ہر سچ کو تین مراحل سے گزرنا ہوتا ہے۔پہلے مرحلے میں مذاق
اڑایا جاتا ہے۔پھر شدید مخالفت کا مرحلہ آتا ہے اور آخری مرحلے میں اسے
اظہر من الشمس سمجھ کر تسلیم کیا جاتا ہے ۔یہ جرمن فلسفی آرتھر شاپن ہاور
کا قول ہے ۔میاں محمد نواز شریف کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے ۔پہلے میاں
نواز شریف کی حکومت چھین کر مذاق بنایا جاتا ہے ۔پھر چور،ڈاکو بنا کر دنیا
کے سامنے ذلیل کیا جاتا ہے ۔اب ان سے ڈیل کرنے کی خبریں میڈیا پر زور و شور
سے گفتگو بحث بنی ہوئی ہے۔سیاست میں حالات بدلنے کا پتہ نہیں چلتا اور
پاکستانی سیاست پر مستقبل کی پیشن گوئی کرنا مشکل ترین کام ہے ۔لیکن جب
حالات اتنے واضح صورت حال اختیار کر لیں تو نتائج اخذ کرنا کوئی مشکل کام
بھی نہیں رہ جاتا۔
عمران خان کا وژن ریاست مدینہ ان کی اپنی اور نا اہل ٹیم کی وجہ سے شروع
ہونے سے پہلے ختم ہو چکاالبتہ ملک و قوم کو مکی زندگی کی طرف ضرور دھکیل
دیا گیا ہے ۔پی ٹی آئی کے وزیروں نے حکومت کے پہلے تین ماہ پر خرابی کا ذمہ
دار سابقہ حکومت کو ٹھہرایا،اگلے تین ماہ محکموں کے سربراہان پر اور اب
باقی سارا ملبہ بیوروکریٹ پر ڈال کر اپنے آپ کو کسی بھی ذمہ داری سے صاف
سبکدوش کر لیا ہے ۔ملک کی بگڑتی صورت حال پر مقتدر حلقے تشویش کا شکار ہیں
اورموجودہ حکمرانوں سے قوم کی جان چھڑوانے کے لئے سرگرم ہیں ۔لیکن اس کے
لئے راستہ ڈھونڈا جا رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف سے ان کے ساتھ
ہونے والی زیادتیوں کی معذرت بھی کی گئی ہے ۔انہیں ریلیف دینے پر ملک
چھوڑنے کی شرط رکھ دی ہے،مگر میاں محمد نواز شریف جو کہ ملک کے تین بار
وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہ چکے ہیں ۔انہوں نے ملک چھوڑنے سے صاف انکار
کر کے ریلیف کی آفر کو مسترد کر دیا ہے ۔عوامی مقبولیت کے حوالے سے سب
جانتے ہیں کہ میاں نواز شریف کتنے بھاری بھرکم شخصیت ہیں ۔ملک میں ان کے
پائے کی سیاسی لیڈر شپ موجود نہیں جو عوام میں مقبول ہو۔ان سے مقتدر طبقے
اور حکومت کو انتہا درجے کا خطرہ ہے ۔میاں محمد نواز شریف کے متعلق سمجھا
جاتا تھا کہ وہ قید و بند کی صعبتیں برداشت نہیں کر سکیں گے اور ریلیف
مانگیں گے،ان کا راستہ صاف ہو جائے گا۔لیکن میاں نواز شریف نے جیل کی
تکالیف برداشت کرنے کو اہمیت دی،بجائے کہ وہ اپنا سرِ تسلیم خم کر لیں ۔انہوں
نے مولانا فضل الرحمن کا اکتوبر میں آزادی مارچ کی پوری سپورٹ کی حامی بھر
لی ہے ۔دوسری جانب مولانا فضل الرحمن کو ہر جانب سے دبایا جا رہا ہے۔ان سے
بھی ڈیل کی باتیں کی جا رہی ہیں ،مگر مولانا سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن پارٹیوں
