد کروں گا۔ اسے پاگل دیوانی کو کیا پتا تھا کہ میں
اسے بھول ہی نہیں پاتا، میرے جسم کی ہر رگ پر اسی کا نام ہوتا ہے اسی کی
فریاد ہوتی ہے۔ میں اسے بتانا چاہتا تھا کہ میں بے حد اس سے محبت کرتا ہوں۔
پر اس پریوں کے دیس کی پری کو میں اپنے ہاتھوں سے ہی توڑ چکا تھا خود ہی کے
ہاتھوں سے گنوا چکا تھا۔ وہ کہتی تھی۔ میری سنجیدہ سی شکل دیکھ کر اسے ہنسی
آتی ہے۔ مجھے غمگین اور اداس وہ دیکھ ہی نہ سکتی تھی کہ منٹوں میں میری
پریشانی چٹکیوں میں دور کرتی تھی۔ میرے ہر دن کے سورج کی پہلی کرن اور رات
کی ہر تاریک رات تھی۔ جس سے ہر سیاہی مٹ چکی تھی۔ وہ کہتی تھی جو میں ایک
بار تم سے دور چلی گئی تو دوبارہ پھر واپس نہیں پلٹ سکوں گی۔ اور پھر وہ
کانچ کی طرح ریزہ ریزہ ہوتے بری طرح ٹوٹ کر بکھر گئی۔ میں اس معصوم پری کو
توڑ چکا تھا۔ اس کا ٹکڑوں میں تقسیم ہونا اپنی اصلی حالت ہی کھو چکی تھی۔
انسانوں کی دنیا میں اسے مجھ جیسے قدر نا کرنے والے سے وہ محبت کر بیٹھی
تھی اسے راس ہی نہیں آیا مجھ سے محبت کرنا۔ اور پھر وہ ہمیشہ کے لیے اس
دنیا سے ہی منہ موڑ چکی تھی۔ میری زندگی کو تاریک اور ویران ہمیشہ کے لیے
کر گئی‘‘۔۔
|