چھوٹے بچوں کو ٹیلی ویژن دیکھنے کا عادی مت بنائیں ورنہ--

عالمی ادارۂ صحت کے نئے رہنما اصولوں میں کہا گیا ہے کہ دو برس سے کم عمر کے بچوں کو ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر کی سکرین کے سامنے نہیں بٹھانا چاہیے۔
 

image


جبکہ دو برس سے زیادہ اور چار برس کی عمر تک کے بچوں کے سکرینز کے سامنے بیٹھنے کا وقت زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ ہونا چاہیے۔

برطانوی محکمۂ صحت کے اس بارے میں کوئی رہنما اصول نہیں ہیں لیکن اتنا ضرور کہا گیا ہے کہ سونے سے پہلے ٹیلی ویژن نہیں دیکھنا چاہیے۔

برطانیہ کے رائل کالج آف پیڈیاٹرکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ کا اصرار ہے کہ اب تک اس بات کے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ سکرین کے سامنے بیٹھنے سے بچے کی صحت پر مضر اثرات ہوتے ہیں۔

عالمی ادارۂ صحت کے نئے رہنما اصول ساکت بیٹھے ہوئے بچوں کے ٹیلی ویژن دیکھنے کے بارے میں ہیں، یعنی بچوں کو خاموش کرنے کے لیے یا مصروف کرنے کے لیے ٹیلی ویژن یا کمپیوٹر، ٹیبلیٹ یا موبائل فون کی سکرین کے سامنے خوش رہنے کے لیے بٹھا دیا جائے۔

اس سے بچہ غیر فعال ہوتا ہے جو عالمی سطح پر بچوں کی اموات کا ایک سبب بن سکتا ہے یا اس میں موٹاپے والی بیماریوں کے رجحانات پیدا ہوتے ہیں۔
 

image


یہ پہلی مرتبہ ہے کہ عالمی ادارۂ صحت نے پانچ برس سے کم عمر بچوں کی جسمانی حرکات و سکنات، بیٹھے رہنے کے رویے اور ان کے سونے کے اوقات کے بارے میں رہنما اصول جاری کیے ہیں۔

عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے سکرین کے سامنے بیٹھے رہنے کے بارے میں جاری کیے گئے انتباہ میں کہا گیا ہے کہ بچوں کو کسی بگھی، کار کی سیٹ یا جھولے میں باندھ کر ایک گھنٹے سے زیادہ نہیں رکھنا چاہیے۔

عالمی ادارۂ صحت کے یہ رہنما اصول گلاسگو کے اجلاس میں پیش کیے گئے۔

عالمی ادارۂ صحت کی ہدایات

نوزائیدہ بچوں کے لیے
دن بھر میں کئی مرتبہ جسمانی طور پر فعال رکھیں اور کم از کم 30 منٹس کے لیے پیٹ پر الٹا لٹائیں تاکہ ہاضمہ بہتر ہو سکے۔
سکرین کے سامنے ساکت ہرگز نہ بٹھایا جائے۔
نومولود بچوں کے لیے دن میں 14 سے 17 گھنٹوں کی نیند، تاہم جب وہ 11 ماہ کے ہو جائیں پھر ان کی نیند کے اوقات 12 سے 16 گھنٹے ہوں۔
مسلسل ایک گھنٹے سے زیادہ بچوں کو کسی بےبی سیٹ میں باندھ کر نہیں رکھنا چاہیے۔

ایک اور دو برس کے بچوں کے لیے
کم از کم تین گھنٹوں کی کوئی نہ کوئی جسمانی ورزش۔
ایک برس سے کم عمر کے بچے کو جامد بیٹھے سکرین استمعال نہ کرنے دیے جائیں تاہم دو برس سے بڑا بچہ ایک گھنٹے کے لیے سکرین پر مصروف ہو سکتا ہے۔
دن میں 11 سے 14 گھنٹوں کی نیند۔
ایک گھنٹے سے زیادہ کسی جگہ یا سیٹ پر باندھ کر نہ بٹھایا جائے، بغیر باندھے بھی دیر تک نہ بٹھایا جائے۔

تین برس سے چار برس کے بچوں کے لیے
کم از کم تین گھنٹوں کی کسی نہ کسی قسم کی جسمانی سرگرمی میں مصروف کیا جائے۔ جن میں ایک سخت قسم کی سرگرمی ہو۔
زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے کے لیے سکرین پر بیٹھنے کا وقت۔ اس سے بھی کم وقت ہو تو بہتر ہو گا۔
دن میں سونے کے علاوہ 10 سے 11 گھنٹوں کی نیند۔
ایک گھنٹے سے زیادہ کسی جگہ یا سیٹ پر باندھ کر نہ بٹھایا جائے، بغیر باندھے بھی دیر تک نہ بٹھایا جائے۔
 

image


عالمی ادارۂ صحت کے رہنما اصول اب تک کی معلومات کی بنیاد پر جاری کیے گئے ہیں لیکن حتمی طور پر ایسی کوئی تحقیق نہیں ہے جو سکرین کے زیادہ استعمال کے فوائد یا نقصانات کا تعین کر سکے۔

تاہم رہنما اصول مرتب کرنے والوں میں شامل ڈاکٹر خوانا وِی لمسم کہتی ہیں کہ بظاہر ایسا نہیں لگتا ہے کہ جامد حالت میں بیٹھے ہوئے بچے کو سکرین سے کوئی فائدہ ہوتا ہو۔

