ایسے لگا کہ جیسے زمرد کو اپنے آس پاس کچھ محسوس نہیں ہو
رہا ہو زمرد کی طرف دیکھ کر سکینہ کی آنکھیں بھر آئیں ہاتھ سے آنسو صاف کیے
اور دائیں جانب بیٹھے ہوئے زمرد کے سر سے کندھے تک ہاتھ پھیرا "صدیق بھائی
بہت اچھے اور نفیس انسان تھے پتہ نہیں ہمیں اتنی جلدی کیوں چھوڑ گئے" زمرد
بلکل سکتے میں جا چکا تھا۔
پھر فون پر رنگ ہوئی شبنم نے فون کی طرف دیکھا پھر اِِگنور کردیا اس کی
ہوائیاں اُڑ گئیں۔
عباس شبنم کی طرف دیکھ رہا تھا زمرد کو تھپکی دی اور کہا بیٹا اب تمہیں
اپنے ابو کا خواب پورا کرنا ہے۔
زمرد: پرُجوش انداز میں "انشااللہ بس مجھے آپ لوگوں کی دعاؤں کی ضرورت ہے"
سکینہ" انشااللہ بیٹا" کھانے کی پلیٹ زمرد کی طرف بڑھائی۔
زمرد نے ہاتھ کے اشارے سے انکار کردیا"بس ممانی جان"
عباس"اللہ پاک صدیق کے درجات بلند فرمائے۔ سب نے آمین بولا,,,,,,,, شیلو
بھی چائے رکھتے ہوئے آمین!
اگین رنگنگ!
شبنم "اُف اِدھر تو پُرسے والا ماحول بن گیا ہے'' شیلو" میری چائے ٹی وی
لاؤنج میں لے آؤ۔ کرسی پیچھے دھکیلی کسی سے نظریں ملائے بنا تیزی سے
کھانے کے ٹیبل سے اُٹھ کر نکل کھڑی ہوئی۔
عباس کچھ کہتے کہتے رُک سا گیا غصہ سکینہ اور عباس کے چہرے سے عیاں تھا۔
زمرد شبنم کی اس حرکت پر بہت حیران ہوا اس نے عباس کے منہ پر آئی غصے کی
سُرخی کو بھانپ لیا اٹھ کر کھڑا ہوا بولا "ممانی جان ہم لوگ چائے ٹیرس پر
بیٹھ کر پئیں گے۔ اٹھ کر سیڑھیوں کی طرف دیکھتے ہوئے آپکو یاد ہے ہر سنڈے
ابو یہی فرمائیش کیا کرتے تھے۔
عباس اسے تھپکی دیتے ہوئے"چلو بیٹا"
رجب: مما میں حَسن کی طرف چلا جاؤں۔
سکینہ: بلکل نہیں اپنے روم میں جاؤ اور پڑھائی پر دھیان دو۔رجب" بے دلی سے
"اوکے مما" سکینہ کچن کی طرف چلی گئی
<---------->
'دارو 'دروازہ بجاتے ہوئے رجی رجی اٹھ جا ایک ہاتھ سے ٹرے پکڑے کھڑی۔ بولی
چلو آج تمہیں ناشتہ نہیں ملے گا۔زور سے دروازہ کھٹکٹایا۔
کمرے میں ہرطرف کپڑے بکھرے پڑے بیڈ پر کتابیں اور اخبار کے تراشے کچھ زمین
پر گرے ہوئے۔
رضیہ صوفے پر سوئی ہوئی تھی آدھا کمبل زمین پر پڑا۔ آنکھ کھلی کھڑکی پر لگے
پردے کے پھٹنے سے بننے والے سوراخ سے روشنی کی کرن دیکھی ۔ جھٹکے سے
اٹھی____ رجی ناشتہ بھی گیا اور نوکری بھی۔آنکھیں مِچ کر کھولیں گھنگھریالے
بالوں کو باندھا پھر کانوں سے روئی نکالی۔ 'نوکنگ ڈور'دروازے کی طرف لپکی
