سرمایہ دارممالک جی۔سیون کے اجارہ داری نظام کے متبادل معاشی نظام کی ضرورت

دنیا میں مالیاتی طاقت کے استعارے کے طور پر متعارف گروپ آف سیون ( G7) کا اجلاس فرانس کے شہر بیارٹرز میں منعقد ہوا۔بیارٹز فرانس کا ایک سیاحتی شہر ہے ، جہاں تین روزہ عالمی کانفرنس میں امریکی صدر سمیت دیگر عالمی طاقتوں کے رہنما کانفرنس میں شرکت کی۔ بنیادی طور پر دنیا کی جدید ترین معاشی طاقتوں پر مشتمل کینیڈا، فرانس ، جرمنی ، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکا پر مشتمل بین الاقوامی تنظیم دنیا میں تجارتی مفادات میں باہمی تعاون و مسائل کے حوالے سے قائم کی گئی ہے۔ کینڈا کی شمولیت سے پہلےG-6کہلاتا تھا ، روس بھی اس تنظیم میں شامل تھا تاہم روس کے تنظیم سے نکلنے تک یہ گروپG-8کے نام سے معروف تھا۔یہ سات ممالک دنیا کی خالص دولت 3177ٹریلین کی نمایندگی کرتے ہیں ۔ بنیادی طور پر یہ جی ۔سیون دنیا کی چالیس فیصد مجموعی قومی پیداوار کے ذمہ دار ہیں۔ نمائندہ تنظیم جی ۔سیون اس وقت سرمایہ دارانہ نظام کا ایک اہم استعارہ ہے ۔ گروپ آف سیون کے اجلاس کے دوران سرمایہ دارانہ تنظیم کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین نے عالمی تجارت کی سرمایہ دارانہ تنظیم کے اقدامات کے خلاف اجلاس کے موقع پرجنوبی فرانس میں ہزاروں لوگوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف مظاہرے کیے اور ریلیاں نکالیں۔ مظاہرین کو بیارٹز شہر میں جاری اجلاس میں داخلے کی اجازت نہیں تھی، تاہم فرانسیسی حکام نے انہیں تیس کلومیٹر دور اسپین اور فرانس کو جوڑنے والے ایک پُل پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کی اجازت دی۔ مظاہرے میں شامل بیشتر لوگ پُرامن رہے تاہم بعض مقامات پر توڑ پھوڑ ہوئی اور پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔امریکا عالمی ماحولیاتی معاہدے کے سبب پہلے ہی ناقدین اور مظاہرین کی زد میں ہے جبکہ فرانس میں کئی ہفتوں سے جاری حکومت مخالف ’ یلو ویسٹ ‘ تنظیم کے کارکنان نے بھی کانفرنس کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے۔مظاہرین گروپ سیون ممالک کی جانب سے عالمی موسمیاتی تبدیلیوں پر خاموشی و ٹھوس اقدامات نہ کئے جانے پر کانفرنس کے شرکا کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ احتجاجی مظاہرین عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کا ذمے دار گروپ سیون کے ممالک کو خاص طور پر امریکا کو سمجھتے ہیں ۔ عالمی ماحولیاتی کے خاتمے کے حوالے سے جرمنی کی جانب سے امریکا پر سخت تنقید بھی کی گئی تھی کیونکہ امریکی صنعت کا بڑا حصہ موسمیاتی تبدیلیوں کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔احتجاجی مظاہرین دنیا کے معاشی نظام پر مخصوص ممالک کی پالیسیوں و گرفت پر شدید تحفظات رکھتے ہیں اور اس بات کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں کہ دنیا کو اس وقت سرمایہ دارممالک کے اجارہ داری نظام کے علاوہ متبادل معاشی نظام کی ضرورت ہے۔

1973میں تیل کے بحران کے باعث صنعتی ممالک کی اس تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا تھا ۔ جی۔ سیون سے قبل 1973میں اس لابی کو’ لائبریری گروپ‘ کی شناخت حاصل تھی۔ ابتدائی طور پر چار ممالک امریکا، مغربی جرمنی ،فرانس اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ کے گروپ کو مالیاتی اداروں نے وسعت دینے کے لئے جاپان کو شریک کرنے کی تجویز دی تھی۔ جاپان کی شمولیت کے بعدیہ تنظیم ’’گروپ آف فائیو‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔اُس وقت عالمی سیاست میں تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال کے سبب 1975میں فرانس کے زیر اہتمام سربراہی اجلاس ہوا۔ بعد ازاں چھ نمائندوں کی تنظیم کے خدوخال کے تحت1976میں چھ ممالک جرمنی ، اٹلی ، جاپان ، برطانیہ اور امریکا کا سربراہ اجلاس منعقد ہوا ۔کینیڈا 1976میں شامل ہوا۔1994میں امریکی صد بل کلنٹن نے روسی صدر بورس یلسن کو پہلے مبصر کی حیثیت سے مدعو کیا۔بعدازاں 1998میں روس کی باضابطہ شمولیت کے بعد گروپ ،جی۔ ایٹ بن گیا تاہم سرمایہ دارانہ نظام کے حامی ممالک نے یہ محسوس کیا کہ روسی فیڈریشن دیگر ممالک کے مقابلے میں کمزور ہے اس کی خالص دولت اور معیشت گروپ۔ سیون کے دیگر ممالک کا ساتھ نہیں دے سکتی نیز عالمی مالیاتی اداروں کی رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا کہ روس اعلیٰ ترقی یافتہ معیشت نہیں بن سکتا اس لئے مارچ 2014میں جی ۔ایٹ سے روس کے نکلنے کے بعد اب یہ گروپ جی۔ سیون کہلاتا ہے۔ جبکہ یورپی یونین کو بھی نمائندگی دی گئی ہے جس کے ممبران میں یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک ، اور یورپی یونین کمیشن کے صدر جین کولڈی جانکر بھی شامل ہیں۔ واضح رہے کہ برطانیہ اور یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک ایک دوسرے کو برطانیہ کے مسائل کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔1975سے2019تک اس گروپ کے مختلف اشکال میں 45اجلاس ہوچکے ہیں ۔ سات برس میں ہر رکن ملک ہر برس اجلاس کی میزبانی کرتا ہے۔ 2020 میں امریکا اور 2021میں برطانیہ گروپ کانفرنس کی میزبانی کرے گا ۔

گروپ۔ سیون مختلف سیاسی تنازعات کا شکار بھی رہا ہے۔ 2014میں روسی فیڈریشن کو کریمیا پر قبضے کے بعد گروپ۔ ایٹ سے معطل کردیا گیا تھا۔ جنوری2017میں روسی فیڈریشن نے گروپ۔ ایٹ کو مستقل طور پر چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور جون2018میں گروپ۔ ایٹ سے مکمل علیحدگی اختیار کرلی۔ یہ تنظیم 2014 تک جی۔ایٹ کہلاتی تھی لیکن پھر سابقہ یوکرائنی علاقے کریمیا پر روس کے قبضے کے بعد، روس کی رکنیت معطل کر دی گئی جس کے بعد سے یہ عالمی تنظیم جی۔سیون بن گئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خیال میں جی۔سیون ممالک کو چاہیے کہ روس کو اب واپس تنظیم کا رکن بنائیں لیکن بڑے یورپی ممالک اس کے سخت خلاف ہیں۔2015میں جی۔ سیون گروپ کے بعض اقدامات کے خلاف مظاہرے کئے گئے تھے جبکہ2018 میں امریکی صدر کی جانب سے گروپ۔ سیون سمیت یورپی ممالک سمیت بہت سے ممالک پر اسٹیل اور ایلومینم کے نرخوں میں اضافی ٹیکس پر گروپ۔ سیون کی خود مختاری پر سوالیہ نشان اٹھے کہ کیاG6+G1آپس میں مقابل ہیں ۔اِس وقت بھی امریکا گروپ اراکین کے ساتھ مالیاتی معاملات پر اختلافی رائے رکھتا ہے اور امریکی انتظامیہ کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات پر پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں ہیں۔ 2018کے مشترکہ اعلامیہ پر امریکا صدر نے دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا اور اجلاس میں بے دلی سے تاخیر سے آنے کے بعد جلدی بھی چلے گئے تھے ۔گروپ ۔سیون کی سرمایہ دارانہ ساخت میں چین جیسے ملک کو شامل نہ کرنا ، ظاہر کرتا ہے کہ اس وقت دنیا میں تجارتی جنگ میں سرمایہ دار نظام اور سوشلزم نظا م آپس میں متصادم ہیں۔ سوویت یونین کی جانب سے کیمونزم کو لے کر سرمایہ داری نظام کے خلاف سرد جنگ جاری تھی لیکن سوویت یونین کا دیا گیا نظام سرمایہ داری کے نظام کے سامنے کامیاب نہ ہوسکا اور افغان جنگ کے بعد سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا ۔اس وقت امریکا و گی۔سیون کے مالیاتی نظام کو چین چیلنج کررہا ہے ۔چین کے عظیم ون بیلٹ ون روڈ منصوبے سے امریکا سمیت کئی ممالک خوف محسوس کررہے ہیں کہ منصوبے کی کامیابی سے سرمایہ داری نظام اجارہ داری ختم ہوسکتی ہے اور عالمی تجارتی مارکیٹوں میں سستی چینی مصنوعات کی وجہ سے کئی ممالک شدید مالی بحران کا شکار ہوجائیں گے۔ امریکا پہلے ہی دنیا کے مختلف حصوں میں خانہ جنگیوں اور براہ راست جنگ کی وجہ سے بدترین مالی خسارے و بحران کا شکار ہے۔معاشی میدان میں دنیا کے بیشتر ممالک کو صدر ٹرمپ کی تجارتی پالیسیوں ، بلخصوص چین کے ساتھ تجارتی لڑائی پر تشویش ہے ۔ دیگر ممالک چاہتے ہیں کہ امریکا دوسرے ملکوں کی مصنوعات پر ڈیوٹی اور ٹیکس لگانے کی بجائے آزاد تجارت کو فروغ دے۔ لیکن اس حوالے سے امریکی صدر کا موقف بڑا سخت ہے کہ امریکا سے فائدہ اٹھانے والوں کو امریکا کو بھی فائدہ دینا ہوگا ۔ امریکی صدر معاشی ترقی یافتہ یا اہم ممالک سے کچھ لیے بغیر کچھ دینے کے حق میں نہیں۔ چین ، بھارت اور روس کی مختلف درآمدات پر بھاری محصولات کا اضافہ ، خاص کر طور پر چین کے ساتھ تجارتی جنگ نے سرمایہ داری نظام کے تابع گروپ سیون کے لئے بڑا چیلنج پیدا کیا ہوا ہے۔جی۔سیون اجلاس کے اراکین کے درمیان اجتماعی سوچ کا فقدان واضح طور پر نظر آرہا ہے۔ گوکہ ہر رکن ملک اپنی معاشی ترجیحات کو اہمیت دیتا ہے لیکن اراکین ممالک کے اختلافات کو مد نظر رکھتے مشترکہ لائحہ عمل کی امیدیں کم وابستہ کی جا رہی ہیں۔جی۔سیون میں برطانیہ کا یورپی یونین سے نکلنے کے معاملے پر شدید اختلافات ہیں۔ برطانیہ ، رکن ممالک فرانس اور جرمنی سے اپنے مطالبات کی حمایت چاہتا ہے لیکن دونوں ممالک کا موقف ہے کہ برطانیہ کو اس کی سیاسی اور معاشی قیمت چکا نا ہوگی۔فرانس ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات کے برخلاف امریکا ماحولیات میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھا رہا ، اس سے پہلے بھی امریکا اپنا موقف دے چکا ہے کہ عالمی ماحولیاتی اقدامات کی فنڈنگ امریکا پر زیادہ رکھی گئی ہے۔ جو غیر مساوی عمل ہے۔

