وسی بابا نے ''کشمیریوں کو کیا بتائیں، ہمارا وزیراعظم
جھوٹا ہے یا بنڈل باز؟'' کے عنوان سے ایک خوبصورت کالم تحریر کیا ہے جس میں
کشمیریوں کے جذبہ آزادی اور ان کی پاکستان سے توقعات کو بھی بیان کیا گیا
ہے۔راولپنڈی میں انیس سو اڑتالیس سے اکاون اور انیس سو پینسٹھ کی جنگوں کے
نتیجے میں اپنے وطن سے جبری طور پر جلا وطن کئیے گئے کشمیری بھی بڑی تعداد
میں رہتے ہیں بلکہ اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جاے تو پرانا راولپنڈی راجہ
بازار سے سیدپوری گیٹ تک ہی تھا راجہ بازار کو اسی وجہ سے راجہ بازار کہا
جاتا تھا کہ یہ سارا بازار اور اس کے ملحقہ کئی علاقے مہاراجہ کشمیر کی
ملکیت تھے۔ صدر میں چھاونی کو چھوڑ کر پونچھ ہاوس تھا جس کا نام ہی اس کی
ملکیت کو ظاہر کرتا ہے باقی رتہ ، دھمیال ، مریڑ ، پنڈورہ وغیرہ مواضعات
تھے جو وقت گزرنے کے ساتھ راولپنڈی میں شامل ہو چکے ہیں ۔
راولپنڈی شہر کا کشمیر اور کشمیریوں سے تعلق بہت پرانا ہے میرے والد صاحب
اور میرے نانا بھی انیس سو اڑتالیس کے قبائلی حملے کے بعد مجاہدین کی حمایت
کے الزام میں وطن چھوڑنے پر مجبور کر دئیے گئے۔ میں اپنے بچپن میں ہمیشہ
یہی سنتا کہ کشمیر کی آزادی کے بعد ہم نے واپس اپنے وطن کشمیر جانا ہے۔
میرے والد صاحب مجھے ہمارے گائوں جو ایک جھیل کے کنارے آباد ہے ، کی
کہانیاں سنایا کرتے ۔ میرے کزن اور بہت سے بھانجے بھتیجے آج بھی وہیں آباد
ہیں جن سے میں کبھی نہیں مل سکا ۔
میرے نانا بارہ مولہ کے سرکردہ معززین میں شمار ہوتے تھے اور قدیم فارسی
اردو، عربی ، ہندی ، پنجابی ، ڈوگری ، گوجری زبانیں نہ صرف اہل زبان کی طرح
بولتے بلکہ ان زبانوں میں شاعری بھی کیا کرتے ۔ پاکستان میں آباد بابائے
گوجری چوہدری فضل حسین کے پاس میرے نانا کا لکھا ہوا ایک گوجری زبان میں
منظوم خط بھی موجود ہے جو انہوں نے کہیں شائع بھی کروایا تھا ۔ میرے نانا
ان لوگوں میں شمار ہوتے تھے جنہوں نے بندوق اٹھا کر قبائلی مجاہدین کا ساتھ
دیا اور ان کے ساتھ جہاد میں حصہ لیا ۔ اسی وجہ سے ان کو دلاور وانی کا
خطاب دیا گیا تھا جبکہ ان کا نام عبدلاحد وانی تھا ۔
میرے والد کی عمر ہجرت کے وقت پندرہ سولہ سال تھی اور انہوں نے اپنے جگری
دوست اور پاکستان کے دیوانے خواجہ امین مختار صاحب کے ساتھ پاکستان کو ہجرت
کی تھی۔ جرم ان کا بھی مجاہدین کی مدد اور پاکستان سے محبت ہی تھا ۔ یہ اسی
امید پر پاکستان آئے تھے کہ مجاہدین دوبارہ کشمیر جائیں گے تو ہم ان کے
ساتھ اپنا وطن آزاد کروانے جائیں گے۔ خواجہ امین مختار قائد اعظم اور
پاکستان کے دیوانے تھے۔ پاکستان آ کر گورڈن کالج سے اپنی تعلیم مکمل کی اور
مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے سیاست میں حصہ لیتے رہے۔ آزاد کشمیر کی حکومت
میں سردار ابراہیم صاحب کے معاون خصوصی بھی رہے لیکن نہ تو پاکستان میں
کوئی گھر یا جائداد بنائی اور نہ ہی شادی کی ۔ کشمیر میں مقامی رواج کے
مطابق ان کی کم عمری میں ہی شادی کر دی گئی تھی اور پاکستان آتے وقت چند
ماہ کا ایک بیٹا بھی تھا لیکن پھر زندگی بھر ان کو واپس کشمیر جانا نصیب نہ
ہوا ۔ ان کی بیگم نے ان کے نام پر ساری زندگی اسی طرح جدائی میں گزار دی ۔
میں ان کو چاچا جی کہا کرتا ، میں جب ان کو کہتا کہ چاچا جی آپ شادی کیوں
نہیں کر لیتے تو جواب دیتے کہ آپ کی چچی میرے نام پر کشمیر میں بیٹھی ہوئی
ہے میں کس طرح اس سے بیوفائی کر لوں ۔
میرے یہ چاچا جی زندگی بھر زیادہ تر ہمارے ساتھ ہی رہا کرتے اور جب فوت
ہوئے تو ان کا کل اثاثہ تن کے چند جوڑوں کے علاوہ کچھ نہ تھا ۔ جب شملہ
معاہدے کے کافی بعد ویزا پر کشمیر میں کچھ آنا جانا شروع ہوا تو میں ان سے
کہتا کہ چاچا جی آپ بھی ویزا لے کر کشمیر ہو آئیں تو رنجیدہ ہو کر کہتے کہ
جس بھارت کے قبضے کے خلاف جدوجہد کی پاداش میں میں نے اپنا وطن چھوڑا اب
اسی سے اجازت لے کر اپنے گھر جائوں ، یہ میری غیرت نہیں مانتی ۔
کشمیر زمین سے زیادہ ایک انسانی المیہ ہے جو اپنے اندر لاتعداد دردناک
داستانیں سمیٹے ہوئے ہے ۔ قدیم ترین تاریخ کے پس منظر میں دیکھیں تو کشمیر
کی زیادہ تر آبادی " پشاچ " ہے جو آرینز کے آنے سے پہلے وادی سندھ میں آباد
تھے اور آریوں کے غلبہ کے بعد یہ لوگ ہجرت کر کے کشمیر میں جا آباد ہوئے۔
ہمارا وانی قبیلہ بھی اسی گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ انڈس سیویلائزیشن میں
کاروبار کرنے والے لوگ ہوا کرتے تھے۔ سندھی زبان میں آج بھی کاروبار کو "
ونڑج " کہا جاتا ہے۔
یہ موضوع طویل ہے لیکن کہنا یہ چاہتا ہوں کہ حریت پسندی کشمیریوں کے خون
میں شامل ہے انہوں نے نہ آریائوں کا قبضہ تسلیم کیا تھا نہ بھارت کا کبھی
کریں گے ۔کشمیریوں کے جسموں کو تو زنجیروں میں جکڑا جا سکتا ہے لیکن ان کی
روح کو کبھی غلام نہیں بنایا جا سکتا ۔ یہ بات بھارت اور دیگر جتنی جلدی
سمجھ لیں یہ ان کے حق میں بھی بہتر ہو گا۔ |