تو راستے میں پڑے جوتے سے پاؤں اٹک گیا گرتے پڑتے دروازے تک پہنچی۔ دروازہ
کھول کر معصوم شکل بناتے ہوئے دروازے کے ساتھ ساتھ پیچھے کو ہٹنے لگی۔ دارو
"یتیموں جیسی شکل نہ بنایا کر کل سے ناشتہ خود بنانا۔ ٹرے پکڑ کر دارو تم
اتنا کام کرتی ہو میں نے سوچ لیا اب تمہیں بھی اپنے ساتھ لے جاؤں گی۔
رضیہ:میں تیرا کمرہ صاف نہیں کروں گی ناشتہ کرکے برتن کچن میں دے جانا۔
تیری یہ رپورٹس اخبار والے ہمیشہ کی طرح ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں گے۔
رضیہ"اس بار ٹیڈپول نے وعدہ کیا ہے ہر قیمت پر چھاپے گا،دارو تو دعا نہیں
کر سکتی تو منہ بند ہی۔ ٹرے اس کے ہاتھ تھماتے ہوئے پکڑ اپنا ناشتہ نہیں
کرنا مجھے! الماری سے مجنڈا کلر کی شلوار اور سفید شرٹ ہینگر سے نکال کر
ہینگر بیڈ کی طرف اچھال دیا "وہ واشروم میں چلی گئی۔ دارو ٹرے پکڑ کر بوجھل
قدموں سے آگے بڑھی "3 سال بیت گئے تجھے طفل تسلیاں دیتے ہوئے،اب نہیں ہوتا
مجھ سے" یااللہ اس بچی کی محنت بھر لا کتابیں سمیٹ کرکمرے سے نکل گئی۔
<--------->
سکینہ"شیلو چائے ٹیبل پر رکھ دو میں خود سرو کروں گی۔
شیلو"جی اچھا بیگم صاحبہ"
سکینہ زمرد کو چائے پکڑاتے ہوئے" بلکل صدیق بھائی کی جوانی کی تصویر لگا
رہا ہے میرا بیٹا"
عباس"صحیح کہا آپ نے سکینہ"
زمرد بہت خوش ہوا اسکے چہرے سے خود اعتمادی چھلک رہی تھی۔ ممانی جان رجب
کہاں گیا?سکینہ "زمرد بیٹا اسکے امتحان ہو رہے ہیں بس ڈانٹ ڈاپٹ کر کتابیں
دے کر بیٹھانا پڑتا ہے۔''رجب'' بھائی آپ نے یاد کیا اور میں حاضر ہو گیا۔
عباس"بہت نکما ہے آئے روز اسکے استاد کی کال آتی ہے فرما رہے ہوتے ہیں
"عباس صاحب رجب بہت نالائق ہے"
رجب" بابا پلیز بھائی کے سامنے تو عزت رکھ لیں۔منہ پر معصومیت لاتے ہوئے
ویسے آپ سر فخر کی بات کر رہے ہیں نا ? عباس "بلکل بیٹا جی ,سکینہ کی طرف
دیکھتے ہوئے یہ دیکھیں اب آپ ;پھر کوئی نہ کوئی بہانا لے کر حاضر ہوگئے
صاحب زادے"
سکینہ"بیٹا کتابوں میں دل لگاؤ دو پیپر رہ گئے پھر بھائی کے ساتھ گھومنا۔
رجب مما بلکل جی نہیں چاہ رہا بہت آسان ہے مشکل والے تو ہوگئے۔
زمرد"رجب چلو شاباش پڑھائی میں دل لگاؤ۔ میں نے تو سنا تھا تم نے پارٹ ون
میں فرسٹ پوزیشن لی ہے۔
رجب"جی بھائی بلکل صحیح سنا ہے" عباس" بیٹا یہ بھی بتاؤ کہ کیمسٹری میں بی
