دنیا میں کچھ شخصیات جہدمسلسل کی علامت ہوتی ہیں جن کی
زندگی محنت لگن اورجوش و جذبہ سے بھرپورہوتی ہے ایسی شخصیات اپنی جدوجہدکی
وجہ سے معاشرہ میں ایک مقام کھتی ہیں اوران کے مثبت کام کے اثرات پورے
معاشرہ پرپڑتے ہیں اسکے علاوہ ایسی شخصیات ہی قابل تقلیداورقابل تحسین وتی
ہیں ایسی ہی ایک شخصیت ڈاکٹرعاشق ظفربھٹی ہیں جنہوں نے ایک متوسط طبقہ سے
تعلق ہونے اوردورافتادہ اورپسماندہ علاقہ کے باسی ہونے کے باوجودملکی سطح
پرسماجی ،صحافی اورسیاسی خدمات کی بدولت ایک نمایاں نام کمایااورکئی نیشنل
انٹرنیشنل اداروں سے تعریفی اسناداورایوارڈ زسے نوازے گئے۔
صحافت کسی ملک کی قومی زندگی میں آئینہ کی حیثیت رکھتی ہے پاکستان کی آزادی
کے وقت میں نامورصحافی مولانا محمدعلی جوہراورمولانہ ابوالکلام آزاد کے نام
پیش پیش ہیں ۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صحافت نے ترقی کی اخبارات
پھرریڈیو، پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک میڈیااوراب سوشل میڈیاپرصحافت کا سفراب
بھی جاری ہے ۔ہمیشہ ایماندارصحافی نے اپنے جان ومال کی پرواہ کیے بناحق وسچ
کا ساتھ دیا اس ایمانداری اورمحنت کی وجہ سے شہرت خود ان کے قدموں تک آ
پہنچی ان ناموں میں ایک نام ڈاکٹرعاشق ظفربھٹی کا ہے جن کا تقریباً 42سال
سے صحافت سے تعلق ہے ۔ڈاکٹرعاشق ظفربھٹی ضلع مظفرگڑھ کے ایک گاؤں جتوئی میں
پیداہوئے جن کے والدمیاں اﷲ یاربھٹی جواپنے علاقہ کے زمیندارتھے ۔ڈاکٹرعاشق
ظفربھٹی 1958میں پیداہوئے ابتدائی تعلیم ہائی سکول جتوئی سے حاصل کرنے کے
بعدگریجوایشن کیلئے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپورچلے گئے تویونیورسٹی لائف سے
ہی آپ نے صحافت اورسیاست کآغاز کیااور ELECTIONکے ذریعے یونین کے جوائنٹ
سیکرٹری اورATIکے ضلعی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے اور1976میں اپنے صحافتی
سفرکاآغاز کیا اور1977میں ذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف تحریک نظام مصطفی (PNA)چلی
تواس وقت آپ رپورٹنگ کرتے تھے۔آپ نے اپنے صحافتی سفرکویہاں تک نہ روکا بلکہ
1982میں آپ کی محنت اورنڈرصحافت کی وجہ سے آپ کو ڈیرہ غازی خان میںWORLD
ISLAMIC Times اسلام آباد کا بیوروچیف مقررکیاگیا۔ اس وقت صحافت کے عظیم
شعبہ سے بہت ہی کم لوگ منسلک تھے اسی وجہ سے ایسے نمائندہ کی خواہش ہرادارہ
رکھتا تھا کہ ہمارے لیے رپورٹنگ کرے اسی وجہ سے ’’روزنامہ مرکزاسلام
آباد،روزنامہ پکار‘‘کانمائندہ بنایاگیااس زمانہ میں کسی قسم کی سیکورٹی کا
کوئی تصورنہ تھابلکہ اچھی رپورٹنگ کرنے والے صحافی کوادارے نمائندہ بننے کی
پیش کش کرتے تھے۔1982میں سرائیکی تحریک کوپرموٹ کرنے کیلئے سرائیکی ہالی
کمیٹی بنائی گئی۔1983میں تحصیل پریس کلب علی پوربناتواس میں باقاعدہ الیکشن
ہوئے اوراس میں شاہدراہی صدراورڈاکٹرعاشق ظفربھٹی نائب صدرمنتخب
