یہ موجِ نفس کیا ہے؟ تلوار ہے! خودی کیا ہے؟ تلوار کی
دھار ہے!
خودی کیا ہے؟ رازِ درونِ حیات! خودی کیا ہے؟ بیداریئ کا ئنات!
خودی جلو ہ بدمست و خلوت پسند! سمندر ہے اک بوند پا نی میں بند!
اندھیرے اجالے میں ہے تابناک! من وتو سے پیدا، من وتو سے پاک!
ازل اس کے پیچھے، ا بد سامنے ! نہ حد اس کے پیچھے، نہ حد سامنے!
زمانے کے دریا میں بہتی ہوئی ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی
تجسس کی راہیں بدلتی ہوئی دما دم نگاہیں بدلتی ہوئی
سبک اس کے ہاتھوں سنگِ گراں! پہاڑ اس کی ضربوں سے ریگِ رواں
سفر اس کا انجام و آغاز ہے یہ اس کی تقویم کا راز ہے
کرن چاند میں ہے،شرر سنگ میں یہ بیرنگ ہے، رنگ میں ڈوب کر
اسے واسطہ کیا کم وبیش سے نشیب و فراز و پس و پیش سے
ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر ہوئی خاکِ آدم میں صورت پذیر
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
’ساقی نامہ‘ کے ان اشعار میں خودی کی ایک اور نمایاں خصوصیت جس کا ذکر یہاں
از حد ضروری ہے،وہ یہ ہے کہ خودی اپنے گو ناگوں تجربوں سے اپنے آپ کو
مستحکم کرتی ہے۔وہ اپنی تحقیق و تکمیل کے پیہم سفر کو کبھی ایک منزل پر ختم
نہیں کرتی۔پس جب ایک منزل پر اس کا قافلہ پہنچ جاتا ہے تو ذرا دم لے کر وہ
آگے بڑھتی ہے اور نئی نئی منزلوں تک پہنچنے کا شوق اسے بے قرار و بے چین کر
دیتا ہے اور رہِ نورد ِ شوق کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتااور کوئی مقام اس کے
لیے انتہائے راہ کا حکم نہیں رکھتا۔ حقائق کی دنیا خودی کی منزلِ اولیں
ہے۔طلسم ِ زمان و مکاں کو توڑ کر جب وہ آگے بڑھتی توضمیرِ وجود میں اس کو
بے شمار عالم نظر آتے ہیں،جو بظاہر بے نمود ہیں؛لیکن جن کے ظاہر ہونے کا
امکان تو موجود ہے۔ ذیل کے اشعار دیکھئے،کس خوب صورتی سے یہی مضمون بیان
کیا ہے:
خودی کی ہے یہ منزلِ اولیں مسافر! یہ تیرا نشیمن نہیں
تری آگ اس خاک داں سے نہیں جہاں تجھ سے ہے تو جہاں سے نہیں
بڑھے جا یہ کوہِ گراں تو ڑ کر! طلسم ِ زمان و مکاں توڑ کر!
خودی شیرِ مولا، جہاں اس کا صید زمیں اس کی صید، آسماں اس کا صید
جہاں او ر بھی ہیں ابھی بے نمود کہ خا لی نہیں ضمرِ وجود
ہر اک منتظر تیری یلغار کا تری شوخی ئ فکر و کردا ر کا
مگر آگے بڑھنے اور نئی دنیائیں تلاش کرنے کے لیے دل میں آرزو کا پیدا ہونا
ضروری ہے گویا آرزو ارتقائے خودی کا پہلا زینہ ہے کیونکہ اسی کی بدولت قوتِ
عمل تحریک پاتی ہے۔ علامہ اقبالؒ کے نزدیک جس دل میں آرزو نہیں وہ دل زندگی
کی حرارت سے محروم ہے اور جس انسان کا دل زندگی کی حرارت سے محروم ہو وہ
زندہ نہیں مردہ ہے۔وہ کہتے ہیں:
زندگی در جستجو پوشید ہ است اصلِ او در آرزو پوشیدہ است
آرزو را در دلِ خود زندہ دار تا نگر د دمشتِ خاک ِ مزار
علامہ اقبال ؒ کہتے ہیں،آرزو ہی مقاصد کے شکار کے لیے کمند کا کام دیتی
ہے،اسی سے انسان کے افعال میں نطم وضبط پیدا ہوتا ہے، آرزو کی شعاع ہی
انسان کے دل کو روشن رکھتی ہے اور جب انسانی دل آرزو کی تخلیق چھوڑ دیتا ہے
تو وہ مردہ ہو جاتا ہے۔اس لیے دل کے زندہ رہنے کی ہمیشہ آرزو کرنی چاہیے:
|