پاک فضائیہ اور اقبال کے شاہینوں کے کارنامے

1965کی پاک بھارت میں دشمن کے چھکے چھڑانے والے شاہینوں کی داستان شجاعت

یوں تو پاک فضائیہ کا دن 7 ستمبر کومنایا جاتا ہے لیکن 1965 ء کی سترہ روزہ پاک بھارت جنگ کے دوران نہ صرف پاک فضائیہ کے شاہینوں نے وطن عزیز کے تحفظ اور بری فوج کو فضائی سپورٹ یقینی بنائی بلکہ بھارت کے کتنے ہی ہوائی اڈوں کو اپنی بہترین تکنیک اور بہادری سے راکھ کاڈھیر بھی بنایا ۔6 ستمبر 1965ء کی شام پانچ بج کر بیس منٹ پر سکوارڈن لیڈرسرفراز رفیقی ‘ فلائٹ لیفٹیننٹ یونس حسن اور فلائٹ لیفٹیننٹ سیسل چودھری کو بھارت کے تین ہوائی اڈوں(ہلواڑہ ‘ پٹھان کوٹ‘ جام پور) کو تباہ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ۔جیسے ہی یہ قافلہ اپنے ٹارگٹ پر پہنچا تو بھارت کے دس ہنٹر طیاروں نے ان پر حملہ کردیا جبکہ زمین سے طیارہ شکن گنیں فائر الگ کررہی تھیں۔رات کا اندھیرا پھیل چکا تھا سکوارڈن لیڈر سرفراز رفیقی نے دشمن طیاروں کو دیکھتے ہی ساتھی پائلٹوں کو پٹرول کی ٹینکیاں گرانے کا حکم دیالیکن یونس حسن کی پٹرول کی ٹینکی نہ گر سکی جبکہ مقابلے کے دوران سرفراز رفیقی کے طیارے کی گنیں جام ہوگئیں۔آپ نے مقابلے سے دستبردار ہوکر وطن واپس آنے کی بجائے اپنے ساتھیوں کی مدد جاری رکھی ۔ ان مشکلات کے باوجود دشمن کے تین طیارے تباہ کردیئے گئے۔بھارتی طیارے کا ایک گولہ سرفراز رفیقی کے طیارے کو لگا۔ جس سے طیارہ تباہ اور سرفراز رفیقی شہید ہوگئے ۔

سرفراز رفیقی 18جولائی 1935ء کو راجشاہی ( موجودہ بنگلہ دیش) میں پیدا ہوئے ۔ بعدازاں آپ کی فیملی لاہور شفٹ ہوگئی پہلے لاہور کے سینٹ انتھونی ہائی سکول بعد میں ملتان میں سینٹ جوزف کانونٹ میں زیر تعلیم رہے ۔گورنمنٹ ہائی سکول ملتان سے میٹرک کاامتحان پاس کیا ۔1951ء میں ڈی جے سندھ سائنس کالج کراچی سے ایف ایس سی کاامتحان پاس کرکے آپ نے 3اپریل 1951ء کو پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی اور 1953ء میں کمیشن حاصل کیا۔آپ کے والد بشیر احمد رفیقی انشورنس کے شعبے سے وابستہ تھے ۔ سرفراز رفیقی کے چار بھائی اورایک بہن تھی ۔ آپ سب سے چھوٹے تھے ۔ آپ کے بڑے بھائی اعجاز رفیقی بھی پاک فضائیہ میں پائلٹ کی حیثیت سے پہلے ہی موجود تھے 1951ء میں لاہور ائیرپورٹ پر جہاز سے گدھ ٹکرانے کی وجہ سے ان کا جہاز تباہ ہوگیا اور انہوں نے جام شہادت نوش کیا۔ یکم ستمبر 1965ء کو جب چھمب چوڑیاں محاذ پر دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان کشیدگی عروج پر تھی ۔بھارتی فضائیہ نے اپنی فوج کی مدد کرنا چاہی تو بھارتی فضائیہ کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے جس پاکستانی پائلٹ کو بھیجا گیا وہ سرفراز رفیقی ہی تھے ۔جنہوں نے چار بھارتی طیاروں میں سے تین کو مارگرایا جبکہ ایک بھارتی طیارہ مقابلے سے دستبردار ہوکر فرار ہوگیا۔آپ کو بعد از شہادت ہلال جرات کا اعزاز دیاگیا۔

خواجہ یونس حسن نے ہلواڑہ کا ہوائی اڈہ تباہ تو کردیا لیکن ان کا طیارہ آگ کی لپیٹ میں آگیا ۔خواجہ یونس حسن نے اپنے ساتھی سیسل چودھری کو یہ پیغام دے کر‘ آگ میں جلتا ہوا میرا طیارہ پٹھان کوٹ ہوائی اڈے پر کھڑے ہوئے تمام بھارتی طیاروں کو بھی راکھ کا ڈھیربنا دیااور خود بھی جام شہادت نوش کیا ۔آپ کو بعد از شہادت ستارہ جرات سے نواز اگیا ۔ فلائٹ لیفٹیننٹ خواجہ یونس حسن یکم جون 1935ء کو پانی پت کے مقام پر پیدا ہوئے ۔ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی ۔ ابھی آپ اٹھویں جماعت میں ہی تھے کہ پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھر آیا۔چنانچہ آپ کاخاندان ہجرت کرکے جھنگ شہر میں آبسا ۔میٹرک کاامتحان گورنمنٹ ہائی سکول ملتان سے پاس کیا ۔ایف ایس سی کی تعلیم گورنمنٹ کالج جھنگ سے حاصل کی ۔ 30مئی 1956ء کو آپ پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی اور 26جون 1958ء کو باقاعدہ جی ڈی "پی"کی حیثیت سے پاک فضائیہ میں کمیشن حاصل کیا۔ 29فروری 1961کو آپ کی شادی ہوگئی ۔اﷲ تعالی نے دو بیٹے عطا فرمائے۔ ایک سجاد یونس اور دوسرا فواد یونس ۔ دونوں بیٹے اب پاک فضائیہ کے انجینئر نگ شعبے سے وابستہ ہیں۔آپ کی شہادت پر آپ کی والدہ " سکینہ بی بی "نے اپنے بیٹے کی بے مثال جرات پر فخر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ میرا اکلوتا بیٹا وطن پر قربان ہوگیا ۔ بے شک وہ اکلوتا بیٹا تھا لیکن وطن کی آبرو سے زیادہ قیمتی نہ تھا۔حکومت پاکستان نے انہیں ستارہ جرات سے نوازا حالانکہ وہ نشان حیدر کے مستحق تھے ۔

اس ابتدائی فضائی قافلے سے صرف فلائٹ لیفٹیننٹ سیسل چودھری ہی زندہ سلامت واپس آسکے۔(یادرہے جب سیسل چودھری کی بیٹی سخت بخار میں تپ رہی تھی ‘ بیگم نے کہا آپ کو اپنی بیٹی کی تکلیف کااحساس نہیں۔ سیسل چودھری نے جواب دیا میں اپنی ایک بیٹی کو دیکھو ں یا تین کروڑ بیٹیوں کو دیکھوں جو مجھے اپنے تحفظ کے لیے پکار رہی ہیں۔یہ کہتے ہوئے سیسل چودھری فلائنگ کے لیے گھر سے نکل آئے اور پہلے فضائی قافلے کا حصہ بنے۔
...................
13ستمبر 1965ء کو ایک اور فضائی قافلہ سکوارڈن لیڈر علاؤ الدین احمد کی قیادت میں ایک اور قافلہ فلائٹ لیفٹیننٹ سلیم ‘ فلائٹ لیفٹیننٹ امان اﷲ اور فلائٹ لیفٹیننٹ منظور‘ روانہ ہوا۔اس سے پہلے یہ فضائی قافلہ چونڈہ کے محاذ پر سینکڑوں کے حساب پر بھارتی ٹینکوں پر کامیاب حملے کرچکا تھا۔جیسے ہی یہ قافلہ گرداسپورپہنچا تو انہیں اسلحے اور فوجیوں سے بھری ٹرین دکھائی دی ۔سکوارڈن لیڈر علاؤ الدین جب راکٹ فائر کیے تویکے بعد دیگرے زور دار دھماکے ہوئے اور فضاکو سیاہ بادلوں نے گھیر لیا ۔جب دو بارہ انتہائی نیچی پرواز کرتے ہوئے ٹرین کے اوپر سے گزرے کہ ٹرین کا کوئی ڈبہ تباہ ہونے سے رہ تو نہیں گیا۔ تو لوہے کے ٹکڑے آسمان کو چھو رہے تھے چند ٹکڑے سکوارڈن لیڈرعلاؤ الدین احمد کے طیارے کو جالگے جس سے طیارے کو نقصان پہنچا اور کاک پٹ میں دھواں بھر گیا۔ شواہد کے مطابق آپ چھاتہ کے ذریعے نیچے اتر گئے ۔دشمن نے انہیں کو شہید کردیا۔آپ کو بعداز شہادت "ستارہ جرات "کا اعزاز دیاگیا۔