’بیٹھے رہنے کے وقت کو بہتر طور پر استعمال کیا جائے۔ مثال کے طور پر آپ بچے کے ساتھ کتاب پڑھیں۔ اس سے بچے کی زبان سیکھنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔‘

ایک بچہ جسے خاموش کرنے کے لیے جھولے میں ٹیبلیٹ سکرین کے سامنے بیٹھا دیا جاتا ہے اس سے اسے بہتر وقت نہیں ملتا ہے۔‘

’بچوں کو زیادہ سے زیادہ جسمانی بھاگ دوڑ یا جسمانی حرکات کرنے کے مواقع فراہم کیے جانے چاہئیں اور ہمیں ان کے غیر فعال بیٹھنے کے اوقات میں کمی کرنی چاہیے۔‘

ایسے ٹیلی ویژن پروگرام جو بچوں سے جسمانی ورزشیں کرواتے ہوں شاید ٹھیک ہوں لیکن اگر والدین یا نگرانی کرنے والا کوئی شخص بچے کے ساتھ موجود ہو تو بہتر ہے۔
 

image


دیگر ماہرین کیا کہتے ہیں؟
امریکہ میں 18 ماہ سے کم عمر بچے سکرین کا استعمال نہ کریں۔
کینیڈا میں دو برس سے کم عمر کے بچوں کے لیے سکرین کا استعمال ممنوع ہے۔
تاہم برطانیہ میں کوئی رہنما اصول نہیں ہیں۔

رائل کالج آف پیڈیاٹرکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ کے ڈاکٹر میکس ڈیوی کہتے ہیں ’عالمی ادارۂ صحت کے مجوزہ رہنما اصول کا سکرین کے سامنے بیٹھنے کے وقت اور اس کے نقصانات سے کوئی مناسبت نہیں ہے۔‘

’ہماری اب تک کی تحقیق میں ایسا کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آیا ہے جس سے سکرین پر بیٹھنے کا وقت طے کیا جا سکے۔‘

یہ مشکل امر ہے کہ ایک خاندان جس میں مختلف عمر کے بچے ہوں وہاں ایک چھوٹے بچے کو کس طرح سکرین پر بیٹھنے سے روکا جا سکے گا جیسا کے رہنما اصولوں میں روکنے کے لیے کہا گیا ہے۔‘
 

image


مجموعی طور پر عالمی ادارۂ صحت کے یہ رہنما اصول ایک اچھی اور فعال زندگی گزارنے کے بہتر معیار طے کرنے میں مدد دیتے ہیں لیکن ’بغیر کسی صحیح مدد کے‘ اس طرح ایک مکمل بہترین ہدف کا حصول ایک عام اچھائی کا دشمن بن جاتا ہے۔‘

یونیورسٹی آف لندن میں ذہن کی نشوونما کے ماہر، ڈاکٹر ٹِم سمتھ کہتے ہیں کہ والدین پر متضاد قسم کے رہنما اصولوں کی بوچھاڑ کردی گئی ہے جو ان کے لیے زیادہ کنفیوژن پیدا کرے گی۔

اس وقت کوئی ایسا ثبوت نہیں ہے جس کی روشنی میں بچوں کی عمروں کے لحاظ سے سکرین کے استعمال کے وقت کی حد طے کی جا سکے۔

جبکہ یہ رپورٹ ایک بہتر بات بتاتی ہے اور وہ یہ کہ غیر فعال حالت میں بیٹھ کر سکرین کو استعمال کرنا اور سکرین پر کھیلوں کے استعمال سے جسمانی طور پر فعال ہونا، بچوں اور خاندان کے سکرین کے استعمال جیسی پیچیدہ سرگرمی کو بہت سادہ بنانے کے مترادف ہے۔
 

image

والدین کیا کرسکتے ہیں؟
پولا مارٹن ایک ٹیچر ہیں اور ان کے دو کم سن بچے ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’ان کے بیٹے نے ٹیلی ویژن پر ڈائنوسارس کے پروگرامز دیکھ کر بہت کچھ سیکھا ہے اور وہ نئی معلومات حاصل کرتا ہے۔‘

’وہ وہاں صرف بیٹھا نہیں رہتا اور سو نہیں جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اپنا دماغ استعمال کر رہا ہوتا ہے۔‘

پولا کہتی ہیں ’مجھے نہیں معلوم کہ میں اپنا کھانا کیسے تیار کروں گی، پکاؤں گی کیسے، صفائی کیسے کروں گی اگر میرے پاس ان کے کچھ دیکھنے کے لیے نہیں ہو گا۔‘

رائل کالج آف پیڈیاٹرکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ کا کہنا ہے کہ والدین خود سے یہ سوالات کر سکتے ہیں۔

کیا سکرین ٹائم کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے؟
کیا سکرین ٹائم کی وجہ سے آپ کے خاندان کے روز مرّہ کے کام متاثر ہو رہے ہیں؟
کیا سکرین ٹائم کی وجہ سے آپ کی نیند متاثر ہو رہی ہے؟
کیا آپ سکرین ٹائم کے دوران ہلکے پھلکے پکوان کھانے پر کنٹرول کرسکتے ہیں؟

رائل کالج آف پیڈیاٹرکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ کا مشورہ ہے کہ اگر ایک خاندان ان سوالات کے جوابات سے مطمئن ہے تو وہ سکرین ٹائم کے استعمال کے وقت کا بہتر طریقے سے انتظام کر سکتے ہیں۔
 

Partner Content: BBC

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: