نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی - قسط 1

پرانے زمانے کی بات ہے کہ ملک فارس کے ایک گاﺅں میں ایک چرواہا رہا کرتا تھا ۔ وہ جنگلوں میں بکریاں چراتا اور اگر جنگلوں میں کوئی سوکھا درخت نظر آجاتا تو اس کی لکڑیاں کاٹ کر گٹھر بنا لیتا اور شام کو گھر واپس آتے ہوئے بکریوں سے ساتھ یہ لکڑیاں بھی اپنے ساتھ لے آتا تھا۔ اس طرح ہفتہ بھر میں جو بھی لکڑیا ں جمع ہوجاتیں انھیں بازار میں بیچ کر اپنا اور اپنے گھر والوں کا گزارا کرتا تھا۔کم آمدنی کی وجہ سے اس کے گھر کے اخراجا ت بمشکل ہی پورے ہو پاتے تھے لیکن چرواہا ہمت نہ ہارتا اور اسی طرح روزانہ جنگل میں بکریاں چرانے اور سوکھی لکڑیاں جمع کرنے نکل جاتا۔

ایک دن یہ چرواہا جنگل میں کافی دور تک چلا گیا اس نے دیکھا کہ ایک بہت ہی تناور درخت سوکھ گیا ہے اس نے اس درخت کو اپنی کلہاڑی کے مدد سے کاٹ کر گرا لیا اور اس کی شاخوں کو باندھ کر گٹھر بناکر رکھ دیا۔ درخت کے بچے ہوئے تنے کواس نے چیر کر پھاڑنے کی کافی کوشش کی لیکن کافی محنت کے بعد اس میں معمولی سا شگاف ڈال سکا۔ جس میں اس نے ایک موٹی لکڑی کا ٹکڑا پھنسا دیا، شام ہو چکی تھی اس نے سوچا کہ کل آکر اس کے مزید ٹکڑے کر لوں گا ۔چنانچہ اس نے لکڑیوں کا گٹھر اٹھایا اور بکریوں کو لے کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔

چرواہے کے جانے بعد ، جنگل میں سے ایک بندر اچھلتا کودتا ہوا آیا اور اس درخت کے تنے پر آکر بیٹھ گیا ، بندر نے جب اس تنے کے شگاف میں لکڑی پھنسی ہوئی دیکھی تو وہ اس لکڑی کے ساتھ کھینچا تانی کرنے لگا، اسی کھینچا تانی میں پھنسی ہوئی لکڑی اپنی جگہ سے معمولی سی کھسکی ، لکڑی کا معمولی سا کھسکنا تھا کہ بندر کی دم اس شگاف میں دب گئی۔ تکلیف اور درد کی شدت سے بندر بری طرح چیخنے لگا، مگر اسکی دم نہ نکلی ، بندر نے اپنی دم کو نکالنے کے لئے بہت کوشش کی لیکن وہ نہیں نکلی ، درد کی شدت نے اسے ادھ مرا کر دیا ۔

دوسرے دن صبح جب چرواہا جنگل میں پہنچا تو اسے یہ دیکھ کر بڑی حیرت اور افسوس ہوا کہ ایک بندر جسکی دم درخت کے تنے میں پھنسی ہوئی ہے اور وہ درد کی شدت سے نڈھال نیم مردہ حالت میں لٹکا ہوا کراہ رہا ہے۔وہ سمجھ گیا کہ اس کے جانے کے بعد اس نے تنے کے شگاف میں پھنسی ہوئی لکڑی کو نکالنے کی کوشش کی ہوگی اور اس کے کھسکنے سے اس کی دُم تنے کے شگاف میں دب گئی ہے۔