آپ 3اکتوبر 1930ء کو مشرقی پاکستان میں پیدا ہوئے ۔ میٹرک تک تعلیم کلکتہ میں حاصل کی ۔1950ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی سے انٹرمیڈیٹ کاامتحان پاس کیا 13جون 1952ء کو آپ نے پاک فضائیہ میں باقاعدہ کمیشن حاصل کیا۔ آپ کے والدڈاکٹرتجمل احمد ‘پا ک و ہند کی معروف شخصیت تھے ۔خدمات کے صلے میں انہیں ستارہ امتیاز ‘ تمغہ پاکستان اور قیصرہند کا اعزاز بھی ملا۔ابتدا میں آپ کا خاندان کلکتہ میں مقیم تھا بعد میں ڈھاکہ منتقل ہوگیا۔آپ کے والد ڈھاکہ میڈیکل کالج کے سب سے پہلے پرنسپل تھے ۔
.................
سرگودھا میں پہلے روز فضائی جنگ کا ہیرو مشرقی پاکستان کا ہوا باز محمد محمود عالم ہے ‘ جس کے کارنامے پر تمام پاکستانی سر فخر سے بلند کرسکتے ہیں ۔دراصل بعض لڑاکا طیاروں میں راڈر نصب ہوتے ہیں جن کی مدد سے ہوا باز دشمن کے طیاروں کی نقل و حرکت دیکھ کر پینترے بدلتا ہے۔طیارے میں لگی ہوئی مشینی آنکھ کی مدد سے نشانہ باندھ کر بٹن دبا دیاجاتا ہے جس سے گنیں چلتی ہیں اور گولیوں کی بوچھاڑ ہوتی ہے جس سے بچ نکلنا تقریبا ناممکن ہوتا ہے ۔جب لڑاکا طیارے آمنے سامنے آکر ایک دوسرے پر جھپٹتے ہیں ‘ پینترے بدلتے ہیں ‘ پہلو بچاتے ہیں تو ہر ہوا باز اپنے حریف کے پیچھے پہنچ کر فائر کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔اس لڑائی کو ہوا بازی کی اصطلاح میں" ڈاگ فائٹ" کہاجاتاہے ۔ایسی فضائی جھڑپیں محض چند منٹ پر ہی محیط ہوتی ہیں لیکن اس میں حاضر دماغی ‘ چابکدستی اور فنی مہارت کی بہت ضرورت ہوتی ہے ۔ذرا آنکھ کا یا جہاز کے کسی پہلو کا زاویہ بگڑا تو ہوا باز اور طیارے کی خیر نہیں ۔سکوارڈن لیڈر محمد محمود عالم نے جس داؤ سے بھارت کے پانچ طیارے تباہ کیے ‘ اسے سبھی ہواباز آزمانا چاہتے ہیں لیکن اس میں جس پھرتی ‘ چابکدستی اور تیزی طراری کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہر ایک میں کہاں ۔ قصہ مختصر جب بھارتی طیارے سرگودھا کی جانب بڑھتے نظر آئے تو ایم ایم عالم اپنا طیارہ فضا کی بلندیوں میں لے گئے ۔جب دشمن کے جہاز قریب آگئے تو انہوں نے ایم ایم عالم کے طیارے کو تاک لیا ۔ایم ایم عالم کے پیچھے چھ بھارتی طیارے تھے ‘جب ایم ایم عالم نے ریڈار پر دیکھا کہ بھارتی طیارے اسے نشانے پر لے چکے ہیں اور گنیں چلنے ہی والی ہیں تو انہوں نے پلک جھبکتے ہی ایسی قلا بازی لگائی کہ دشمن کے تمام طیارے اوپر سے گزر گئے ۔اسے ہوا بازی کی اصطلاح میں "لیڈ"کہاجاتاہے ۔ بھارتی طیارے ابھی گزرے ہی تھے کہ ایم ایم عالم نے ایک سکینڈ میں سیدھے ہوکر سب کو اپنی مشین گن کی زد میں لے کر بٹن دبا دیا۔گولیوں کی بوچھاڑ نکلی اورپانچ بھارتی طیارے آگ کی لپیٹ میں آکر تباہ ہوگئے جو سانگلہ ہل اور پنڈی بھٹیاں کے درمیانی علاقے میں گرے۔ جو ایک طیارہ بچا وہ میزائل کا نشانہ بنایا وہ لڑھکنیاں کھاتا ہوا چنیوٹ کے قریب گر کر تباہ ہوگیا۔سرگودھا پر حملہ کرنے والے چھ بھارتی طیاروں میں سے پانچ کو اکیلے ایم ایم عالم نے تباہ کرکے ایک ایسا عالم ریکارڈ قائم کردیا جس کو توڑنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔جب وہ فتح یاب ہوکر سرگودھا ایئر بیس پر اترے تو ان کا کہنا تھا کہ مورال کے لیے فتح سے بہتر کوئی ٹانک نہیں ۔ایم ایم عالم ‘ اقبال کا شاہین کے روپ میں ابھر کر سامنے آئے۔محمد محمود عالم 65کی جنگ میں بھارت کے 9طیارے مار گرائے اور دو کو نقصان پہنچایا۔بہادری کے صلے میں حکومت پاکستان کی جانب سے انہیں ستارہ جرات کے علاوہ ایک خصوصی نشان بھی دیاگیا ۔ ایم ایم عالم6 جولائی 1935ء کو کلکتہ شہر میں پیدا ہوئے ۔1952میں پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی اور 1953ء میں کمیشن حاصل کیا۔ بعد ازاں آپ کی فیملی مغربی پاکستان منتقل ہوگئی ۔ 18مارچ 2013کو 77سال کی عمر میں آپ نے کراچی کے فضائیہ ہسپتال میں وفات پائی ۔ لاہورمیں آپ کے نام سے منسوب ایک بڑی شاہراہ ہے جو گلبرگ کے مرکزی علاقے سے گزرتی ہے جبکہ میانوالی ائیر بیس کا نام بھی ایم ایم عالم ائیر بیس رکھ دیاگیا ۔