ہوئے۔1985میں آپ نے DHMSکرلی جس کے بعدآپ نے اپنے علاقے کی محرومی کومحسوس
کرتے ہوئے استاد فداحسن گاڈی کے ساتھ جواس وقت ہائی سکول جتوئی کے
ہیڈماسٹرہواکرتے تھے کے ساتھ مل کرسرائیکی ادبی سنگت بنائی جس کے تحت
متعددادبی مشاعرے کیے اوراسی دوران سرائیکی صوبہ محاذ بناتوتاج محمدلنگاہ ،قاری
نورالحق قریشی،محمداسلم رسولپوری،عاشق بزدارجیسے چنددیگردوست شریک ہوئے اسی
دوران آپ روزنامہ آفتاب اور ’’روزنامہ امروز‘‘ میں نمائندہ تھے اورسرائیکی
صوبہ محاذ کی رپورٹ بنائی آپ کو صحافت سے محبت اورانتھک محنت کودیکھتے ہوئے
اقبال ساغرصدیقی نے آپکوروزنامہ امروز کا نمائندہ بنایا۔80کی دہائی میں نہ
توکمپیوٹرتھااورنہ موبائل اسی وجہ سے خبریں ڈاک کے ذریعے ارسال کرتے تھے
اگرکوئی اہم خبرہوتی توکسی آدمی کوخبرکے ساتھ ملتان روانہ کردیتے تھے
یاپھرپی ٹی سی ایل پرلکھواتے تھے۔اسی دوران آپ نے سردار کوڑاخان پرریسرچ کی
اوران کے نام سے سردارکوڑاخان اکیڈمی بنائی جس کے صدرفیاض خان جتوئی اورآپ
نے جنرل سیکرٹری کے فرائض انجام دیے اوران کے بارے میں متعددمضامین لکھے۔اس
اکیڈمی کے مقاصدکوڑاخان کی 8600کنال اراضی کی آگاہی مہم اخبارات کے ذریعے
چلائی اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کا نصف علاقے کے غریب طلباء کووظائف دیے
جائیں ۔اپنے دل میں وسیب کا دردہونے کی وجہ سے کئی سیاسی وسماجی تنظیموں کا
حصہ بنے اورخودسماجی تنظیم انجمن اصلاح معاشرہ بنائی اس تنظیم نے دنوں میں
شہرت کی بلندیوں کوچھواتواس کی شہرت کی وجہ سے اس وقت کے وزیراطلاعات
ونشریات راجہ ظفرالحق نے ڈپٹی کمشنرکوکہا کہ انجمن اصلاح معاشرہ اچھاکام
کررہی ہے تو اس تنظیم کی ہرمیٹنگ میں جایا کریں جس کے بعدDCنے آپ سے رابطہ
کیا اورساری بات بتائی توآپ نے ویلکم کہا۔اس تنظیم نے کامیابیاں سمیٹی
توآگے جاکراس تنظیم کوایمرآرگنائزیشن کی شکل اختیارکرلی جس نے سماجی میدان
میں مظفرگڑھ کے تمام اداروں کو پیچھے چھوڑدیا۔اس کے ساتھ ساتھ آپ نے صحافت
میں آپ کا قدکاٹھ اونچاہواتو1991میں آپکونوائے وقت کے نمائندے بنے توظالم
اوربیوروکریسی کوچیلج کیاجس کی وجہ سے آپکومتعددجھوٹے مقدمات کاسامناکرنا
پڑاجن کا آپ نے ڈٹ کرمقابلہ کیا اوراﷲ پاک نے آپکو کامیابی سے نوازا۔نوائے
وقت میں آپ نے اس وقت کے SHOجتوئی نے تین بھائیوں کوننگا کرکے تھانے کے
چکرلگوائے آپ نے حق سچ کا ساتھ دیا اورSHOکومعطل ہونا پڑا۔مختیارمائی
زیادتی کیس کی رپورٹنگ اورآرٹیکلزلکھے جسکی وجہ سے ملزمان کوسخت سزاہوئی
اسی طرح 2003میں سپین کی عالمی سماجی تنظیم میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے
ایک کانفرنس منعقد کی جس میں آپ کو اورمختیارمائی کوشرکت کی دعوت دی گئی جب
سپین پہنچے تووہاں اس کانفرنس کے مہمان خصوصی میں اردن کی ملکہ رانیہ کے
علاوہ بین الااوقوامی سطح پرکام کرنے والی دوخواتین کے علاوہ مختیارمائی
