حیدر اور وحید دو نوں گہرے دوست تھے، دونوں کا گھر آمنے
سامنے تھا، اسکول، کالج تک ساتھ پڑھا، وحید اپنی گھریلی ذمہ داریوں کے باعث
آگے نہ پڑھ سکا، گریجویشن کے بعد اسے ملازمت کرنا پڑی جب کہ حیدر نے
یونیورسٹی سے ماسٹر کیا۔دونوں میں گہری چھناکرتی تھی، دکھ سکھ کے ساتھی،
خوشی اور غمی میں ایک ساتھ۔ دونوں کی دوستی نے ان کے والدین کو بھی قریب
کردیا تھا۔ دونوں اپنے اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے، دونوں کی شادیاں
بھی ہوچکی تھیں لیکن دوستی بدستو ر قائم رہی۔وحید کسی بڑی پوسٹ پر نہ
تھا،ایک پرائیویٹ آفس میں جاب کیا کرتا تھا، اس لیے آفس سے دیر سے آیا
کرتا، حیدر نے ماسٹر کرنے کے بعد ایم فل بھی کر لیا تھا، وہ اچھی جگہ اور
بڑے عہدہ پر فائز تھا۔دونوں کی عمر بھی کافی ہوگئی تھی، جس کے باعث دونوں
دوستوں کی ملاقاتوں میں کمی آگئی تھی۔ اپنی اپنی جگہ دونوں مصروف رہا کرتے۔
ایک دن وحید گھر لوٹا تو اس کی بیوی نے اسے بتا یا کہ ان کے دوست حیدر صاحب
کو اسپتال میں داخل ہوئے ایک ہفتہ ہوچکا ہے،ان کا بخار نہیں ٹوٹ رہا، وحید
کو بہت شرمندگی ہوئی، اگلے ہی دن اس نے آفس سے چھٹی کی اور اسپتال پہنچ
گیا، شرمندہ شرمندہ، اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کیسے اپنی کوتائی
کو چھپائے۔ ہمت کر کے حیدر کے وارڈ میں داخل ہوہی گیا۔
وحید۔ ارے حیدر کیا ہوا تمہیں، تم نے بتا یا بھی نہیں اور اسپتال میں داخل
بھی ہوگئے۔ میرے بھائی کم از کم مجھے کال ہی کردی ہوتی۔
حیدر۔ بس یار کیا بتا تا، بخار تھا، چیک اپ کے لیے اسپتال آگیا انہوں نے
داخل ہی کر لیا اب صبح ٹیسٹ شام ٹیسٹ،لیکن نتیجہ ابھی تک صفر ہے،بخار اترنے
کا نا م ہی نہیں لے رہا۔ بیماری کیا ہے اس کا علم تاحال نہیں ہوپایا ہے،
دوائیں بھی مسلسل کھلائی جارہی ہیں۔
حیدر اپنی زندگی کے ساٹھ بہاریں دیکھ چکا تھا، اللہ نے اسے اولاد کی نعمت
سے محروم رکھا تھا، اس کی بیوی شرعی پردہ کیا کرتی تھی۔ دونوں میاں بیوی نے
ساری زندگی صبر شکر کے ساتھ،خوش و خرم طریقے سے بسر کی، کسی چیز کی کمی نہ
تھی، گھر، گاڑی، دولت سب ہی کچھ تو تھا، اولاد کی محرومی ضرور تھی لیکن
دونوں نے اسے اللہ کی حکمت تصور کرتے ہوئے صبر کیا۔ حیدر پڑھا لکھا تھا اس
کی بیوی بھی معاشیات میں ماسٹر تھی۔ لیکن پردہ کی سخت پابند، نماز روزہ کی
پابند، البتہ حیدر کٹر مذہبی نہ تھا۔ وہ اکثر کہا کرتا کہ میری بیوی بہت
نمازی، عبادت گزار، اور پردہ کے معاملے میں کسی بھی قسم کی نرمی کی قائل
نہیں۔ اس کے پردے کا یہ عالم تھا کہ حیدر کی غیر موجودگی میں اگر کوئی اس
کے دروازے پر دستک دیتا تو وہ اندر کا دروازہ کھولے بغیر ہی جواب دے
دیاکرتی کہ وہ گھر پر نہیں ہیں،مین گیٹ پر آنا تو دور کی بات تھی۔
حیدر کو اسپتال میں داخل ہوئے ایک ماہ ہونے کو تھا لیکن اس کی بیوی ایک د ن
بھی اسے دیکھنے نہیں گئی۔ حیدر کے دل میں یہ کسک ضرور ہوگی لیکن بہ ظاہر وہ
کہا کرتا کہ نہیں کیا ضرورت ہے میں جلد ٹھیک ہوجاؤنگا پھر گھر ہی تو جانا
