ہمارے معاشرے میں بیٹی کی شادی کا سوچتے ہی جو خیال سب سے
پہلے ہمارے ذہن میں آتا ہے وہ ہے جہیز _آگر ہم یوں کہیں کہ جہیز کے بغیر
بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنا نہ ممکن ہے تو یقیناً غلط نہ ہوگا جہیز کی اس لعنت
نے لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں کی زندگیوں کو جہنم بنا دیا ہے انکی معصوم
آنکھوں سے رنگین خواب تک چھین لیے ہیں اس لعنت نے انکو ایسے اندھیروں میں
دھکیل دیا ہے جہاں ہر طرف صرف نہ امیدی 'مایوسی کے اندھیرے ہی ہیں اجالے کی
کوئی کیرن نظر نہیں آتی _درحقیقت جہیز ایک ہندوستانی رسم و رواج ہے اس کا
ہمارے مسّلم معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر افسوس اس سب کے باوجود ہم نے
اس کو اتنا اہم بنا دیا ہے کہ جب تک والدین اپنی بیٹی کو سامان سے بھرے
ہوئے ٹرک نہ دیں تب تک لڑکے والے شادی کو راضی نہیں ہوتے اور بات صرف یہاں
ختم نہیں ہوتی کہ شادی سے پہلے جو دیا سو دیا اب اور نہیں چاہیئے بلکہ شادی
کے بعد بھی لڑکے والوں کی جانب سے کئی مطالبات کیے جاتے ہیں اور اگر لڑکی
والے انکے مطالبات پورے نہ کرسکیں تو اس کی قیمت بیچاری لڑکی کو اپنی جان
گھاوا کر ادا کرنی پڑتی ہے _ہمارے معاشرے میں غریب کی کوئی اہمیت نہیں ہے
وہ مخص زمین پر ایک رینگتا ہوا کیڑا مکوڑا ہے جیسے ہر کوئی مسلتا ہوا آگے
نکلنا چاہتا ہے اور جب غریب کے گھر بیٹی پیدا ہوجائے تو ایک طرف وہ خدا کی
رحمت ہے تو دوسری طرف وہی رحمت جب شادی کی عمر کو آتی ہے تو زحمت بن جاتی
ہے کیونکہ لڑکے والے جہیز کی لعنت کا تقاضا کرتے ہیں جہیز کی اصل حقیقت اس
کے سوا کچھ بھی نہیں ہے کہ اگر والدین جو کے اپنی بیٹی کو پال پوس کر بڑا
کرتے ہیں آگر گھر کی دہلیز سے رخصت ہوتے وقت پیار اور محبت میں کچھ تحفے
دیں تو وہ جہیز نہیں بلکہ والدین کے پیار اور محبت کی بنا پر ایک فطری عمل
ہے جیسے اس معاشرے کے لوگوں نے جہیز کا نام دے کر فرمائشی پروگرام بنا دیا
ہے جو کہ لڑکی والوں پر سراسر ظلم و زیادتی ہے _آگر ہم قرآن و حدیث پر
روشنی ڈالیں تو یہ بات صاف ظاہر ہوجاتی ہے کہ جس جہیز کو ہم نے اتنی اہمیت
دی ہوئی ہے دین اسلام میں اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے اور نہ ہی اسی کوئی
پابندی عائد کی گیئ ہےکہ آگر بیٹی کو سامان سے بھرے ٹرک نہیں دو گئے تو
شادی مکمل نہیں ہوگی بلکہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ نے اپنی
پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شادی کے وقت سادگی کی ایک
بہترین مثال قائم کر کے دکھائی ہے _آپ ﷺ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہا کی شادی کے وقت روزمرہ کی چند معمولی چیزیں دیں اور شادی میں
کسی قسم کی کوئی نمود و نمائش اور دکھاوا نہیں تھا مگر افسوس کے ساتھ کہنا
پڑتا ہے کہ آج ہم مسلمان اپنے رسول ﷺ کی سیرت کو بھول بیٹھے ہیں نمود و
نمائش اور دکھاوے کے نت نئے انداز اپناتے ہوئے نظر آرہے ہیں جب تک ہماری
تقریب میں دس دس ڈشوں کا اہتمام نہ ہو تب تک ہماری تقریب مکمل نہیں ہوتی _
ہمیں چاہیئے کہ جہیز پر فضول خرچ نہ کریں اور غریب اور متوسط طبقےکا خیال
رکھیں تاکہ ان کا شادی بیاہ کا خواب پورا ہو سکھے اور وہ اپنی بیٹیوں کے
ہاتھ پیلے کر سکیں ویسے بھی فضول خرچی کرنے والے کو قرآن نے شیطان کا بھائی
قرار دیا ہے ہمارے معاشرے میں جہیز کی اس لعنت اور ناسور کو جڑ سے ختم کرنے
کے لیے والدین کو بھی سختی سے عمل کرنا ہوگا اور یہ عہد کرنا ہوگا کہ نا
جہیز دیں گے اور نا جہیز لیں گے_ہمیں یہ بات سمجھنی ہوگی کہ جہیز کے نام پر
جائیداد وغیرہ فروخت کروا کر فضول مطالبات پورے کروانا ایک اخلاقی جرم ہے _حکومتوں
کو بھی ایسا قانون نافذ کرنا ہوگا جس سے جہیز کی لعنت کو ختم کیا جائے اور
اس پر عمل درآمد نا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے ساتھ ہی سخت سزا
اور جرمانہ عائد کیا جائے _صاحب ثروت لوگوں کو چاہیئے کہ دولت کو جہیز پر
خرچ کرنے کے بجائے کسی مسجد کی تعمیر ،بیوہ اور یتیم کی مدد کرنے یا کسی
غریب کی بیٹی کی شادی پر خرچ کریں تاکہ غریب کی دعائیں مل ملیں جس سے ایک
طرف تو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل ہوکر آخرت سنور جائے گی اور دوسری طرف
روحانی لذت حاصل ہوگی _ |