جہاندیدہ استاد بھی اللہ کی ایک نعمت ہوتا ہے اسکی باتیں
انسان کی عمر بھر کی ساتھی بن جاتی ہیں آپکو زندگی کے کسی بھی فلسفے یا راہ
میں کھڑے مسلے کو سمجھنا ہوتو استاد کا کہا کوئی ایک جملہ ، کوئی ایک
نصیحیت یا کورس کی کتاب سے ہٹ کر سنائی کوئی ایک کہانی آپکے لیے آئینہ بن
جاتی ہے ہر فلسفے کی گتھی سلجھنے لگتی ہے اور ہر مسلے کا حل سمجھ آنے لگتا
ہے
ہمارے ایک استا د نے دوران بحث ایک ایسا ہی فارمولہ بتایا تھا جو ہمیشہ ہی
ماحول کو سمجھنے اور مسائل کا ادراک کرنے میں فایدہ مند ثابت ہوا
انہوں نے کہا" گھر ایک بنیادی یونٹ ہے آپکی تعلیم و تربیت کا پہلا زینہ اور
محلوں ، شہروں اور ملکوں کے مسائل سمجھنے کا آسان طریقہ
گھر ...... جہاں "باپ "ریاست کے فرایض ادا کرتا ہے اور جہاں "ماں " کی
حکومت چلتی ہے اور اگر ماں اور باپ بچوں کی دیکھ بھال ، تعلیم و تربیت ،
صحت اور انصاف کا خیال نہ رکھیں ، تو گلی کےغنڈوں موالیوں کو پورا حق
پہنچتا ہے کہ ایسے خودغرض و ناہنجار "ماں باپ" کے بیٹوں کو نشے باز اور
بیٹیوں کو نظر باز بنا ڈالیں
استاد کی بات دنیا کے ہرریاست و حکومت پر پوری اترتی ہے
جن ریاستوں نے اپنی عوام کو جمہوریت، انصاف اور امن دیا ہے وہاں جانے کو
ایک دنیا بیتاب نظر آتی ہے
پاکستان جواپنے قیام کے وقت خدا کی دی ہوئی ہر نعمت سے مالا مال تھا صرف
ریاست کی ناانصافیوں اور حکومتوں کی بے توجہگی سے اس حال میں پہنچ گیا ہے
کہ "محلے کے لڑکے بالے " دیوار پھلانگ کر صحن میں ٹپکنے کو ہر دم تیار رہتے
ہیں اور کیوں نہ رہیں ؟؟ اس گھر کو آگ گھر کے چرآغوں سے ہی لگی ہے باہر
والوں کو کیا دوش دیں ؟
ستر سال میں وطن عزیز نے یہ کمال بھی کر دیکھایا کہ دنیا کے نقشے میں اپنی
اہمیت رکھتے ہوۓ بھی کسی عالمی فورم میں کوئی اہم کردار ادا کرنے کے قابل
نہیں رہا سلامتی کونسل ہو یا غیر جانبدار ممالک کی بیٹھک یا پھر اسلامی
ممالک کی کانفرنس ... آپکو کسی بھی مسلے پر پاکستان کا ٹھوس اور بنیادی
کردار نظر نہیں آ ے گا
وجہ صاف ظاہر ہے . "اولاد " میں امتیاز برتیں گےتوگھر میں بد اعتمادی کی
فضا قایم ہوگی اور نتیجہ ساری دنیا کو دیوار پر لکھا نظر آ ئے گا
باپ ایک بیٹے کو گھر کا مالک بنا بیٹھا ہے، باقی اولاد روۓ ، چیخے یا تڑپ
تڑپ کر جان دے دے ، نہ باپ کو پرواہ ہے نہ ماں کو پچھتاوا اور پھر صبح شام
باپ کے ہاتھوں پٹتی ماں کی کون عزت کرے اور کیوں عزت کرے ؟
