پاکستان بھر میں بچوں کیساتھ جنسی زیادتی، قتل اور
استحصال کے بڑھتے واقعات ایک حقیقی خطرہ بن چکے ہیں، جہاں کہیں توان ننے
پھولوں کو مسل کر رکھ دیا جاتا ہے ، تو کہیں جنسی زیادتی اور استحصال کرنے
والے درندے بچوں سے ان کی معصومیت اور ان کا بچپن چھین لیتے ہیں۔ قصور کی
تحصیل چونیاں میں گزشتہ ڈھائی ماہ کے دوران چار بچے اغوا ہوئے ، جن میں سے
تین کی لاشیں گزشتہ دنوں مٹی کے ٹیلوں کے قریب سے ملیں، جبکہ ایک بچہ 12
سالہ عمران ا بھی تک لاپتہ ہے ۔ قتل و درندگی کے ان انسانیت سوز واقعات پر
ہر آنکھ اشکبار ہے اور ان واقعات پر عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے،
اہل علاقہ نے ان واقعات کو پولیس کی لاپرواہی قرار دیتے ہوئے احتجاج کیا ،
اور تاجروں نے واقعے کے سوگ میں کاروباری مراکز بند رکھے ۔ واضح رہے کہ اسی
علاقہ کے گاؤں حسین والا میں2015ء میں لگ بھگ 300 بچوں کو جنسی زیادتی کا
نشانہ بناتے ہوئے ان کی وڈیوز بنا کر ان بچوں کے والدین کو بلیک میل کرکے
لاکھوں روپے بھی بٹورے گئے ۔ اس وقت پولیس اور مقامی سیاستدان معاملہ دبانے
میں مصروف رہے ، اس وقت عدلیہ کمیٹی بنائے جانے کی بھی بات ہوئی لیکن سیاسی
حالات کے باعث معاملہ دب کر رہ گیا۔ پھر چار جنوری2018 ء کو 7 سالہ زینب کی
لاش کچرے کے ڈھیر سے ملی تو پورے ملک میں بچوں سے زیادتی کے خلاف موثر آواز
بلند ہوئی جس کی گونج سے سارا ملک ہل گیا۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اس
واقعہ کو بہت کوریج دی گئی جس سے ایک طرف تو زینب کے قاتل کو گرفتارکرلیا
گیا تو دوسری طرف لوگوں میں بچوں سے جنسی زیادتی جیسے واقعات کے حوالے سے
شعور اجاگر کرنے میں مدد ملی۔ 19 دن بعد عمران نامی شخص قانون کی گرفت میں
آیا، جس نے زینب کے قتل کا اعتراف کیا، جبکہ اس ملزم کے ڈی این اے ٹیسٹ سے
معلوم ہوا کہ یہ اس سے پہلے بھی سات بچیوں کو اسی طرح قتل کرچکا ہے ۔ ننی
معصوم زینب کی تدفین تو ہوگئی مگر اس کے قتل پر اٹھنے والا سوال کہ’’ آخر
کیوں پا کستان میں بچے محفوظ نہیں؟‘‘ شاید کبھی دفن نہیں ہو سکے گا۔ زینب
کی روح ہم سے سوال کر رہی ہے کہ کیا یہ ملک صرف صاحب اقتدار افراد کے بچوں
کے لیے بنایا گیا تھا، اور کیا عام افراد کی بیٹیاں درندوں کے رحم و کرم پر
چھوڑ دی گئیں ہیں؟زینب قتل کیس کے بعد بھی کوئی ایسا نظام یا پولیس کی
اصلاح نہیں کی گئی جس سے آئندہ کیلئے بہتری کی امید کی جاسکے اور ایسے
واقعات سے بچا جاسکے۔ آج بھی پاکستان میں بہت سی چھوٹی اور بڑی زینب ہیں جن
کے قاتل اسی دھرتی پر دندناتے پھر رہے ہیں، وہ انصاف مانگتے مانگتے تھک
گئیں مگر انصاف سے محروم رہیں بدقسمتی سے ان کے معاملات کو سنجیدگی سے نہیں
لیا گیا۔ اور اب پھر قصور کے اسی علاقے سے ایک بار پھر معصوم بچوں کے اغواء
زیادتی اور قتل کا دلخراش واقعہ پیش آیا ، تین بچوں کے قتل جیسے سانحات کے
بعد محض پولیس افسران کو معطل کرنا کافی نہیں۔ عوامی اشتعال کم ہونے پر
مزید کیا ہوگا کسی سے پوشیدہ نہیں، انکوائری کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی،
شفاف تفتیش اپنی نگرانی میں مکمل کروا کر رپورٹ بھیجوانے کا حکم جاری کیا
جائے گا اور کچھ دنو ں بعد سب بھول بھولیوں میں کھو جائے گا۔
یہاں واضح رہے کہ غیرسرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق ہمارے ملک میں ہر روز
تقریباً11 بچے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔سال 2016 ء کی ایک رپورٹ کے
مطابق بچوں کے خلاف جو بڑے جرائم رپورٹ ہوئے ان میں اغواہ کے1455 کیس، ریپ
