آیت علی، جہلم
آج کل سوشل میڈیا پر چاروں طرف ایک طوفان بدتمیزی نظر آ رہا ہے۔ بات جھوٹے
لطیفوں،بیہودہ کہانیوں اور بے حیا تصویروں سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ایک وقت
تھا جب بچے کوئی غلط سرگرمی اپناتے تھے تو انہیں بڑوں کا ڈر ہوتا تھا لیکن
اب صورت حال یہ ہے کہ ''بڑے'' خود بچوں کو اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے
لیے غلط استعمال کر رہے ہیں ۔اپنی ہی نوجوان نسل کو بھڑکا کر اور اکُسا کر
سوشل میڈیا پر مخالف جماعتوں کی کرداد کشی جیسا قبیح فعل سرزد کروایا جارہا
ہے۔ غلاظت کا ایک ڈھیر ہے جس سے انسانیت کا دم گھٹ رہا ہے۔یہ سچ ہے کہ سوشل
میڈیا نے دوریوں کو ختم کر کے لوگوں کو بہت قریب کر دیا ہے لیکن وہیں یہ
بھی تلخ حقیقت ہے جسے ماننا پڑے گا کہ سوشل میڈیا کی بدولت نہ جانے کتنے
رشتے،دوستیاں اور تعلقات برباد ہو گئے ہیں ۔بہت سی بدگمانیوں نے جگہ بنالی
ہے ۔کسی کو کال یا میسیج کا فوری جواب نہیں ملتا تو وہ طرح طرح کی منفی
باتیں سوچنے لگتے ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہے:
!أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا اجْتَنِبُوا کَثِیرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ
بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ).
]الحجرات: 49/ 12[
اے ایمان والو! بہت بد گمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بد گمانیاں گناہ
ہیں.
ارشاد نبوی ہے:
إِیَّاکُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیث)ِ ]متفق علیہ[
کہ ’’گمان سے بچو کیونکہ گمان سب سے جھوٹی بات ہے۔‘‘
کمپیوٹر سے ہم انسانی منفعت کا تو کوئی کام نہ لے سکے لیکن انسانیت کو
شرمسار کرنے کا ہنر بخوبی جان گئے ہیں۔ آج بچہ بچہ مشکل ترین ایڈیٹنگ
اپلیکیشن بآسانی استعمال کر سکتا ہے کسی کو بھی کسی بھی حالت میں کسی کے
ساتھ بھی جوڑا جا سکتا ہے کسی کی طرف،کسی بھی وقت کوئی بھی بات منسوب کر دی
جاتی ہے۔ جسے اپنی صلاحیتوں کو کسی نیک عمل میں صرف کرنا تھا وہ جھوٹ کی
آمیزش میں ہمہ وقت مصروف عمل ہے.
ارشاد ربانی ہے ''بے سند باتیں کرنے والے غارت ہوئے '' (سورۃالزاریٰت)
یہ ہمارے بچے جنہیں خالد بن ولید بننا تھا وہ فیسبک پہ خیالی طور پر مثالی
پاکستان بنانے کی سعی لاحاصل کرتے نظر آتے ہیں عملی بنیادوں پر کوئی بھی
کچھ کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا خرافات کا شکار قوم بھول گئی ہے کہ قیامت کے
دن ہمیں ایک ایک چیز کا حساب دینا ہے یوم محشر کہاں ڈھونڈتے پھریں گے ان
ہزاروں لاکھوں لوگوں کو جن کی تصاویر،اقوال و افعال کو بدل بدل کر حرمت و
تقدس پر بہتان درازیاں کی تھیں۔ ہمارے سیاست دان کس خوش فہمی میں ہیں کہ
اپنے حریفوں کی کردار کشی کر کے وہ اپنا نام بنالیں گے،مقبولیت حاصل کر لیں
گے؟ ہمارے نوجوان تو پہلے ہی معیاری اسلامی نظریاتی تعلیم کے فقدان کی وجہ
سے غیر نظریاتی ہو چکے ہیں اوپر سے ان کی رہنمائی کرنے والوں نے باقی کسر
پوری کر دی ہے۔
مقبول وہی ہوتا ہے جو خدمت کرتا ہے اس کے علاوہ ہر راستہ محض خام خیالی ہے
اسلام نے شاید اسی لیے تصویر کشی کو حرام قرار دیا تھا کہ ایک وقت آئے گا
اس کے ذریعے انسان انسانوں کی کردار کشی کریں گے.
ذاتی طور پر نہ جانتے ہوئے بھی بہت وثوق سے غلط خبر پھیلائی جاتی ہے وہ دن
جو اسلام کے نفاذ و تبلیغ کی کوششوں میں صرف ہونے تھے وہ راتیں جو قرآن پاک
پڑھ پڑھ کر غوروفکر کرنے میں بسر ہونی تھیں وہ عمر کا قیمتی حصہ دوسروں کی
عزتوں کو پامال کرنے میں گزر رہا ہے ہر کوئی اس دوڑ میں بڑھ چڑھ کے اپنا
حصہ ڈال رہا ہے.
