اس آرٹیکل میں مجھے روشنی ڈالنی ہے تعلیم کے پھینومینہ پر
ہم اس معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ڈگری ہولڈر ایک دانشور اور ایک فرشتہ سمجھا
جاتا ہے اور وہ جو کہتا ہے اس ہی کو اکیڈمک سمجھ لیا جاتا ہےخطرے کی بات یہ
ہے کہ ہم جو تعلیم کے بارے میں سوچتے ہیں وہ تعلیم نہیں ہے.
یہ جاننا اچھا ہے کہ ہم ٹیکنالوجی اور کموڈٹی میں ترقی کر رہے ہیں لیکن
سماجی مینجمنٹ ، اخلاقی خوشحالی، روحانی مینجمنٹ کے بارے میں کیا کریں؟
جی ہاں ! ہم برانڈ مینجمنٹ میں اچھے ہیں لیکن، کیا ہم اپنے اپ کو مینیج
کرسکتے ہیں؟ کیا ہم ایک اچھے برانڈ ہوسکتے ہیں ؟
سیلف مینجمنٹ اکیڈمک مینجمنٹ سے بہت مختلف ہے.
میرا سوال یہ ہے کہ اگر ہم اپنے یونیورسٹیوں سے زائد ہزار گریجویشن تیار کر
رہے ہیں تو کیوں :
طلاق کا تناسب بڑھ رہا ہے ؟
خودکشی تناسب بڑھ رہا ہے ؟
کشیدگی تناسب بڑھ رہا ہے ؟
ہاں ہماری نام نہاد تعلیمی ڈگری سیلف مینجمنٹ اور لوگوں کے انتظام کے بارے
میں ہمیں نہیں سکھاتا اور حقیقت میں یہی اپر دیا گے مسلے کا حل ہے.
یاد رکھیں صرف تعلیم سے انسان اپنی سوچ کو نرالا نہی کر سکتا.
میں تعلیم میں یقین رکھتا ہوں لیکن تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا ہونا،
کریکٹر بلڈنگ ٹول کا ہونا بہت لازمی ہے .
کیوں 80٪ طلباء اوسط انسانوں کے طور پر ختم ہو رہے ہیں ؟
آپ بہت سارے لوگوں کو دیکھیںگے کے جو ایک اوسط درجے پر ختم ہورہے ہیں، مطلب
یہ کے وہ پیشہ ورانہ طور سے بہت مظبوط ہوتے ہیں مگر وہ ان دیے گئے مینجمنٹس
سے لا علم ہوتا ہے جیسے کے .
فیر مینجمنٹ
سیلف مینجمنٹ
ویژن مینجمنٹ
روحانی مینجمنٹ
سوشل مینجمنٹ
ایک لیڈر بننے کے لئے انسان کو ان تمام منجمنٹس سے آشنا ہونا لازمی ہے.
تعلیم و تربیت
بہت زیادہ محتاط اور سنجیدگی سے ہمیں تعلیم و تربیت میں فرق کرنا ہوگا .
اگر کسی کے پاس تعلیم اور ڈگری ہے مگر تربیت نہی ہے تو اس کی شخصیت میں اک
بڑی خلا پیدا کر سکتا ہے.
ہم دیکھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے 40 سال کی عمر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم
کو نبوت عطا کی کیونکہ اللہ نے انہیں پالش کرنا تھا انہیں ان مراحل سے
گزارنا تھا جہاں بہت تکلیفیں تھی کیوں کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کام
بڑا لینا تھا اس ہی لئیے ہم دیکھتے ہیں کے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا
کو ری شیپ کر کے رکھدیا اور انسانیت کی تکمیل کو عملی جامہ پہنایا
تعلیم آپ کو بولنا سیکھاتی ہے مگر کب ، کہاں ، اور کتنا بولنا ہے یہ نہی
سیکھاتی ، جب آپ یہ سب سیکھ لیتے ہیں تو آپ دانشمند کہلاتے ہیں
تعلیم بالکل فلوڈ ہو چکی ہے :
جی ہاں یہ ہے کیونکہ تعلیم آپ کو وکیل، ڈاکٹر، جج ، پروفیسر بنا سکتی ہے।
لیکن افسوس یہ ہے کے وکلاء بدعنوانی سرگرمیوں میں ملوث ہیں، ہسپتالوں کے
ڈاکٹروں مریضو ں کو کسٹمر سمجھے ہیں، جج کی زیادہ تر جانبدار ہیں.
