مثبت فکر کی ضرورت ہے مہلک فکر کی نہیں!!!

سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ملک کی سب سے بڑی تنظیمیں مانی جانے والی جمعیۃ علماء ہند(ارشد مدنی )اور جمعیۃ علماء ہند(محمودمدنی) سنگھ پریوار سے قربت حاصل کرتے ہوئےملک کے مسلمانوں کو کیا پیغام دینا چاہ رہے ہیں۔ویسے ملک کے مسلمانوںکی بڑی آبادی اسی چچا بھتیجے کے پیچھے ہے اور دونوںکی اطاعت کو ہمیشہ ترجیح دیتے آرہے ہیں۔پہلے چچا مولاناارشد مدنی نے راتوں رات چھپے دراوزے سے آر ایس ایس کی چوکھٹ پر حاضری دی،جب ان کی ملاقات کی بات ٹکڑوں ٹکڑوںمیںدنیا کے سامنے آنے لگی تو ارشد مدنی نے اپنی ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے اس ملاقات کو خلاصہ میڈیا کے سامنے کیا۔ جہاں تک سیاسی و قومی حلقے میںاس ملاقات کے تعلق سے سوالات اٹھنے لگے ،سب سے بڑھ کر اس ملاقات کے تعلق سے خود آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے چھپائے نہ رکھنے کی بات کو لیکر ناراضگی کااظہاربھی کیا ہے۔اصل میں ہندوستانی مسلمانوں کا ایک بڑاطبقہ مولاناارشد مدنی کی ملاقات کو لیکر بے چین ہے ،کیونکہ اس ملاقات کوارشد مدنی الاعلان کرتے اور اس ملاقات کی تفصیلات کو فوری طورپر لوگوںکے سامنے پیش کرتے تو اس کے نتائج ہی کچھ اورہوتے۔لیکن اس ملاقات کو پوری طرح سے چھپانے کی جو ناکام کوشش کی گئی ہے،اسی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ان کی ملاقات ایسے وقت میں ہوئی جب ملک کا مسلمان حکومت کے نشانے پر ہے،سنگھ پریوار ملک میں مسلمانوں کو ہندوتوا کے اصولوں پر چلنے کیلئے مجبور کررہا ہے،اس ملک میں مسلمانوںکیلئے زمین تنگ کی جارہی ہے اور ملک کا صرف مسلمان ہی اس حکومت سے پریشان نہیں بلکہ دلت،آدی واسی اور پسماندہ طبقات بھی حکومت سے ناراضگی جتا رہے ہیں۔مودی حکومت کے سیزن 1 میں جب کچھ بریلوی علماء و مشائخ نے وزیر اعظم نریندرمودی سے ملاقات کی تھی تو سوشیل میڈیا میں ان علماء ومشائخ پر طنز کیا گیا،انہیں منافق و مرتدد کہاگیا ہے،میر صادق کا درجہ دیاگیا اور انہیں سنگھ پریوارکے ٹٹو بتایاگیا۔وزیر اعظم نریندرمودی تو سنگھ پریوار کا ایک حصہ ہیںاور یہ سنگھ پریوارکے درخت میں تنے کا مقام رکھتے ہیں،لیکن جس موہن بھاگوت سے مولانا ارشد مدنی نےملاقات کی ہے وہ تو آر ایس ایس کی جڑ ہے۔حالانکہ کچھ تبصرہ نگاروںنے کہاکہ مولانا ارشد مدنی اور موہن بھاگوت کی ملاقات ملک وملت کیلئے فالِ نیک ہے۔لیکن آزادی کے بعد سے تو ہمارے مسلم قائدین نے ہندو مسلم بھائی چارگی کیلئے کئی نیکیاں انجام دی ہیں اور کئی ملاقاتیں،کئی نشستیں،کئی جلسے،کئی جلوس ایک ہی منچ میں بیٹھ کر بات چیت بھی کی ہے تو کیا یہ تمام نیکیاں بے سود ثابت ہوئیںجو اب ایک رازدارانہ ملاقات کیلئے چچا مولانا ارشد مدنی بھاگوت کے در پر چلے گئے۔