بندر حالت دیکھ کر اسے اس پر بڑا رحم آیا ، اس نے اپنی کلہاڑی کی مدد سے اس لکڑی پر ضرب لگائی تو تنے کا شگاف جیسے ہی چوڑا ہوا بندر کی پھنسی ہوئی دم نکل گئی اور بند پٹ سے نیچے گر گیا بندر بے ہوش ہو چکا تھا۔ چرواہے نے اس کے منہ میں پانی ڈالا تو کچھ دیر بعد بندر میں حرکت پیدا ہوئی اور کراہتا ہوا اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے احسان مند نظروں سے چرواہے کو دیکھا جیسے اس کا شکریہ ادا کر رہا ہو، کچھ دیر بعد بندر اٹھا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا جنگل میں چلا گیا۔

بندر کے چلے جانے کی بعد چرواہے نے اپنے تھیلے سے اوزار نکالے اور تنے کو چیر کر کئی گٹھر بنالئے ، یہ لکڑیاں بہت دنوں تک اسکے لئے کافی تھیں ۔ اس نے کئی چکروں میں ان لکڑیوں کو اپنے گھر پہنچا دیا۔ آخری گٹھر لینے جب وہ جنگل میں پہنچا تو دن ڈھل چکا تھا ۔ابھی اس نے گٹھر اٹھایا ہی تھا کہ اس نے دیکھا کہ وہی بندر جس کی اس نے صبح جان بچائی تھی، وہاں کھڑا ہوا ہے اور اس کے ہاتھ میں کچھ جنگلی پھل ہیں جو سیب سے ملتے جلتے ہیں۔

بندر نے چرواہے کو ہاتھ کے اشارے بتایا کہ یہ پھل میں تمہارے لئے لایا ہوں انھیں کھا لو۔چرواہا بے حد حیران ہوا ،وہ سمجھا کہ شاید یہ بندر اس کا شکریہ ادا کرنے کے لئے جنگل سے یہ پھل اس کے لئے لایا ہے۔اس نے بندر سے یہ پھل لے لئے۔ اور انھیں کھانے لگا۔ ، جب تک وہ یہ پھل کھاتا رہا بندر وہیں پر کھڑا اسے دیکھتا رہا اور پھر واپس جنگل میں چلا گیا۔

رات کی سیاہی بڑھتی جارہی تھی چرواہے نے لکڑی کا گٹھر اٹھایا اور جلدی جلدی اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔گھر پہنچ کر جب اس نے تمام لکڑیوں کو دیکھا بہت خوش ہوا کہ اس مرتبہ مجھے کافی ساری رقم مل جائے گی۔ ہاتھ منہ دھو کر اس نے اپنے گھر والوں کے ساتھ کھانا کھایا ۔اس نے جب اس واقعہ کا ذکر اپنے گھر والوں سے کیا تو بڑے حیران ہوئے ۔کھانا کھانے کے سب لوگ سوگئے۔

آدھی رات کواچانک چرواہے کی آنکھ کھلی تو اس کا سارا جسم دکھ رہا تھا اور جگہ جگہ کھجلی محسوس ہورہی تھی۔اس نے انتہائی بے چینی کے عالم میں ساری رات گزاری ۔ صبح جب و ہ بستر سے اٹھا اور اس کی نظر اپنے ہاتھوں اور پیروں پر پڑی تو ان پر بڑے بڑے آبلے پڑے ہوئے تھے ، جوں جوں دن چڑھتا گیا ان آبلوں میں جلن اور تکلیف بڑھتی گئی اسکے گھر والے اسے حکیم کے پاس لے گئے لیکن دوائی کھانے کے باوجود یہ آبلے کم ہونے کے بجائے بڑھتے جارہے تھے اور جو بھی آبلہ پھوٹ جاتا اس سے انتہائی بدبودار پانی نکلتا اور جسم پر جہاں لگ جاتا وہاں مزید آبلے نکل آتے۔

(جاری ہے)
M. Zamiruddin Kausar
About the Author: M. Zamiruddin Kausar Read More Articles by M. Zamiruddin Kausar: 97 Articles with 322921 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.