گریڈ لیا ہے"
رجب"کالج میں کیمسٹری والے سر اور گھر میں بابا ہر وقت میرے دماغ میں طنز
کے ہائی وولٹیج جھٹکے لگاتے رہتے ہیں۔
زمرد"رجب آپ سُرخاب سے کیمسٹری پڑھ لیتے" رجب "جی بھائی اس بار سُر سے ہی
پڑھا ہے مگر آپ کو کس نے بتایا کہ اُسکا کیمسٹری کا سبجیکٹ بہت اچھا ہے۔
عباس نے زمرد کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا____؟
زمرد "مما نے بتایا تھا کہ سُرخاب کیمسٹری میں بی ایس کر رہی ہے۔
سکینہ"ہر بات کی انوسٹیگیشن شروع کردیا کرو۔
رجب: میں مستقبل کا ڈیٹکٹیو ہوں۔ انوسٹی گیشن تو بنتی ہے کیوں زمرد بھئیا؟
زمرد"آہاں؟ ویری انٹرسٹنگ
عباس " میں فخر سے کہتا ہوں شام کو آجائیں ذرا گائیڈ کر دیں گے۔ کیا خیاݪ
ہے ویسے تمہارا۔-----? رجب کی طرف دیکھا
رجب"بابا کل انگلش کا پیپر ہے.... نہیں کریں پلیز! آئی پرامس بابا میں خود
تیاری کرلوں گا بس آپ سر فخر کو مت بلائیں.....وہ مجھے دیکھ کر ہی لال پیلے
ہو جاتے منہ بالکونی کے گریل کی طرف کیا بھاری بھرکم آواز میں بولا"رجب تم
نے سب ٹیچرز کے سبجیکٹس میں اے پلس گریڈ لیا دشمنی مجھ سے ہی تھی جو
کیمسٹری میں بیییی گریڈ لیا" بس انکا الیکچر یہیں سے شروع ہوتا اور اِسی
بات پے ختم" وہ ٹیرس سے بھاگ گیا۔
سکینہ "عباس آپ بھی نا میرے بیٹے کو تنگ کرتے رہتے ہیں۔'عباس' ہونٹوں پر
دھبی ہوئی مسکراہٹ لایا اور عینک لگاتے ہوئے اخبار بینی میں مصروف ہوگیا۔
<-------->
سُرخاب کے کمرے کا دروازہ کھلا پایا رجب جلدی سے کمرے میں گیا تو وہ تھی ہی
نہیں حیران ہوا پھر باہر کی طرف بھاگا اِس سے پہلے کہ وہ دروازے کے پاس
پہنچتا سامنے سے سُرخاب ناشتے کی ٹرے لے کر پیچھے کی طرف دیکھتے ہوئے کمرے
میں داخل ہو گئی دونوں بُری طرح سے ٹکرائے اور برتن گرنے کی آواز سارے گھر
میں گھونجی
سکینہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی" اللہ خیر کرے"
سرخاب اپنے منہ پر دونوں ہاتھ رکھ کر بولی یہ کیا کیا تم نے? رجب"سُر تم
ٹکرائی ہو مجھ سے" سُرخاب نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھا آہستہ بولو
رجب "اپنے منہ سے اسکا ہاتھ ہٹا دیا "بہت سمجھ دار ہو، برتن گرنے کی آواز
سے تمہارے ناول میں موجود تین ہزار سالہ ممی بھی جاگ گئی ہو گی۔ مجھے چپ
کروانے سے کیا ہوگا?