آگ لگانے والوں کے اپنے ہاتھ بھی مخفوظ نہیں وہ بھی جل رہے ہیں لیکن دوسروں
کی عزت پامال کر کے ملنے والے لطف نے اس درد کو چھپا رکھا ہے،بنانے والے کو
پتا ہے وہ جھوٹ بنا رہا ہے،بنوانے والے کو پتا ہے وہ جھوٹ بنوا رہا
ہے؛پڑھنے والے کو بھی اس کے جھوٹ ہونے پہ یقین ہے اور اس کو آگے پھیلانے
والے کو بھی اس کی صداقت پہ شبہ ہے۔کسی پہ جھوٹا الزام لگانا اسے قتل کرنے
کے مترادف ہے خود کو بڑا ثابت کرنے کے لیے دوسروں کو چھوٹا ثابت نہ کریں آج
ہم عقل و شعور کی کئی منزلیں طے کر آئے ہیں انسانی تہذیب و تمدن، علم کی
فراوانی مل کر ایک مہذب معاشرے کو تشکیل دیتی ہیں جس میں کسی کی کردارکشی
کرنا بغیر کسی ثبوت کے انتہائی معیوب حرکت سمجھی جاتی ہے قرآن ہمیں جو بات
سمجھاتا ہے وہ یہ ہے کہ آگے بڑھنے کے لیے بلاوجہ کسی پر کیچڑ اچھالا جا رہا
ہے یا دوسرے لفظوں میں بہتان لگایا جا رہا ہے تو اس فعل سے لاتعلقی اختیار
کی جائے بلکہ متاثرہ شخص کے بارے میں اچھا گمان رکھتے ہوئے اسکا دفاع کیا
جائے.
اسکی تفصیل ہمیں سورۃ نور میں ملتی ہے کہ بغیر گواہوں کے کسی پر الزام
لگانا سخت گناہ کے زمرے میں آتا ہے اور اسکی سزا بھی بہت کڑی ہے لیکن ہم
اپنے معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ چھوٹی سی بات کا بتنگڑ بنا دیا جاتا ہے اس
سے نہ صرف متعلقہ افراد کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں بلکہ باقی لوگوں کو بھی
کوئی اچھا پیغام نہیں جاتا، برائی کی ترویج ہوتی ہے اور زندگی کے اچھے پہلو
کہیں دب کر رہ جاتے ہیں اگر غور کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دو چیزیں
ایسی ہیں جو معاشرے میں فساد کا موجب بنتی ہیں پہلے ہم لوگوں کی ٹوہ لیتے
ہیں انکی برائیاں تلاش کرتے ہیں پھر انکی پیٹھ پیچھے ان پر سیر حاصل تبصرے
کرتے ہیں اور جب غیبت سے تسلی نہیں ہوتی تو بات بہتان تک جا پہنچتی ہے.
چھوٹا سا معاملہ بہت بڑے فساد کی شکل اختیار کر جاتا ہے جس کی وجہ سے کئی
گھر ٹوٹتے ہیں، کئی زندگیاں تباہ ہوتی ہیں بغیر ثبوت اورگواہ کے کسی کی عزت
اچھالنا قذف کی مد میں آتا ہے اور قذف کی سزا اسلامی ریاست میں اسی (80)
کوڑے ہیں اسکے علاوہ ساری عمر کیلئے ان پر جھوٹے کا لیبل لگ جائیگا.غور طلب
بات یہ ہے کہ جو اسلام ہمیں اچھی بات بھی آگے پھیلانے سے پہلے تصدیق کر
لینے کا حکم دیتا ہے وہ بھلا جھوٹی اور من گھڑت بات کو بغیر تصدیق کیے آگے
پھیلانے پر ہمیں کیسے معاف کرے گا ایک مومن مسلمان کی حرمت آج دوسروں کے
ہاتھوں کھلونا بنی ہوء ہے
ذرا سوچیے کسی کے بارے میں جھوٹی باتیں پھیلانے کی ضرورت کیا ہے جب کہ اصل
خامیاں بڑی تعداد میں اور واضح انداز میں موجود ہیں،انہی کو بہتر انداز میں
اخلاق کے دائرے میں رہتے ہوئے بیان کیا جائے توکافی ہو گا ایک شخص کی صحیح
خامی کو بیان کرتے ہوئے بھی اتنی مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے کہ اسکی
اصل خامی اندر ہی چھپ کے رہ جاتی ہے وہ بجائے اس کے کہ قابل نفرت سمجھا
جائے،الٹا ہمدردی کا مستحق بن جاتا ہے مبالغہ آرائی کی وجہ سے تنقید میں
وزن نہیں رہتا تو تنقید کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے صرف سیاسی طور پر نہیں
بلکہ معاشرتی طور ہم سب اپنی اصل پہچان غلط کر رہے ہیں.
خدارا اس رجحان کو بدلیے اس آگ نے حرمت انسانی کے محل کو جلا کر راکھ کر
دیا ہے اور اس راکھ سے اٹھتے دھویں میں انسانی شکل تک دیکھنا مشکل ہے خدا
کے عذاب کی بجائے اس کے فضل کو دعوت دینی چاہیے۔کاش کے ندامت نصیب ہو،وہ
ندامت جو توبہ کے گھر تک لے جائے اور معافی کا در کھل جائے.اﷲ تعالی ہم سب
کو ایک دوسرے کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین یارب العالمین.
|