اورڈاکٹرعاشق ظفربھٹی مہمان خصوصی تھے یہ دوران تقریباً ایک ہفتہ پرمشتمل
تھا۔ جب آپ جھوٹے مقدمات میں سرنہ جھکایا تومخالفین نے آپ کے
گھرمتعددبارڈکیتیاں کرائیں مگرآپ نے پھربھی اﷲ کے سواکسی کے آگے سرنہ
جھکایا۔1988سے لیکر1999تک آپ نے کئی سرائیکی میلے اورسرائیکی کانفرنس
کرائیں1989میں پونم تحریک کے رکن بنے ۔قومی انقلابی پارٹی کے جوائنٹ
سیکرٹری منتخب بھی ہوئے اورسرائیکستان قومی انقلابی پارٹی کے جنرل سیکرٹری
منتخب ہوئے ۔2003سے آپ ایکسپریس نیوز اورایکسپریس کے نمائندے کے طورپرکام
کررہے ہیں اس دوران آپ نے مشہورزمانہ’’ڈبہ پیر،جتوئی ناکارہ سیوریج،جعلی
پیر ،میرہزارمیں 50سالہ کریم مائی کے ساتھ 16درندہ صفت انسانون نے زیادتی
کی جس کی آپ نے رپورٹنگ کی اورقانونی جنگ لڑنے کیلئے ہائی کورٹ میں مظلوم
خاندان کو مفت وکیل فراہم کیااس کے وقت کے وزیرداخلہ نصیراﷲ بابرنے آپ کی
رپورٹ کوقومی اسمبلی میں پیش کیا جس پرملزمان کے خلاف فوری ایکشن ہوا۔ آپ
نے THE MUSLIMاسلام آبادکے ڈیرہ غازی خان میں کام کیا،روزنامہ صاحب اورسہ
روزہ صاحب میں کام کرکے متعدد کرپٹ اوردونمبرمافیاکوبے نقاب کیا،
دنیانیوز،روزنامہ پاکستان، DailyFrontierPOSTلاہورمیں کئی سال کام
کیااورمتعددمقامی اورقومی اخبارات میں ایڈیٹروسب ایڈیٹرکے طورپرکام
کیا1995سے اب تک روزنامہ خبریں میں آرٹیکل لکھتے آئے ہیں اوررائٹرزمیں
اپنااونچا نام رکھتے ہیں۔آپ تحصیل پریس کلب جتوئی کے بانی ہیں اور 7مرتبہ
صدر منتخب ہوئے۔FAFENجوپاکستان کابڑاادارہ ہے آپکی تنظیم ایمزآرگنائزیشن اس
کے رکن تھی آپ ایمزکے ایگزیکٹوڈائریکٹرکے طورپراور 2008سے 2013تک ادارے کے
ساتھ کام کیا۔صحافت کے ساتھ آپ نے سماجی کاموں پربھی توجہ دی اور2010کے
فلڈکے بعدراجن پورمیں 200مکانUNHCRکے تعاون سے بنوائے،رحیم یارخان،تحصیل
خانپورمیں 1300مکاناتIOMکے تعاون سے بنواکردیئے۔UN-HABITATEکے ادارے کے
ساتھ مل کرمظفرگڑھ میں 100مکان اورکئی کلومیٹرسولنگ اورکھالے بنوائے جبکہ
خانپورمیں5000خاندانوں اورجتوئی میں 4000خاندانوں کوٹینٹ،برتن اوربسترے دیے
اور5000غریب خاندانوں کوخوراک فراہم کی ان سماجی تنظیموں میں عمدہ کارکردگی
کی بناپرURIنے متعدد بار ایوارڈز سے نوازااورآپکونئی دہلی میں جوتقریباًایک
ہفتہ کی کانفرنس میں شرکت کی جس میں امن اورسماجی ہم آہنگی ایوارڈدیاگیا ۔آپ
نے سیاست میں ظلم برداشت کرتے رہے کبھی سیاست کی وجہ سے مشکلات
کاسامناکرناپڑاتوکبھی صحافت کی وجہ سے مگرآپ نے حق اورسچ کا ساتھ نہ
چھوڑااورہمیشہ مثبت صحافت کی جس کی وجہ سے کئی صحافتی اداروں نے ایوارڈز سے
نوازا جس میں ایکسپریس نیوزنے آپکوایوارڈ دیااورTMAکی طرف سے4مرتبہ سالانہ
BESTرپورٹنگ ایوارڈزسے نوازاگیا آپ کے نقش قدم پرچل کرآپ نے اپنے ایک بیٹے
کوالیکٹرانک میڈیاایک کوپرنٹ میڈیااورایک کوکالم نگارتیارکردیاہے جوآج اچھے
نام سے معاشرہ کی خدمت کررہے ہیں۔
|