<------------>
عباس:کچھ نہیں ہوا بیٹھ جاؤ سکینہ کو کرسی پر بیٹھنے کا کہا۔
زمرد" دیکھیں تو ہوا کیا ہے ممانی جان آپ رکیں میں دیکھتا ہوں"
عباس"ارے چھوڑو بیٹا پڑوس سے برتن گرنے کی آواز لگ رہی ہے۔ تمہاری ممانی
فضول میں الرٹ ہو جاتیں ہیں بیٹھ جاؤ آپ دونوں
سکینہ پڑوس سے ناممکن" میرے جہیز کے برتن تھے" سکینہ جلدی سے بھاگی
عباس اٹھا تو زمرد نے کہا ماموں جان آپ بیٹھ جائیں میں دیکھتا ہوں۔ عباس
"بیٹا ذرا دیکھنا! فضول میں ڈانٹیں گی ملازموں کو، ایک تو اِن عورتوں کے
جہیز کے برتن ساری زندگی ختم نہیں ہوتے اخبار کو چھٹک کر سیدھا کیا، ناک کے
نیچے تک کِسکی عینک انگلی سے ٹھیک کی۔
<-------------->
سُرخاب" قدموں کی چاپ لگتا ہے کوئی آرہا ہے!"
رجب"اوپر بابا لوگ تھے "سُرخاب"کیا.... اب کیا ہو گا? رجب نے کمرے میں
اِدھر اُدھر دیکھا پھر بیڈ سے کمبل اٹھا کر اس کی تین تہوں کو درمیان سے
پھر دوہرا کیا۔ سُر پیچھے ہٹو , وہ دروازے سے باہر نکل گئی "بولی یہ کیا کر
رہے ہو رکو....!
رجب نے برتنوں کی کرچیاں اور فرش پر گری ہوئی چائے اور سینڈوچ کمبل سے اندر
دھکیل کر دروازہ بند کردیا۔
سُرخاب "رجب دروازہ کھولو رجب" وہ پیچھے مڑی تو سکینہ کو سیدھے کچن کی طرف
جاتے دیکھا۔" آہ بھری" شکر ہے! مما اِدھر نہیں آئیں" وہ جلدی سے باہر کی
طرف بھاگ گئی۔
زمرد نے سُرخاب کی طرف دیکھا اِس سے پہلے کہ وہ اُس کا پیچھا کرتا سکینہ
آگئی "کچن میں تو کوئی بھی نہیں ہے سُرخاب کے روم کا ڈور بھی بند ہے۔"
زمرد: ممانی جان چھوڑیں! مجھے لگتا پڑوس سے شور آیا ۔آئیں ہم اوپر چلتے
ہیں۔ سکینہ "بیٹا آپ چلو میں ذرا رجب کو دیکھوں دوست کی طرف نہ نکل گیا ہو۔
زمرد"چلیں ٹھیک ہے"
سرخاب ایگزٹ ڈور سے 5 قدم دور پڑے تین فٹ اونچے گملے کے پیچھے سے اٹھی اور
جیسمین کے پودے کی پھولوں سے بھری ٹہنیوں کو پیچھے ہٹاتے ہوئے "او نو اب
کیا ہوگا۔"
زمرد ڈرائنگروم میں پڑے صوفے کی طرف ابھی دو چار قدم ہی بڑھا کہ کسی کے
بھاگنے کی آواز آئی وہ جونہی مڑا تو پیچھے کچھ نہیں تھا۔اگنور کرتے ہوئے
سیڑھیوں کی طرف چل پڑا۔
سرخاب کمرے میں داخل ہوتے ہی " کھول دیا" کمرے میں پہنچ کر لمبی سانس بھری
"شکر ہے کسی نے نہیں دیکھا"
رجب"دروازہ لاک کب تھا میں نے تو اگلے ہی لمحے کھول دیا تھا۔ وہ ٹوٹے
برتنوں کی کرچیوں کی طرف انگلی کرتے ہوئے ہوئے اب ان ڈیڈ باڈیز کا کیا کرنا
ہے____؟؟سرخاب کی طرف دیکھ کر طنزیہ ہنسا۔ سُرخاب"دانت مت نکالو بھاگو
تمہارے پاس وقت کم ہے,مما چیک کرنے گئی ہیں کہیں تم حسن کی طرف تو نہیں چلے
گئے!
