جان مال اورعزتوں کے محافظ ہی اگر بھیڑیئے اوردرندے بن
جائیں توپھرملک ،قوم اورمعاشرے کااﷲ ہی حافظ ہے۔اس ملک میں آزادی سے جینے
کی کچھ امیدیں تھیں لیکن محافظوں کے روزبروزبدلتے تیوردیکھ کراب آزادی سے
چندسانسیں لینے کااحساس بھی آہستہ آہستہ دم توڑتاجارہاہے۔جہاں قدم قدم
پربھیڑیئے اوردرندے ہوں وہاں پھرجینامشکل ہی نہیں ناممکن بھی
ہوتاہے۔بھیڑیوں اوردرندوں کے درمیان اگرجیناممکن ہوتاتودیواروں سے سرٹکرانے
اوراے ٹی ایم مشین کے سامنے معاشرے کامنہ چڑانے والے دنیاومافیھاسے بے خبر
بدقسمت صلاح الدین ضرورجی لیتے۔مگربے چارے صلاح الدین کی تشددزدہ نعش چیخ
چیخ کریہ پکارتے ہوئے قبرکی پاتال میں اترگئی کہ اس دیس میں
مجذوب،مجنون،اوردیوانوں کاجینامحال ہے پھرتم کس کھیت اورکس باغ کی مولی
ہو۔۔؟جس ملک اورمعاشرے میں جان ،مال ،دردوتکلیف سے ناآشناء
اوردنیاومافیھاسے بے نیازپاگل بھی جی نہ سکیں وہاں پھرمعمولی دردپرتڑپنے ،چیخنے
اورچلانے والے ہمارے جیسے کمزورانسان کیسے جی سکیں گے۔۔؟اس بدقسمت ملک میں
پولیس کے محکمے کوہمارے جیسے کمزورانسانوں کے جینے کے لئے بنایاگیاتھامگراس
محکمے سے وابستہ کچھ درندوں اوربھیڑیوں نے اب کمزور،لاچاراورغریب انسانوں
سے ان کی زندگیاں چھیننے ،گھراجاڑنے اورسکون غارت کرنے کواپنامعمول
بنالیاہے۔ سانحہ ساہیوال کے بعدبھی ان درندوں کے ہاتھوں بے گناہ ،کمزوراورغریب
انسانوں کی پولیس گردی سے مسلسل ہلاکتیں یہ کوئی معمولی بات نہیں ۔جہاں قوم
کے محافظ ہی قاتل ،چور،ڈاکو،بھیڑیئے ا۱وردرندے بن جائیں وہاں پھر انسانوں
کے زندہ رہنے کاتصورہی ختم ہوجاتاہے۔پولیس والوں کوآج بھی کسی ملک
اورمعاشرے میں محافظ سمجھااوردیکھاجاتاہوگامگرانتہائی معذرت کے ساتھ ہمارے
ہاں ایک طویل عرصے سے ایسانہیں ۔ہم نے ان پولیس والوں کومحافظ کے روپ میں
کم اورقاتل ،بھیڑیئے اوردرندوں کی شکل میں زیادہ دیکھا۔جب سے ہمارے
حکمرانوں اورسیاستدانوں نے ان کوسیاست کے لئے استعمال کرناشروع کیاہے تب سے
پولیس کے بھولے بھالے جوان بھی عوام کیلئے بھیڑیئے اوردرندے بنناشروع ہوئے
ہیں۔اب توان میں بھیڑیوں اوردرندوں کی اچھی خاصی فصل تیارہوچکی ہے۔اسی وجہ
سے تواب کوئی غریب،شریف اورکوئی کمزوران سے محفوظ نہیں ۔اس ملک میں
چور،ڈاکو،راہزن،لوٹوں ،لٹیروں اورقاتلوں سے اتناڈرنہیں لگتاجتناآج سرکارکے
ان بدمعاشوں اورقوم کے نام نہادمحافظوں سے لگتاہے۔پولیس وردی میں ملبوس
جوان کودیکھ کرغریب اورکمزورانسان کے تورونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔چوراورڈاکوتوپھربھی
کسی غریب اورکمزورکے گرتے آنسودیکھ کرترس اوررحم کھاجاتے ہیں لیکن یہ پولیس
والے ۔۔؟یہ تونہ کسی کی چیخ وپکارسے خوف کھاتے ہیں اورنہ ہی معصوم بچوں کی
آہوں وسسکیوں کی کوئی پرواہ کرتے ہیں۔حقیقت تویہ ہے کہ ہمارے یہ شیرجوان
وردی کے نشے میں اس قدرمدہوش ہوجاتے ہیں کہ یہ پھر خداکابھی کوئی خوف نہیں
کرتے۔کیامحافظ کاکام زندہ انسان کوقبرکی پاتال میں اتارناہوتاہے۔۔؟نہیں
ہرگزنہیں ۔مگرہمارے محافظ برسوں سے یہ فریضہ پوری ایمانداری ،سینہ زوری
اورانتہائی ڈھٹائی کے ساتھ سرانجام دے رہے ہیں ۔نہ جانے اب تک کتنے پھول
جیسے جوان یہ وقت سے پہلے قبرمیں اتارچکے ہیں ۔راؤانوارکے کارنامے توسب
کویادہیں ۔ان کی منحوس پھونکوں سے بجھائے گئے چارسوسے زائدچراغوں کو
بھلاکوئی کس طرح بھول سکتاہے۔۔؟اس ملک کی تاریخ جعلی پولیس مقابلوں سے بھری
پڑی ہے۔اس ملک میں اورکوئی کام ہوایانہیں لیکن جعلی پولیس مقابلے
ہردوراورہرجگہ ضرورہوئے۔کراچی سے گلگت۔چترال سے بالاکوٹ۔سوات سے
کشمیراورخیبرسے بلوچستان تک آج اس ملک میں حکمرانوں اورسیاستدانوں کے علاوہ
کوئی ایساشخص نہیں جسے پولیس کاخوف نہ ہو۔چوراورڈاکوتوپولیس والوں کومحافظ
سمجھتے ہوں گے لیکن عام عوام اورکمزوروغریب لوگوں کے لئے ایساسوچنابھی کسی
گناہ سے کم نہیں ۔سانحہ ساہیوال اورصلاح الدین بہیمانہ ہلاکت جیسے واقعات
جن لوگوں نے اپنی گناہ گارآنکھوں سے دیکھے وہ پولیس والوں سے ڈراورخوف کیسے
محسوس نہیں کریں گے۔۔؟ہم یہ نہیں کہتے کہ ہاتھ کی پانچوں انگلیاں برابرہوتی
ہیں محکمہ پولیس میں غنڈوں اوربدمعاشوں کے ساتھ نیک ،صالح اورفرشتہ صفت
انسان بھی ہوں گے اورضرورہوں گے لیکن محکمہ پولیس نے تمام صوبوں میں مجموعی
طورپرجوکارنامے سرانجام دیئے ہیں وہ اچھائی کرنے اورقربانیاں دینے والے
لوگوں پربھاری بہت بھاری ہے۔پولیس کے جن بھیڑیوں اوردرندوں نے سانحہ
ساہیوال اورصلاح الدین کوبہیمانہ طریقے سے مارنے کی صورت میں محکمہ پولیس
کے ماتھے پرجوداغ لگائے ہیں انہیں گنتی کے چندلوگوں کی نیک نامی سے
دھوناممکن نہیں ۔پولیس کے انہی کارناموں کودیکھ اورسن کرموجودہ وزیراعظم
عمران خان نے قوم سے پولیس کوٹھیک کرنے کاوعدہ اوردعویٰ کیاتھامگرافسوس
عمران خان کے وزیراعظم بننے اورتحریک انصاف کے اقتدارمیں آنے کے بعدپولیس
ٹھیک ہونے کی بجائے مزیدبگڑگئی ہے۔جوشخصیت پولیس کی اصلیت سے پہلے ہی واقف
تھی ہمیں یقین نہیں آرہاکہ اس کی حکمرانی میں بھی پولیس اس طرح بے لگام
ہوگی۔پنجاب پولیس نے وزیراعظم عمران خان کے دعوؤں اوروعدوں کی قلعی کھول کے
رکھ دی ہے۔بے زبان وبے سہاراصلاح الدین کاپولیس کے ہاتھوں قتل یہ ایک
فردکاقتل نہیں یہ انصاف کاقتل اورانصاف کے نام لیواؤں کے منہ پرایک
زوردارطمانچہ ہے۔پولیس انسانی حقوق اورانصاف کی سرخ لکیرپہلے ہی کراس کرچکی
ہے۔اب ان کے ہاتھ لوگوں کے گریبانوں اورڈنڈے جسموں تک پہنچ چکے ہیں ۔پولیس
والے جسمانی ریمانڈکامطلب نہ صرف ہرگرفتارشخص پرلاتوں ،مکوں اورآہنی راڈوں
کی بارش سمجھتے ہیں بلکہ یہ کسی بھی غریب ،بے گناہ اورکمزورانسان کومرغی کی