سوال یہ بھی ہے کہ کیا موہن بھاگوت جتنا بھولابھالاہے کہ اسے ملک کے موجودہ حالات کے تعلق سے سمجھانے کی ضرورت آن پڑی،یا پھر وہ اس قدر نادان ہوچکا ہے کہ اسے ملک کی جمہوریت کے تعلق سے سمجھانا پڑے۔یقیناً مولانا ارشد مدنی بہت بڑی شخصیت ہیںاور ان کی جانب سے انجام دئیے جانے والے ہر کام کو ان کے معتقدین اتباع کی نظر سے دیکھتے ہیں۔یہ امام الہند بھی ہیں،حکیم الامت ہیں،جب امام الہند کی امامت غلط راہ پر نکل جائے تو کیسے ان کی اتباع کی جاسکتی ہے۔جب حکیم الامت کی دوا اُلٹااثر کرنے لگے تو ایسی دوا کی کیا ضرورت پڑیگی؟۔ایک طرف چچا مولاناارشد مدنی نےبھاگوت جی کے یہاں دعوت قبول کی تو دوسری جانب بھتیجے مولانا محمودمدنی7 نے ان سے دو قدم آگے چھلانگ لگائی اور اورنگ زیب رحمۃ اللہ علیہ کے مقابلے میں چھترپتی شیواجی جیسے لوٹیرے بادشاہ کی تعریف کی اور شیواجی کو10 میں سے10 نمبر دئیے،جبکہ اورنگ زیب رحمۃ اللہ علیہ کو 10 میں سے8 نمبر دیکر خود ایک مسلم بادشاہ کی توہین کردی ہے۔سوال یہ نہیں ہے کہ مولانا محمود مدنی نے کس تناظرمیںشیواجی کو اورنگ زیب سے بہتر بادشاہ قراردیا بلکہ سوال یہ ہے کہ کل تک جس سنگھ پریوارکو ہندوستان اور مسلمانوں کا دشمن کہاجارہا تھااُسی سنگھ پریوار میں مولانانے تبدیلی دیکھ لی ہے اور یہ کہاکہ میں بھی موہن بھاگوت سے ملاقات کیلئے تیار ہوں۔افسوس کی بات ہے کہ محمود مدنی نے موہن بھاگوت اور سنگھ پریوار کو خوش کرنے کیلئے ولی صفت حکمران اورنگ زیب رحمتہ اللہ علیہ جو کہ حافظِ قرآن بھی تھے،تہجد گذاربھی تھے،ایمانداربھی تھے ،انہیں شیواجی سےکم تر کرنے کی کوشش کی ہے۔یقیناً شیواجی حکمران تھا،جاہل تھا،مکارتھا اور لوٹیرا تھا،یہ میں نہیں بلکہ مورخین کہے رہے ہیں۔ایسے میں اس شیواجی میں ایسی کیا خوبی دیکھ لی ہے جو اس کی تعریف میںاتر آئے ہیں۔ہمیں ایسامحسوس ہورہا ہے کہ وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے علماء واکابرین سنگھ پریوارکے سامنے ہتھیار پھینکتے جارہے ہیںاور خوشنودی حاصل کرنے کیلئے تمام حدود پار کررہے ہیں۔جو علماء آج سنگھ پریوارمیں تبدیلی دیکھ رہے ہیں،وہی علماء کچھ سال قبل تک کانگریس،ایس پی،بی ایس پی کی پرستش کررہے تھے جس کے عوض میں ان علماء کو کانگریس سمیت دیگرسیکولر جماعتوںنے راجیہ سبھا رکن،ایم ایل سی و دیگر عہدوں سے سرفراز کیا اور انہیں وی آئی پی مقام دے دیا تھا۔یقیناً اورنگ زیب رحمۃ اللہ علیہ نے کبھی بھی اقتدارکی خواہش نہیں کی تھی،نہ ان کیلئے اسکوارٹ(Escort) وگن مین تھے نہ ہی ان کی زندگی مخملی بچھونوں پر گذری نہ ان کی بیٹھک نرم و سفید گدیوں پر گذری۔یہ بادشاہ ہوکر بھی فقیرکی زندگی گذارے،لیکن آج فقیر کا دعویٰ کرنے والے بادشاہوںکی زندگی گذار رہے ہیں۔یقیناًمولانا ارشدمدنی و محمود مدنی ملک کے مسلمانوںکے قائد ہیں لیکن قائدین سے قوم مثبت فکرچاہ رہی ہے نہ کہ مہلک فکرکی آرزو مندہے۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 174256 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.