اس بار برطانوی وزیراعظم بورس جانسن بریگزٹ کے معاملے پر فرانس اور جرمنی سے اپنے مطالبات منوانا چاہتے ہیں لیکن دونوں ملک سمجھتے ہیں کہ اگر برطانیہ ہر صورت میں اکتوبر کے اختتام تک یورپی یونین سے نکلنا چاہتا ہے تو اس کی اُسے سیاسی اور معاشی قیمت ادا کرنی ہوگی۔جی۔سیون ملکوں میں کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکا اپنے اپنے ممالک کے تجارتی معاملات میں الجھے ہوئے ہیں ،ان حالات مین جی۔سیون کے اجلاس سے قبل مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے یہ توقعات وابستہ کیں گئیں کہ امریکا یا جی۔سیون کے ممالک بھارتی وزیر اعظم پر دباؤ ڈالیں گے ۔ لیکن جس طرح جی۔سیون کے ناقدین کو اس تنظیم سے کوئی خاص امید نہیں ، پاکستان کو بھی مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے کوئی بڑی امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہیے کیونکہ سرمایہ داری نظام میں سیاسی مفادات کو انسانی حقوق سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ۔ جی ۔ سیون کے رکن ممالک بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر سرزنش کرنے کے بجائے متحدہ عرب امارات کی طرح اپنے تجارتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ لہذا جی۔ سیون کے رکن ممالک اپنے رسمی بیانات تک ہی محدود ہیں اس سے بڑھ کر وہ دنیا کی سب سے بڑی تجارتی مارکیٹ کے حامل ملک کے خلاف سخت اقدامات کرنے میں کبھی بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کریں گے ۔ پاکستان کو اپنے اندرونی سیاسی اختلافات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشی طور پر دنیا میں اپنا ایک مقام بنا سکے۔پاکستان کی22کروڑ کی آبادی بھی دنیا کے لئے ایک بڑی تجارتی مارکیٹ کا درجہ رکھتی ہے ، لیکن علاقائی معاملات سمیت مملکت میں سیاسی عدم استحکام سمیت عالمی قوتوں کی فروعی ترجیحات کی بنا پر پاکستان کو کئی دیرینہ مسائل کا شکار بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان ایشیا میں تیزی سے ترقی کرنے والی مملکت کے طور پر ابھر رہی تھی لیکن عالمی سازش کے تحت پاکستا ن کو علاقائی و عالمی تنازعات سے نکلنے نہیں دیا جارہا ۔ جو ریاست کے لئے لمحہ فکر ہے۔
 

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 657726 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.