یہ باپ نہ صرف ماں کو گھر میں بچوں کے سامنے بے عزت کرتا ہے بلکہ محلے میں
جہاں چار آدمی جمع ہوتے ہیں وہاں ماں کی تذلیل کرنے کے لیے نت
نئے فسانے گھڑتا ہے " میری بیوی گھر سے بھاگی ہوئی عورت ہے ، آج کل میں ہی
طلاق دے دوں گا ،چورنی جو ہے
کیا آپ نے کبھی اس قسم کے گھروالوں کی عزت کی ہے ؟ اور بیوی کو ذلیل کرنے
والا شوہر کب عزت دار ہوا ہے ، ایسا کبھی سنا ؟
اورپھر ماں کو تو جیسے بچوں کے باپ سے جوتے ، تھپڑ اور گالیاں کھانے کا نشہ
ہے ، روز پٹتی ہے ، روز گھر سے نکالی جاتی ہے مگر روز دہلیز پر سجدے کر کے
گھر میں گھسنے کی بھیک مانگتی ہے وہ بھی بچوں کے لیے نہیں بلکہ اپنا سر
چھپانے کے لیے ! ! اور پھر طلاق ملنے کے خوف نے یوں بھی اپنی حقیقی ذمہ
داریاں اس خود غرض ماں کو بھلا دی ہیں
نہ بچوں کی تربیت نہ تعلیم ، نہ صحت نہ انصاف
جو روٹی توے سے اٹھا کر لے جاۓ روٹی اسکی .... جو کمزور اپنی خالی پلیٹ لیے
ماں کی توجہ کا منتظر ہے اسکی پلیٹ سدا ہی خالی
جس نے اپنے حصے کا دودھ بھی پی لیا اور اپنے بھائی کے حصے کا بھی اسکو نہ
ماں کی ڈانٹ کی پرواہ ہے نہ باپ کی سختی کی... آپ سوچ سکتے ہیں وہ بڑا ہو
کر کیا بنے گا ؟
اورجو بھی بنے گا اسپر گالی ماں باپ کو ہی پڑے گی کیونکہ دستور دنیا یہی ہے
شاگرد کی غفلتوں پر استاد گالی کھاتا ہے اور اولاد کی ناکامیاں ماں باپ کے
کھاتے میں ہی آتی ہیں
گھر میں جھانکے کا الزام دوسروں پر لگانے والا یہ نہیں دیکھتا کہ اس نے
اپنے بچوں کے درمیان ایسا امتیاز اور ناانصافی پروا ن چڑھا دی ہے کہ کبھی
ایک بچہ توکبھی دوسرا بچہ ہمسایوں میں بیٹھ کر گھر میں انپر روا تمام
ناانصافیوں کی لسٹ سنانا شرو ع ہوجاتے ہیں اور بات ہمساۓ سے نکل کر پورے
محلے میں پھیل جاتی ہےمگر حرام ہے کہ ناکام باپ اور نااہل ماں اپنے
گریبانوں میں جھانک لیں انکا شکوہ ، ناراضگی ہمیشہ پھٹی قمیض ، ٹوٹی چپل ،
مٹی دھول سے اٹے جسم اور خالی پیٹ والے شکایتی بچے سے ہی رہتی ہے کہ "
کمبخت ! گھر کی بات باہر کیوں بتائی ، بھوکا پیاسا مر جاتا تو کیا قیامت
ہوتی ؟ تو نے تو اپنا حال گھر سے باہر دیکھا کر ہماری ناک کٹوا دی "
کاش !!! کہ ریاست نامی باپ اور حکومت نامی ماں یہ جانتے کہ ناک ان عزت
داروں کی ہوتی ہے جو اپنی ذمہ داریاں بہترین انداز سے پوری کریں نہ کہ اپنے
بچوں کو بربادی کی راہ پر ڈالیں
ایسے " ماں باپ " کے لیے اطلاع ہے کہ نہ ان کی ناک ہوتی ہے نہ کسی کو کاٹنی
پڑتی ہے
|