میرے ایک دوست پراپرٹی کا کام کرتے ہیں ۔ انہیں فخر ہے کہ
پراپرٹی کے کاروبار میں ان کا تین نسلوں کا تجربہ ہے ۔ ان کے دفتر میں
صحافیوں ،شوشل ورکرز ،خفیہ کے اہلکاروں سے آسانی سے ملاتا ہوجاتی ہے ۔ خاص
کر صحافی تو بہت مقدار میں مل جاتے ہیں ۔ پراپرٹی ڈیلروں کی تو کمی نہیں
ہوتی ہے ۔ پراپرٹی ڈیلرز کی کئی اقسام ہیں ۔ ایک قسم ایسی ہے جو کام تو کچھ
بھی نہیں کرتے ہیں مگر پراپرٹی کے کاروبار میں بڑا ہاتھ مارنے کے چکر میں
رہتے ہیں ۔ ان کا اپنا دفتر نہیں ہوتا ہے ۔ اصلی ،نقلی اور جعلی پراپرٹی کے
کاغذات اٹھائے مارے مارے پھرتے رہتے ہیں ۔ ایک ایسے پراپرٹی ڈیلر سے گپ شپ
ہوئی ۔ موصوف کو تین کنال کا پلاٹ فروخت کرنے کا کہاجس کے جواب میں مذکور
نے اپنے وسیع تجربات اور تعلقات کی ایک لمبی فہرست بتاتے ہوئے پوچھا کہ
پلاٹ کہاں پر ہے ۔ بتا یا کہ مریخ پر ہے ۔ فٹ بولے بک جائے گا ۔ مریخ کون
سے ایریا میں ہے ۔ بتایا کہ چاند کے قریب ہی ہے ۔ یہ ہر فن مولا ہوتے ہیں ۔
ہر کام کرنے کی حامی بھر لیتے ہیں ۔ زندگی کے ہر شعبہ میں خصوصی مہارت
رکھتے ہیں ۔ وہ صرف پراپرٹی ڈیلر ہی نہیں ہوتے ہیں بلکہ صحافی بھی کہلاتے
ہیں ۔ تین چار پریس کارڈز،پریس کلب کا ممبر شپ کارڈ،جرنلسٹس
یونین،کونسل،فیڈریشن،ایسوسی ایشن،فورمز کے کارڈز بھی ہوتے ہیں ۔ ایک دو کسی
انسانی حقوق کی تنظیم اورانسداد جرائم کی سوساءٹی کا کارڈز بھی لازمی ہوتا
ہے ۔ تمام بڑے صحافیوں سے تعلق ہوتا ہے ۔ خاص کر پاک فوج کے خفیہ ادارے سے
لین پکی ہوتی ہے ۔ یہی بندہ کچھ عرصے بعد اپنا ذاتی اخبار بھی نکالنا شروع
کردیتا ہے،ٹی وی چینل بنانا تو اس کے بائیں ہاتھ کھیل ہوتا ہے ۔ اپنے وسیع
تجربات کی بنیاد پر شوشل میڈیا پر تواتر سے اشتہارات دیئے جاتے ہیں ہیں کہ
آپ کا مسلہ ہم نے حل کردیا ہے ۔ اب آپ بھی صحافی بن سکتے ہیں ۔ اگر آپ
اپنے علاقے کو اچھی طرح سے جانتے ہیں تو ابھی ہم سے رابطہ کریں ۔ پریس کارڈ
اور ٹی وی لوگو مفت دیا جائے گا ۔ تعلیم وتجربہ ضروری نہیں ہے ۔ شوقین تو
پہلے ہی موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں ۔ ایک کارڈ اور بنوا لیتے ہیں ۔ اب یہ
صحافی اسلام آباد نیشنل پریس کلب کا حصہ ہیں ۔ بڑے صحافیوں کے دوست احباب
میں بھی شامل ہیں ۔ فارن آفس کی پریس بریفنگ میں اگلی کرسیوں پر براجمان
ہوتے ہیں ۔ صحافت کے نام پر وہی کرتے ہیں ۔ جس کا انہیں تجربہ ہوتا ہے او
جور کچھ سیکھا ہوتا ہے ۔ جب وہ نیشنل پریس کلب کے ممبر بن جاتے ہیں تو
انہیں کئی استاد بھی مل جاتے ہیں ۔ جن کی مدد سے وہ کئی راہداریوں سے
واقفیت حاصل کرلیتے ہیں ۔ کچھ عرصہ کی محنت کے بعد پریس کلب کے صدر اور
سیکرٹری بھی بن جاتے ہیں ۔ مگر اپنے پرانے کام کو نہیں بھولتے بلکہ زیادہ
بہتر طریقے سے کرتے ہیں ۔ پریس کلب میں جانے والے صحافی سب جانتے ہیں کہ
فلاں صحافی سے پراپرٹی کی اچھی معلومات مل سکتی ہیں اور وہ پلاٹ بھی خرید
کر دے سکتا ہے ۔ بہت سے ایسے صحافی نیشنل پریس کلب کے ممبر ہیں جن کی اپنی
ذاتی ہاوسنگ سوساءٹیاں ہیں اور وہ فل ٹائم پراپرٹی ڈیلری اور پارٹ ٹائم
صحافت کرتے ہیں ۔ کبھی یہ کہا جاتا تھا کہ سیاست اور صحافت میں معمولی لکیر
ہے ۔ اب رئیل اسٹیٹ اور جرنلزم میں فرق ختم ہوتاجارہا ہے ۔ ہر بڑے پراپرٹی
ڈیلر کا اپنا اخبار اور ٹی وی بھی ہے ۔ ائیل اسٹیٹ سے صحافت میں آنا کوئی
مسلہ نہیں ہے ۔ اب تو زیادہ صحافت سے پراپرٹی ڈیلری میں جانے کا رجحان فروغ
پارہا ہے ۔ کچھ عرصہ ہوا ۔ کسی کے ساتھ مقامی تھانے میں جانا ہوا ۔ وہاں
ایک بڑے صحافی ایس ایچ او کے دفتر میں بیٹھے تھے ۔ معلوم ہوا کہ موصوف نے
تیس لاکھ پراپرٹی میں لگائے تھے مگر ڈوب گئے ہیں ۔ بہت سے صحافی ایسے ہیں
جو پی ایف یو جے اور نیشنل پریس کلب کے سابق صدر اور سیکرٹری ہیں ۔ اللہ کے
فضل و کرم سے کامیاب پراپرٹی ڈیلر ہیں ۔ ارب پتی نہیں تو کروڑ پتی ضرور بن
چکے ہیں ۔
|