ہے۔ حیدر کو اس بات کا احساس تھا کہ اس کی تیمار داری کون کرے گا، گھر اور
اسپتال کے چکر کون لگائے گا، اس مشکل کو دیکھتے ہوئے اس نے پیسوں کی پروا
نہیں کی اور شہر کے بڑے اسپتال میں داخل ہونے کو ترجیح دی۔ حیدر کے دوست
اور ساتھی اس کی تیمار داری کے لیے روز ہی اس کے پاس جایا کرتے۔ وحید نے
اپنا معمول بنا لیا تھا کہ آفس سے پہلے اسپتال حیدر کی تیمار داری کرتا پھر
اپنے گھر جایا کرتا۔ ڈاکٹرز حیدر کی بیماری معلوم کرنے کی بھر پور کوشش میں
تھے۔ بخار اتارنے کی جو بھی ممکن دوائیں اور انجکشن ہوسکتے تھے وہ اسے
لگائے جاچکے تھے۔ آخر اسپتال کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ شہر کے بڑے فزیشن
کنسلٹنٹ کو بلوایا جائے۔ ایسا ہی ہوا، چسٹ اسپیشلسٹ ڈاکٹر افتخار راٹھور کو
بطور خاص بلوایا گیا، انہوں نے حیدر کی فائل کا تفصیلی مطالعہ کیا، ڈاکٹروں
سے معلومات حاصل کیں، جو جو دوائیں حیدر کو دی گئیں تھیں ان کے بارے میں
معلومات حاصل کیں، جو جو ٹیسٹ کرائے گئے تھے ان کا مطالعہ کیا، سینے کا
ایکسرے، دل کا ٹیسٹ، غرض ڈاکٹر راٹھور کوئی ایک گھنٹہ حیدر کی بیماری کے
بارے میں معلومات لیتے رہے۔ ڈاکٹر راٹھور نے دوران گفتگو جونئر ڈاکٹرز کو
مشورہ دیا کہ ان کابون میرو Bone marrow ٹیسٹ کرالیا جائے تاکہ یہ معلوم
ہوسکے کہ انہیں AMLتو نہیں۔ حیدرکی نظریں ڈاکٹر راٹھور پر گڑی ہوئی تھیں
اور وہ ان کی گفتگو کو بغور سن رہا تھا۔ حیدر کا بلڈبون میرو ٹیسٹ کے لیے
بھیج دیا گیا جس کی رپورٹ پندرہ روز بعد آناتھی۔ حیدر کی چھٹی کردی گئی اور
دوائیں لکھ کر دے دی گئیں جو ڈاکٹر راٹھور نے تجویز کی تھیں۔ حیدر خوشی
خوشی گھر چلا گیا۔ بخار کم ضرور ہوا لیکن مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔
ا ب حیدر کا ذہن بون میرو ٹیسٹ کے نتیجے میں اے ایم ایل کی جانب مرکوز تھا۔
یہ کیا ٹیسٹ ہے؟ اور اس ٹیسٹ سے کس بیماری کا علم ہوگا؟ حیدر کی طبیعت کچھ
بہتر ہوئی تو اس نے کمپیوٹر کھولا اورگوگل پر اے ایم ایل لکھا اس کے سامنے
اے ایم ایل کی تفصیل تھی اے ایم ایل یعنی Active Myeloblastic Leukemiaاس
کی تفصیل پڑھ کر حیدر کے پسینے چھوٹ گئے، آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا،
دل بیٹھ سا گیا۔ وہ اپنی زندگی سے نہ امید ہوگیا، سوچ میں پڑ گیا کہ میرے
بعد میری بیوی کیسے زندگی بسر کرے گی۔اسے معلوم ہوا کہ بون میرو کے ٹسٹ سے
یہ معلوم ہوتا ہے کہ آیا آپ کا بون میرو ٹھیک طرح سے کام کررہا ہے اور عام
مقدار میں خون کے خلیات بنا رہا ہے، ٹسٹ ہڈیوں کے مختلف امراض، خون کے
عوارض، اور بعض قسم کے کینسر کی تشخیص اور نگرانی میں مدد کرسکتے ہیں۔ پھر
اس نے اپنے آپ کو سنھبالا، کہیں اس کی اس کیفیت کا علم اس کی بیوی کو نہ
ہوجائے، وہ مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ بیوی سے باتوں میں مصروف ہوگیا۔کسی اور
سے بھی اس نے اس کا ذکر نہیں کیا یہاں تک کہ اپنی بیوی سے بھی نہیں، اس لیے
کہ اسے یہ معلوم ہوچکا تھا کہ اب اس کے پاس سال نہیں، مہینے نہیں بلکہ چند
دنوں کی مہلت ہے۔ بخار کبھی کم اور کبھی زیادہ ہورہا تھا۔