طرح پڑپڑاکران کی جان نکالنے کواپناحق اوربنیادی فریضہ بھی تصورکرتے ہیں ۔انسانیت
اوررحمدلی سے عاری اس انوکھی مخلوق کوٹھیک کرنے کے محض دعوے اوروعدے کرکے
ہم پہلے ہی بہت ٹائم اوروقت ضائع کرچکے ہیں ۔اب ان کوایک لمحے کی مہلت
دینابھی اس ملک ،قوم اورمعاشرے کے ساتھ ظلم بہت بڑاظلم ہے۔اس ملک میں ہمارے
خون پسینے کی کمائی پرپلنے والاہرپولیس اہلکارنعوذبااﷲ خودکوخداسمجھ
بیٹھاہے۔پولیس گردی کوفروغ دینے والے درندوں کیلئے معطل،لائن
حاضر،کوارٹرگارڈ،ایف آئی آر،انکوائری اورمحکمانہ کارروائی کے الفاظ ،قصے
اورکہانیاں پرانی بہت پرانی ہوچکی ہیں ۔اس مخلوق کوسچ میں اب سیدھااورٹھیک
کرنے کاوقت آگیاہے۔پولیس کاکام قوم کوتحفظ دیناہے کسی کی جان لینانہیں ۔ہم
جس مذہب کے نام لیواہے اس میں نہ صرف کسی کاناحق قتل حرام ہے بلکہ اس میں
ایک انسان کے قتل کوبھی پوری انسانیت کاقتل قرار دیاگیاہے۔پھرہمارے آئین
اورقانون نے بھی توکسی کوناحق وبے گناہ مارنے کااختیاروسرٹیفکیٹ نہیں
دیا۔جعلی پولیس مقابلوں میں اب تک کیاکچھ کم لوگ مارے گئے۔۔؟کہ یہ سلسلہ اب
بھی جاری ہے۔حالات اورحکمران توبارباربدلے لیکن افسوس ہمارے پولیس والے آج
تک نہیں بدل سکے۔نئے پاکستان والوں کوپولیس کاپورانظام بدلناہوگا۔غریب لوگ
آخرکب تک تھانوں ،ٹارچرسیلوں اورعقوبت خانوں سے اپنوں کی تشددزدہ نعشیں
اورلاشیں وصول کریں گے۔۔؟صلاح الدین کی پولیس حراست میں ہلاکت نے پوری قوم
کوجھنجوڑکے رکھ دیاہے۔پولیس کے ٹھیک ہونے کاانتظارکرکرکے عوام کاپیمانہ
صبراب لبریزہوچکا۔اسی وجہ سے اب اکثرلوگ اس محکمے کوہی سرے سے ختم کرنے
کامطالبہ کرنے لگے ہیں ۔جولوگ عوام کے تحفظ اورامن کے ذمہ دارتھے انہی
لوگوں کی وجہ سے عوام عدم تحفظ کاشکاراورلااینڈآرڈرکے مسائل جنم لے رہے ہیں
۔پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں تھمائے گئے بے لگام ڈنڈے اگران سے واپس نہ لئے
گئے توپھرعوام ڈنڈے لیکران کے سامنے آنے سے بھی دریغ نہیں کرینگے۔اس لئے
وقت کاتقاضایہ ہے کہ عوام کے مال وجان کے تحفظ کویقینی بنانے کے لئے محکمہ
پولیس میں موجودساری کالی بھیڑیوں کامکمل صفایاکرکے پولیس نظام
کوازسرنوتشکیل دیاجائے۔پولیس عوام کی محافظ ہوتی ہے قاتل نہیں ۔غریب ،کمزوراوربے
گناہ انسانوں کی جانوں سے کھیلنے والے درندوں کے ہاتھ جب تک باندھے نہیں
جاتے تب تک نام نہاداصلاحات اورزبانی دعوؤں کاکوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ملک میں
اس وقت عمران خان کی حکومت ہے اورعمران خان قوم سے پولیس کوٹھیک کرنے
کاوعدہ سوبارکرچکے ہیں ۔کپتان پولیس کوٹھیک کرکے اپنے وعدے کوایفاء کردیں
ورنہ انصاف والوں کی حکومت میں بھی پولیس اسی طرح فرعون بن کرغریبوں کاخون
چوستی اورگوشت نوچتی رہے گی ۔
|