پھر آج ضیا ء پاش وہی یوم دفاع ہے۔وہی یوم دفاع جب پاک
فوج نے اپنے سے کئی گنابڑی فوج کو یہ احساس دلایا تھا کہ ہمیں تر نوالہ نہ
سمجھے ہم لوہے کے چنے ہیں جسے تم کبھی نہ چبا سکو گے اور یہ بھی کہ ہم
تمھاری اینٹ کا جواب پتھر سے دے سکتے ہیں لہٰذا محتاط رہنا۔چھستمبر 1965
کورات کے اندھیرے میں بھارت نے بُزدلی کی انتہا کرتے ہوئے لاہور پر حملہ
کیا لیکن اُس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اُس نے پاک فوج کے شیر دل جوانوں
کو نہ صرف جاگتا بلکہ تیار پایا اور ایسا تیار جس نے دشمن کو واپس بھاگنے
پر مجبور کر دیا اور یوں اس جنگ کے پہلے ہی دن پاک فوج کا مورال ہمالیہ کی
چوٹیوں کو چھو گیا۔اُس وقت قوم نے بھی جس اتحاد کا ثبوت دیا وہ بھی بے مثال
تھا۔ایثار کی ایسی ایسی شاندار مثالیں قائم کی گئیں کہ قرون اُولیٰ کی یاد
تازہ کر دی اور جدیددُنیا کی تاریخ میں ایک ایسا باب رقم کیا جس کی مثال
مشکل سے ہی ملے گی اور دراصل یہی وہ اتحاد و اتفاق تھا جس نے اپنے سے کئی
گنا بڑی فوج کو کئی محاذوں پر شکست سے دو چار کیا۔بھارت ہماری سرحد پر
موجود ایک ایسا عیار و مکار دشمن ہے جو پاکستان کے خلاف کوئی موقع ہاتھ سے
جانے نہیں دیتا اُس نے نہ 14اگست1947کو پاکستان کو تسلیم کیا تھا اور نہ آج
دل سے تسلیم کرتا ہے اُس نے کبھی ہمسائیگی کے اُصول نہ سیکھے نہ آزمائے
بلکہ پاکستان کے لیے مسائل ہی کھڑے کرتا رہا ہے اور اب بھی وہ ایسا ہی کرنے
میں مصروف ہے لیکن جب جب اُس نے پاکستان کے خلاف قدم اٹھایا یہ بکھری ہوئی
قوم ایسی یکجا ہوئی کہ دشمن کو جس کا اندازہ بھی نہیں ہو پا تا اور یہی
اتحاد ہماری طاقت بن جاتا ہے جس میں سیاستدان سے لے کر عام آدمی تک سب ایک
سیہ پلائی ہوئی دیوار بن جا تے ہیں اور یہی چھ ستمبر کا ایک انمول سبق ہے
کہ ہم کبھی اپنے دفاع سے غافل نہ ہوں اور نہ ہی اتحاد واتفاق کا دامن ہاتھ
سے چھوڑیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہم کئی دفعہ بہک جاتے ہیں اور اپنے
درمیان ایسی کالی بھیڑوں کوپال لیتے ہیں یا انہیں جگہ دے دیتے ہیں جو اپنے
ہی ملک کے خلاف اُن کے دست وبازو بن جاتے ہیں یہ اور بات ہے کہ نیکی ہمیشہ
بُرائی پرغالب آجاتی ہے لیکن اس عقیدے کے ساتھ ساتھ اپنی تیاری بھی مکمل
رکھنی ہے، مگر اسی تیاری کے اوپر جس کے لیے اللہ تعا لیٰ نے حکم دیا کہ
اپنے گھوڑ ے تیار رکھو اور اپنی صفیں درست پر ہمارے تجزیہ کار وں کو اختلاف
ہوتا ہے وہ اپنی فوج کے خلاف کئی قسم کے محاذ کھولے رکھتے ہیں اُسی فوج کے
خلاف جو جنگ اور امن دونوں میں قومی تحفظ اور سلامتی کی امین بنتی ہے اُسی
کے اوپر بلاوجہ ایسی تنقید کی جاتی ہے جیسے یہ اپنی نہیں کسی دشمن ملک کی
فوج ہواور اسی تنقید کے بَل بوتے پر اور اسی کے بدلے میں بین الاقوامی سطح
پر شہرت اور دولت کما لیتے ہیں اور پھر اسی شہرت اور دولت کو ملک کے
محافظوں کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیتے یہ وہ طبقہ ہے جو دفاعی تیاری
سے لے کر دفاعی بجٹ تک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، ان کو وزیرستان میں
مرنے والے دہشت گردوں کی موت بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی لگتی ہے لیکن
اپنے فوجی افسرون اور جوانوں کی شہادت پر انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے۔وہ یہ
بھول جاتے ہیں کہ آج بھی دشمن آمادۂ شروفساد ہے اور وہی ہے جو مشرقی اور
مغربی دونوں محاذوں پر ہمیں زک پہنچانے کی کوشش میں مصروف ہے لہٰذا اُن کے
مقابلے کے لیے آج بھی گھوڑے تیار اور صفیں درست رکھنی ہیں ورنہ وہ آج بھی
رات کے اندھیرے کا ممکن طریقے سے جب بھی موقع ملے فائدہ اُٹھائے گا۔ بھارت
وہ دشمن نہیں جس نے اپنے نکتہء نظر میں کوئی بھی تبدیلی پیدا کی ہو وہ آج
بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا اور اس بات کے کئی ثبوت موجود ہیں
کہ وہ افغانستان کے راستے ہماری مغربی سرحد پر بدامنی پھیلاتا ہے اور مشرقی
سرحد تو بدقسمتی سے اس کے ساتھ جڑی ہوئی ہے لہٰذا وقتا فوقتا وہ اپنے کا
رندے کبھی بھیجتا ہے اور کبھی ہمارے اندر سے ہی تلاش کر لیتا ہے یہ اور بات
ہے کہ اس کے کئی جاسوس پکڑ لیے جاتے ہیں اور بھارت کی پیشہ ورانہ بد نامی
کا باعث بن جاتے ہیں یوں وہ پاک فوج، ہمارے دیگر اداروں اور عوام کے ہاتھوں
بار بار شرمندگی اُٹھاتا ہے جس میں حال ہی کے دو واقعات یعنی کلبھوشن کی
گرفتاری اور ابھی نندن کی قید اور پھر رہائی بھارت کے لیے ایک ایسی شرمندگی
ہے جس سے وہ برسوں جان نہ چھڑا سکے گا اور پاک فوج اور آئی ایس آئی کے لیے
تمغے ہیں جو کسی کسی فوج کے حصے میں آتے ہیں اور یہ اس فوج کی پیشہ ورانہ
بالادستی کا ثبوت بھی ہیں جو بھارت کو بار بار چھ ستمبر کی ہزیمت کی یاد
دلاتے ہیں کہ اگراُس وقت کوئی ایم ایم عالم اور میجر عزیز بھٹی تھے تو آج
بھی ان کی کمی نہیں یہ فوج آج بھی اُسی طرح چوکس و چوبند و خبردار ہے جیسے
1965 میں تھی اور یہ آج بھی تاریخ اور واقعات کا دھارا اُسی طرح موڑ سکتے
ہیں جیسے انہوں نے 1965 میں کیا تھا بس ضرورت اُسی اتحاد واتفاق کی ہے جس
کا مظاہرہ قوم نے تب کیا تھا۔آج ایک بار پھر بھارت اسی کوشش میں مبتلاء ہے
کہ وہ بر صغیر کے امن کو تباہ کرے اور اسی لیے اُس نے کشمیر میں مہم جوئی
کی ہے اس کا لحجہ بھی دھمکی آمیز ہے اور انداز بھی لیکن ہر بار پاک کی فوج
جوابی کاروائی میں وہ اپنے اندازے سے زیادہ ہزیمت اُٹھا رہا ہے اور یہ اس
بات کا ثبوت ہے کہ پاک فوج آج بھی مکمل تیار ی میں ہے اور یہی ڈر اور خوف
اسے پاکستان کے خلاف کسی مہم جوئی سے باز رکھے ہوئے ہے ورنہ اُس سے کسی بھی
اقدام کی توقع کی جا سکتی ہے یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ فوج تو تیار ہے ہی
لیکن بحیثیت قوم ہمیں ہر ہر زاویے سے اس کی حماقت کا جواب دینے کے لیے تیار
رہنا ہو گا اپنے اندر کی کالی بھیڑوں کو پہچاننا بھی ہو گااور اُن پر نظر
بھی رکھنا ہو گی پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہم دشمن کے مقابلے میں سر خرو نہ ہوں۔
|