ایک ہفتہ گزرا ہوگا کہ بخار میں شدت آگئی، ساتھ ہی دل کی دھڑکن بھی تیز
ہوگئی۔ حیدر کو اسپتال جانا پڑا جہاں اسے پھر سے داخل کر لیا گیا، چند دون
بعد حیدر کے بون میرو کی رپورٹ آگئی،اسے اے ایم ایل تھا۔ اسپتال کے سینئر
ڈاکٹر نے حیدر کو اس رپورٹ کے بارے میں رفتہ رفتہ آگاہ کیا، ڈاکٹرز نے کہا
کہ حیدر صاحب پریشانی کی کوئی بات نہیں یہ مرض اکثر لوگوں کو ہوجاتا ہے
لیکن حوصلہ رکھیں یہ کوئی لا علاج مرض نہیں، اس کا علاج ممکن ہے، بس ہمیں
آپ کی ہمت اور حوصلے کی ضرورت ہوگی۔ حیدر نے ڈاکٹر سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب
میں نے اس بیماری کے بارے میں معلومات حاصل کر لی ہیں، مجھے معلوم ہے کہ
میرے پاس اب بہت کم وقت ہے۔ ڈاکٹر نے حیدر کو تسلی دی، بہت سمجھایا کہ اللہ
ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، بلڈ کینسر ایسا مرض نہیں کہ جس کا علاج ممکن نہ
ہو، اللہ شفا دینے والا ہے۔آپ ہمت سے کام لیں، حوصلہ رکھیں، ہم سب آپ کی
بیماری سے لڑیں گے آپ ہمارا ساتھ دیں، انشاء اللہ آپ ٹھیک ہوجائیں گے۔
ڈاکٹر اور نرسیز کا رویہ حیدر کے ساتھ زیادہ نرم، ہمدرانہ اور شفقت آمیز
ہوگیا، حیدر سب کچھ محسوس کررہا تھا، ڈاکٹر وں اور نرسوں کی ضرورت سے زیادہ
توجہ اور ہمدردی اسے اندر ہی اندر کھائے جارہی تھی، کسی کسی لمحہ تو اس کی
آنکھیں نم ہو جاتیں اور کبھی آنسوں اس کی پلکوں سے چھلک کر اس کے رخساروں
پر آجاتے، وہ بہ مشکل تمام اپنے جذبات کو قابو میں رکھتا، بخار تھا کہ کم
ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔کبھی کبھی اس کا دل چاہتا کہ دھاڑے مار مار
کو روئے لیکن ایسا کرنے سے قاصر تھا۔ ایک جانب اسے اپنی موت نظر آرہی تھی
تو دوسری جانب اپنی بیوی کی فکر لاحق تھی کہ وہ تنہا کیسے زندگی بسر کرے
گی۔ اب اس کے شب و روز اسی ادھیڑ بن میں گزر رہے تھے، وہ اپنی تکلیف کو
بھول گیا تھا، کسی کسی لمحہ تو دوا کھانے کو بھی منع کردیا کرتا۔اسپتال میں
چالیس روز سے زیادہ ہوچکے تھے، رات اپنا سفر مکمل کر کے جاچکی تھی، دور سے
اذان فجرسنائی دے رہی تھیں۔ ہلکی ہلکی چہچہاہٹ محسوس ہورہی تھی، درختوں پر
بیٹھے پرندوں نے چہچہانا شروع کردیا تھا،ڈیوٹی پر موجود عملے پر نیند کا
غلبہ عروج پر تھا، حیدر کی طبیعت میں گھبراہٹ محسوس ہوئی، اس نے محسوس کر
لیا کہ بس اب دم آخر ہے، اپنے پاس بیٹھے اپنے دوست وحید کا ہاتھ سختی سے
پکڑ کر کہا کہ وحید، میرا وقت پورا ہوا، اب میں جارہا ہوں، ہوسکے تو میرے
گھر کا خیال۔۔۔۔ اورپھر آنکھیں موند لیں۔ وحیدکا فون آیا، کہنے لگا اچھی
خبر نہیں حیدر اب اس دنیا میں نہیں رہا، میں نے اس کی پوری بات بھی نہ سنی،
اس لیے کہ یہ باتیں حیدر مجھے ایک دن قبل بتا چکا تھا کہ اب اس کے پاس بہت
کم وقت ہے اسے جلد چلے جانا ہے۔ اور ایسا ہی ہوا حیدر چلا گیا۔ نہ معلوم
کتنے ہی لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ انہیں کیا مرض لاحق ہے و دنیا
سے چلے جاتے ہیں۔پڑھے لکھے ہونے کایہ بھی ایک فائدہ ہے۔ |