ایک ملک اچھی عمارتوں، راستوں، اور بڑے اسٹیڈیم سے بڑا ملک نہی بنتا بلکے
ترقی یافتہ ملک عظیم قوم اور قوم کی سوچ سے بنتا ہے.
بڑی شخصیتیں صرف تعلیم یا ڈگری لے کر بڑی نہیں بنی ہیں؛ ہمارے پاس حقیقی
تاریخ ہے جہاں لوگ تعلیم کے بغیر عظیم بنے ہیں، اک بہترین مثال اور نام
نہاد شخصیت عبدل ستار ایدھی ہیں جنہو ں نے اپنی بہترین تربیت سے اک بہترین
مثال قائم کی.
آپ کی ڈگری آپ کو بیان نہی کر سکتی:
ڈگری تو اک رسید ہے ان اخراجات کی جو آپ نے تعلیم حاصل کرنے میں کئے تھے
حقیقی طور پر ایجوکیشن بیان کی جاسکتی ہے مندرجہ ذیل خوبیوں سے:
آپ کا رے ایکشن اور رسپانس.
آپ کے سوچنے کا انداز
آپ کا انٹللیکٹ لیول
آپ کا ایکسپیرینس
جج کرنے کا معیار:
ہم اب بھی 1980 میں ختم ہجانے والا انٹیلیجنس کوشنٹ استعمال کر رہے ہیں
سے آپ انسان کی پیمائش نہیں کرسکتے، IQ نے کہا کہ صرف مسٹر ہووارد گاردنیر
سیکلوجسٹ
تھیوری متعارف کروای، ملٹیپل انٹیلی جنس میں انہون نے 1983
متعارف ہوئی تھا ایومشنل انٹیلیجنس تھیوری میں ایک اور انٹیلی جنس تھیوری
جس کا نام 1991
کی سطح کے ذریعہ لوگوں کی پیمائش کر رہے ہیں IQ لیکن کیوں ہم ابھی تک
ہم بہت سی بڑی شخصیت سے ملتے ہیں ہم دیکھتے ہیں کے وہ پروفیشنل طور پر بہت
گروتھ کرچکے ہیں لیکن وہ بصیرت سے اب بھی محروم ہیں اب بھی ان کی سوچ کا
لیول نہی بڑھ سکا.
تعلیم سے ٥چیزیں ضرور ہونی چاہئیے .
تقریبا ہر طالب علم بعد میں یا ابتدائی طور پاس ہو جائے گا لیکن اس میں کچھ
خاص معیار ضرور ہونے چاہئیے جو اس کو عام طالب علم سے مفرد رکھتے ہوں
.تجزیہ کی اعلی سطح
.اپنے کردار اور شخصیت میں ترقی
.تعلیم آپ کو دور اندیشی ضرور دیتی ہے
.تعلیم اگر تزکیہ کے ساتھ ہو تو یہ آپ کو سکھاتی ہے کہ کیوں ،کیا اور کس
طرح بولنا ہے.
اچھی تعلیم آپ کو اضافی کچھ کرنے کے لئے ابھارتی ہے یہ آپ کو مثالی شخصیت
کے لحاظ سے ایک دستخط بنانے کے بارے میں ہے، یہ آپ کو مختلف رکھنے کے بارے
میں ہے اور بھیڑ سے دور
تجاویز.
اس تعلیم کے نظام کوغلط کہنا شروع کرو ورنا آپ کی اگلی نسل بھی اس سے نقصان
اٹھایگی.
ایک اچھا منٹور اور انسپراشونل شخصیت بنو، لوگو ں کو امید دلاؤ ، کیوں کے
کبھی کبھی انسان کو صرف ایک امید کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر وہ ایکسل ہوجاتا
ہے.
علم اور امید کے لنگر کو تقسیم کرتے رہیں.
دوست بنائیں جو آپ کو زندگی میں صحیح سمت دے سکیں .
اس طرح کامیاب ہوں کے جو آپ کہدیں وہ تعریف بن جائیں اور جو آپ لکھ دن تو
اکیڈمک بن جائیں. .
زندگی ایک لمبا پروسیجر ہے اس میں ریجیکشن ہے اگنورنس ہے راتوں کی تنہایںیہ
ہیں اور ان سب مراحل سے گزر کر ہی ایسی کامیابی آتی ہے جس میں اچھی شخصیت
اور دانشمندی بھی شامل ہوتی ہے.
|