کے 502 کیس، بچوں سے بدفعلی کے453 ، گینگ ریپ کے271 کیس، اجتماعی زیادتی کے
268 ، جب کہ زیادتی یا ریپ کی کوشش کے 362 کیس سامنے آئے ۔ اسی طرح 2017 ء
کے اعداد و شمار کے مطابق1441 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ 15
واقعات کو فلمایا گیا، زیادتی کے بعد 31 فیصد بچوں کو قتل کر دیا گیا۔
رپورٹ پر نظر پڑتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ہمارا مستقبل، ہمارے بچے
کتنے بڑے خطرے سے دوچار ہیں۔ بچوں سے زیادتی، تشدد، ریپ کیسز میں مسلسل
اضافہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ۔ حکومت
کو ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون بنا کر سخت ترین سزا کا اجرا کرنا
ہوگا، کیونکہ جب کوئی عمل فطری، اخلاقی احساس، تعلیم و تربیت اور سماج کے
دباؤ سے ماورا ہو جائے تو قانون کا خوف جرم کے سدباب کا واحد ذریعہ ہے ۔
بلاشبہ معاشرتی خرابیوں کے خلاف قانون بنانے کا مقصد معاشرے کو جرائم سے
پاک کرنا ہوتا ہے اگر پھر بھی حالات جوں کے توں رہیں تو اس کا مطلب یہ ہے
کہ قانون میں کوئی پہلو ایسا رہ گیا ہے کہ جس سے جرائم کی حوصلہ افزائی
ہورہی ہے۔ مغربی ممالک میں تو انٹرنیٹ پر چائلڈ پورنوگرافی کو جنسی زیادتی
کا بڑا سبب قرار دیا جاتا ہے،جبکہ پاکستان کے ماہرین نفسیات و سماجیات کو
بھی اس کے اسباب پر تحقیق اور سدباب کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنی چاہیے۔
ماہرین کے مطابق ایسے واقعات میں وہ لوگ ملوث ہوتے ہیں جو بچپن میں جنسی
تشدد کا نشانہ بنے ہوں، ساتھ ہی پورن دیکھنا بھی محرکات میں داخل ہے ۔ جبکہ
لوگوں کے رویوں کو تشکیل دینے اور ان پر اثر انداز ہونے میں میڈیا کی اہمیت
سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ میڈیا آگاہی بھی پیدا کرتا ہے اور ارباب اختیار
کو ان واقعات کی روک تھام کے لیے عملی قدم اٹھانے پر بھی مجبور کرتا ہے، ان
مسائل کو پبلک ایجنڈا میں شامل کرانے میں میڈیا ہی کی طاقت پوشیدہ ہے۔ملکی
میڈیا میں بھی اس مسئلے پر آگاہی کے لیے بھرپور مہم چلانے کی ضرورت ہے ۔
بچوں کو جنسی استحصال کا آسان نشانہ بننے سے بچانے کے لئے قانون نافذ کرنے
والے اداروں کی استعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ ، ہیلتھ اینڈ فزیکل
ایجوکیشن کو نصاب میں شامل کرنا، بچوں کو خطرات سے نبٹنے کے لئے تکنیکی
سہولتیں فراہم کرنا بھی انتہائی ضروری ہو چکا ہے۔ والدین کا کردار یہاں بہت
زیادہ اہم ہے ، والدین اولاد سے دوریاں ختم کر کے دوستی کے رشتے کو پروان
چڑھائیں تاکہ کوئی تیسرا اس تعلق میں نہ گھس سکے ۔ ان کے ہر عمل پر نظر
رکھیں، ان سے ملنے جلنے والوں پر نظر رکھیں، کسی پر بھی اندھا اعتماد نہ
کریں۔ بچوں کی بات پر توجہ دیں، اگر وہ کسی ایسی بات، یا کسی کی کسی حرکت
کی آپ سے شکایت کریں تو بچوں کی حفاظت کو یقینی بنائیں۔ انہیں حفاظتی
تدابیر سے روشناس کروائیں، تاکہ وہ کسی کی بھی لالچ میں نہ آ سکیں، کیونکہ
اکثر واقعات میں بچے کو کسی چیز کا لالچ دے کر، گھمانے پھرانے کا لالچ دے
کر پھانسا جاتا ہے ۔ بچے ہمارے معاشرے کا مستقبل اور روشن کل ہیں ہر قیمت
پر ان کی حفاظت کرنا تمام مکاتب فکر کی اولین زمہ داری ہے،کیونکہ کوئی بھی
معاشرہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے گھناؤنے واقعات کو برداشت نہیں کر
سکتا۔آج معصوم بچوں کی روحیں ہم سے پوچھ رہی ہیں کہ اس ریاست کا مستقبل کیا
ہے جو اپنے معصوم بچوں کو بھی تحفظ نہیں دے سکتی؟ آخر پھول کب تک مسلے جاتے
رہیں گے۔
|