سرگودھا کے فضائی مستقر کی حفاظت میں جہاں ایم ایم عالم کا کردار سب سے نمایاں تھے وہاں ایس اے حاتمی ‘ سجاد حیدر کو بھی شہرت ملی ۔وہیں ایک خاموش احساس فرض رکھنے والے بلند قامت کیپٹن ظفر مسعود کا ذکر بھی ضروری ہے جو اگرچہ کنٹرول میں بیٹھے ہدایات دیتے تھے لیکن فضائیہ کے تمام کارناموں کا سہرا انہی کے سرہے ۔

پاکستان ائیر فورس کاایک اور گمنام شاہین ‘ ونگ کمانڈر میرون لیزلی ہیں جنہوں نے 1965ء کی جنگ میں بھارت کے دو طیارے مارگرائے ۔ 1971کی جنگ کے وقت وہ اردو ن میں قیام پذیر تھے جونہی جنگ کی خبر ان تک پہنچی تو خبر سنتے ہی پاکستان واپس آگئے اور پاک فضائیہ کی جانب سے کاروائیوں میں حصہ لیا ۔ انڈین ریڈار تباہ کرنے کے بعد ان کا طیارہ سمندر میں گرکرتباہ ہوگیا آخری لمحات میں انہیں سمندر میں چھلانگ لگاتے دیکھا جہاں شارک مچھلیوں کی بہتات تھی ۔ان نعش آج تک کسی کونہیں مل سکی۔

پاک فضائیہ کے مزید جن شاہینوں نے دشمن پر کاری ضرب لگاکر جام شہادت نوش کیا۔ ان میں سکوارڈن لیڈر سرفراز رفیقی شہید ( ستارہ جرات)‘ سکوارڈن لیڈر علاؤ الدین احمد شہید ( ستارہ جرات )سکوارڈن لیڈر لیڈر ایم ایس عالم صدیقی شہید ( ستارہ حرب) ‘ سکوارڈرن لیڈر اشفاق حسین قریشی شہید ( ستارہ جرات )شامل ہیں ۔ دو شاہین سیسل چودھری اور ائیر وائس مارشل فاروق عمر جنہوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگ میں بھی بھرپور حصہ لیا اور وطن عزیز کی فضاؤں کے دفاع کے ساتھ ساتھ بھارت کے اندر پہنچ کر بھاری جانی و مالی نقصان بھی پہنچایا ۔ان میں ایک ائیر وائس مارشل (ر) فاروق عمر آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں جن کے سینے میں بے شمار داستان شجاعت اور عسکری داستان محفوظ ہیں۔ ایم ایم عالم اور سیسل چودھری بھی اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں ۔ قصہ مختصر کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں ہمارے شاہینوں نے اپنے جذبہ ایمانی سے ایسی ایسی داستان شجاعت رقم کیں جن کا تذکرہ تاقیامت دنیا کی عسکری تاریخ میں ہوتا رہے گا ۔ان شاء اﷲ

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784624 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.