رجب"اب بتانا تھا? برتنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں چھپاؤ____"تم نے
بتانے کب دیا"لاپروہی میں بولی
میں کیا کروں...ہاں! کتاب دو__ جلدی!ادھر اُدھر بھاگا پھر اُجلت میں بیڈ پر
پڑا ہوا افسانہ اٹھا کر لے گیا۔
سُرخاب"رجب سنو____سنو "مگر وہ جا چکا تھا اسنے آگے بڑھ کر کمرے کا دروازہ
بند کر دیا۔ باسکٹ اٹھا کر لائی کرچیاں اس میں ڈال دیں۔ جیسے کچھ یاد آیا
ہو جلدی سے اٹھی اور کچھ ڈھونڈنے لگی "اُف یہ کیا چائے کا داغ" بد دِلی سے
کمبل زمین پر دوبارہ پٹخ دیا۔
<----------->
سکینہ کمرے کے اندر داخل ہوئی "کہاں گیا ہے? آواز دی "رجب" رجب "جی مما"
سکینہ کہاں گئے تھے?
ناول کھول کر سکینہ کی طرف کردیا" مما یہ سُر،،،پھر ذرا ٹھہر کر بولا
لائبریری سے لینے گیا تھا"
سکینہ" بیٹا میں دودھ بھیجتی ہوں"وہ باہر نکل گئی۔
<----------->
عباس"فون کان سے لگائے سیڑھیوں سے اترتے ہوئے "بکواس بند کرو" زمرد کی طرف
دیکھا اور تھوڑا ہچکچایا میں کال بیک کرتا ہوں۔
سکینہ پریشان ہو گئی "کون ہے? زمرد "ماموں جان" زمرد کا کندھا تھام کر نیچے
اترتے ہوئے بیٹا آرام کرو میں آتا ہوں، عباس نظریں ملائے بغیر اسکے قریب سے
گزر گیا۔ سکینہ کہاں جارہے ہیں?
عباس"آفس کا کام ہے کچھ دیر تک آتا ہوں۔
سکینہ"مگر آج تو اتوار ہے لیبر تو چھٹی پر ہے" وہ کچھ سنے بغیر چلا گیا۔
زمرد"ممانی جان آپ پریشان کیوں ہیں? کیا کوئی مسئلہ ہے___ہے تو بتائیں؟
سکینہ"تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد مسکرائی چلو بیٹا چائے پیتے ہیں۔ وہ
پیچھے مڑی تو زمرد ایگزٹ کے پاس جا چکا تھا۔ زمرد____ زمرد___ کہتے ہوئے وہ
باہر کی طرف دوڑی۔
زمرد ممانی جان اس گاڑی کی چابی؟ بیٹا کہاں جانا ؟
زمرد"بس ابھی آیا" بیٹا اتنی دور کا سفر کر کے آئے ہو ابھی آرام کرو۔
زمرد"جلدی دیں ماموں جان دور نکل جائیں گے"
رجب "جیب سے بائیک کی کیز نکال کر" زمرد بھائی" گیراج کی سائیڈ وال کے ساتھ
کھڑی بائیک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اُسکی طرف اچھال دیں۔
سکینہ: خفگی کا اظہار کرتے ہوئے"رجب" زمرد رُک جاؤ،
زمرد نے بائیک اسٹارٹ کی گارڈ نے گیٹ کھول دیا۔
رجب "بھائی پلیز مجھے بھی ساتھ لے جائیں" زمرد نے اسکی فریاد سنی اَن سنی
کردی۔
سکینہ:رجب آج ہی تمہارے بابا سے کہہ کر بکواتی ہوں اِسے 18 سال کے ہو گے تو
لے لینا"وہ اندر چلی گئی ۔رجب اسکے پیچھے بھاگا "مما مما.... سوری مما
پلیز"
سکینہ"کیوں دی چابی? وہ غصے کا اظہار کرتے ہوئے بولی۔
رجب" سکینہ کے پاس آکر"چھوٹا ہوں اتنا بھی نہیں کے بابا کی پریشانیاں نہ
سمجھ سکوں "وہ اندر چلا گیا۔ سکینہ لڑکھڑاتے قدموں سے صوفے کی ٹیک کو تھام
کر اس پر بیٹھ گئی۔
|