نے پہلے ہی بہت زیادہ وقت ضائع کر دیا ہے ۔مولانا فضل الرحمن بالکل ڈٹے
ہوئے ہیں۔وہ اپنی سیاسی قائدین اور مدرسوں کے طلباء و سیاسی کارکنوں کے
اسلام آباد کی جانب آزادی مارچ کر نے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں ۔
جب کوئی نظریاتی سوچ کا حامل بن جاتا ہے ،تو سب سے پہلے وہ اپنے نظریے کو
وضع کرتا ہے ۔پھر اس نظریے کی روشنی میں زبان متعلقہ کے اب پاروں کی افہام
و تفہیم کے بعد اس پر کسی حتمی فیصلے صادر کرنے پر خود کو قادر پاتا ہے ۔میاں
نواز شریف نے اپنے نظریے کی قدر وقیمت متعین کرنے میں اپنی ذاتی پسند و نا
پسند کے برعکس خود کو پابندِ اقدار کر لیا ہے ۔میاں نواز شریف کی عظمت کی
مضبوط دلیل یہ ہے کہ عمران خان اور اس کی پوری ٹیم نے لاکھ کوشش
کی،شورشرابہ کیا،گریہ زاری ،جھوٹے سچے الزامات کی بوچھاڑ کر دی،دنیا کے ہر
پلیٹ فارم پر رونا رویا،مگر عمران خان کو میاں محمد نواز شریف کی پرچھائی
تک کے مدِ مقابل کھڑا نہیں کر سکے ۔آج بھی الیکشن کروا کے دیکھ لیں ۔عوام
کے دلوں پر راج میاں نواز شریف کا ہے ۔اس سے قارئین یہ نہ سمجھ لیں کہ میاں
نواز شریف دودھ کے دھلے ہیں ۔انہوں نے کوئی غلطی نہیں کی ۔وہ ملک و قوم کے
لئے بہت ہی مخلص تھے ۔میرا مقصد ہر گز یہ کہنا نہیں ہے ۔لیکن جب کوئی دوسری
قیادت دریافت ہونے کے بعد اپنی عملی کارکردگی کا ثبوت نہیں دے گی ۔اس وقت
تک کسی اور کی عظمت متعین نہیں کی جا سکتی ۔
اب میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کے اکتوبر میں اپوزیشن جماعتوں کے
ممکنہ آزادی مارچ نے حکومت اور مقتدر حلقے کو متحرک کر دیا ہے ۔ایک طرف
سرحدوں پر کشیدگی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے ۔دوسری جانب اسلام آباد کی جانب
آزادی مارچ کو ناکام بنانے کی تیاریاں ہیں۔ اس معاملے کا مقتدر طبقے نے ایک
حل یہ بھی نکالا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو دو ٹکڑے کردیئے جائیں ۔ایک دھڑے کی
قیادت میاں محمد شہباز شریف یا چودہدری نثار علی خان میں سے کسی ایک کو دی
جائے جبکہ دوسرا دھڑا میاں نواز شریف کی سربراہی میں کام کرے ۔یہ پرانا ہتھ
کنڈا ہے جسے آزمایا جا رہا ہے اور اسی فارمولے کی وجہ سے ماضی میں ملک و
قوم نے نا قابل تلافی نقصانات اٹھائے ہیں ۔یہ بات یقینی ہے کہ مقتدر حلقے
اور مقتدر شخصیات آزادی مارچ کو روکنے میں تاحال نا کام رہی ہیں ۔زیر حراست
ملزمان کی رہائی اور مزید گرفتاریاں نہ کرنے کی بھی یقین دہانی کروائی جا
چکی ہے ۔
مسلم لیگ (ن) کی بڑی تعداد ایسی ہے کہ جو چاہتی ہے کہ مقتدر شخصیات کے ساتھ
ڈیل کر لی جائے ۔تاکہ ان کی نیب سے جان چھوٹ جائے ۔لیکن میاں نواز شریف
ایسا بالکل نہیں کرنا چاہتے ۔لیکن پیپلز پارٹی کی قیادت ریلیف ملنے پر
مقتدر حلقوں سے ہر طرح کی ڈیل کے لئے تیار ہے۔اب کیونکہ پیپلز پارٹی سے
زیادہ اہمیت مسلم لیگ (ن) اور مولانا فضل الرحمن کی ہے ۔ملک انتہائی بحرانی
کیفیت سے دوچار ہے ۔ایسے میں ملک کو سہارا دینے کی ضرورت ہے ،مگر اس وقت
آزادی مارچ کیا جارہا ہے ۔حالات کا اس نہج تک پہنچنے کی بڑی وجہ حکمرانوں
کا جھوٹ ہی جھوٹ اورہر معاملے میں کھوٹ ہی کھوٹ ہے ۔جھوٹ کے اس چو طرفہ
ہجوم میں حکمرانوں نے سچ کو بہت اذیتیں دی ہیں ۔ان کی ہر بات میں کھوٹ ہے
۔جسے وہ اپنی کامیابی کی کنجی سمجھتے ہیں ۔اندرونی معاملات سے لے کر کشمیر
تک ان کا اعتبار ختم ہو کر رہ گیا ہے ۔جس کے باعث یہ جھنجھلاہٹ کا شکار
ہیں۔یہ عوام فریاد کناں ہے کہ اندرونی حالات پر توجہ دیں ۔معیشت کو درست
کرو،مگر اگر سلیکٹڈ وزیر اعظم ملک میں ہوگا،تو اس کی اہلیت نہیں ہے کہ ملکی
اندرونی معاملات اور معیشت کو استحکام دے سکے ۔سول حکمرانوں کو جیلوں میں
ڈال دیا جاتا ہے ۔انہیں بدنام کرنے ، بدعنوان بنانے کی تدبیر تو جنرل ایوب
خان کے دور سے تا حال جاری ہے ۔
اب وہ پاکستان کے زیادہ خیر خواہ کہاں ہیں ،جنہیں ماضی کے سیاست دان تو بد
دیانت پست لگتے تھے ،انہوں نے ایک نام نہاد اور نا اہل سیاست دان کو
سیاستدانوں کے خلاف ہی ایک وظیفہ دے کر پیچھے لگایا۔’’چور ،ڈاکو لٹیرا
،کرپٹ اور چھوڑوں گا نہیں‘‘۔اس سے ایک سال کے اندر ملک کا ایسا بیڑہ غرق
کروایا ،اگر مودی کو بھی یہ مشن دیا جاتا تو وہ بھی اتنی جلدی تباہ کن
نتائج نہ دے سکتا۔آج بھی سلیکٹڈ کا مقتدر شخصیات کے لئے خاص طرح کا احترام
قائم و دائم ہے ۔بوٹ پالش کرنے کا یہ انداز انہیں ان کی آنکھ کا تارا بنا
چکا ہے ۔
کسی ملک کی خوشحالی کا آغاز معیشت کی بہتری سے ہوتا ہے ،لیکن موجودہ حکومت
کی نا اہلی یا ایجنڈے نے قومی معیشت کو مالیاتی اداروں کے پاس گروی رکھ کر
اتنے قرضے لئے ہیں ،جو گزشتہ حکومتوں نے دس سال میں بھی نہیں لئے تھے ۔آج
جنہیں قومی دولت کے لٹیرے کہا جاتا رہا ہے ،ان سے ساز باز کرنے کی کوشش کی
جا رہی ہے ۔جن لٹیروں کو عبرت ناک سزائیں دینے کی بات کی جاتی تھی ،ان سے
خود چل کر ڈیل کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں ۔یہ سارا ٹوپی ڈرامہ ختم کر دیں
۔عوام با شعور ہے ۔اسے بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا ۔چاہے میڈیا کو جتنا مرضی
کنٹرول کر لیں ۔اس بار نقصان انہی قوتوں کو ہو گا جو ملک و قوم کے دشمن کی
صف میں کھڑے ہیں ۔ |